بچوں کے حقوق

منگل 25 فروری 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

کسی سیانے کا قول ہے کہ بچے کاذہن کسی تختہ سیاہ کی مانند ہوتاہے جس پر جو کچھ لکھاجائے وہ تاعمر پھر مٹ نہیں پاتا‘ ایک اوردانشور نے کہاتھا کہ بچے کا ذہن ایک ایسی خوبصورت سلیٹ کی مانند ہے جسے دنیا کی ہرشئے خوبصورت دکھائی دیتی ہے اوروہ چاہتا ہے کہ دنیا کی سب رنگینیاں اسی پر ہی لکھ دی جائیں۔بچوں کے متعلق تو یہ بھی کہاجاتاہے کہ وہ دنیا کی اصل خوبصورتی کے عکاس ہوتے ہیں ‘ بعض دانشوروں کا قول ہے کہ دنیا ایک گلستان ہے جو بچوں کے بغیر اجڑا ہوا لگتا ہے لیکن جونہی اس باغ میں بچوں کے قہقہے گونجتے ہیں تو پھر یہ باغ بھلا بھی لگتا ہے اورخوبصور ت بھی ‘محسوس یہی ہوتاہے کہ باغ کے ہرکونے میں خوشیوں کی ایک ایسی پھوار پڑی ہے جس کی خوشبو ذہن ودل کومعطر توکرتی ہی ہے لیکن اس کی بدولت دل مسرور ہوا کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

ایک اور دانشور کا قول ہے کہ کسی باغ کے مالی کو اگر ڈیوٹی سونپ دی جائے کہ وہ باغ کی رکھوالی کرے لیکن اس میں پودے نہ ہوں تو اس کے دل پر کیا گزرتی ہے ‘ مالک تو الگ لیکن ایک مالی جب خالی باغ کو دیکھتاہے تو اس کا دل ٹوٹ جاتا ہے ۔ ایسا ہی کچھ دنیا کے اس با غ کی مانند بھی ہے کہ جس کی سبھی رونقیں ‘رعنائیاں‘ خوشیاں ‘خوشبوئیں سبھی کچھ بچوں کی بدولت ہی ہیں۔
بچوں کی بات کرتے کرتے نجانے کیوں ذہن بھٹک جاتا ہے کہ دنیا بھر کے تمام ممالک میں (پاکستان کے سوا) بطور خاص خیال رکھاجاتاہے کہ بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت کرکے ایک ایسی نسل تیار کی جائے جو ملک وقوم کی باگ ڈور سنبھال سکے وہاں باقاعدہ نسل تیارکرنے کا اہتمام کیاجاتاہے ‘ ایک ایسی نسل جو آنیوالے وقتوں میں کاروبار مملکت تو سنبھالے لیکن ان کے اذہان میں ہوس اقتدار کا شائبہ تک نہ ہو ان کے دل حب الوطنی کے جذبوں سے سرشار ہوں لیکن ہمارے ہاں اول تو ایساکوئی اہتمام نہیں ہوا اگر ہوا بھی ہے تو وہ اس پیمانے تک کہ بچوں کی سوچ صرف اپنے آپ تک محدود ر ہ جاتی ہے۔
دنیا بھر میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے خصوصی دن منایاجاتاہے لیکن ہر”عالمی دن“ کی طرح اس دن کو بھی ”فارمیلٹی“ کے طور پر دیکھا‘ پرکھا اورجانچا جاتاہے ‘ ہم نے کبھی بھی نہیں دیکھا کہ ان خصوصی ایام کے موقع پر کئے گئے ”تجدیدعہد“ کو عملی شکل مل سکی ہو۔اسے سوائے بے کار کی مشق کے ‘ کچھ اور نہیں سمجھاجاسکتاہے۔ بہرحال بچوں کے حوالے سے یوں بھی ضرورت بڑھ جاتی ہے کہ زندگی کا چلتا ہواتیز رفتار پہیہ اس بات کا متمنی ہوتاہے کہ کاروبارزندگی چلانے کیلئے مسافربدلے جائیں‘نہ جانے یہ سوچ ہم میں کیوں پروان نہیں چڑھ پائی کہ ہر شعبہ خون کی تبدیلی کامتمنی ہوتاہے جس شعبہ کو نیا خون فراہم نہ کیاجائے وہ جامد ہوجاتاہے ‘ بالکل ٹھہرے ہوئے گدلے پانی کی طرح‘ اس میں کوئی حرکت ‘حرارت نہیں ہوتی۔ ایسی زندگی کو موت کے برابر ہی گردانا گیا ہے
بہرحال بچوں کی بات کرتے ہوئے حقوق کا تذکرہ بھی چھڑتاہے‘ اقوام متحدہ کے چارٹر 1989جسے حقوق اطفال کے نام سے جانا جاتا ہے‘ (بچوں کے حقوق کا میگنا کارٹا)کے مطابق مفت تعلیم ہر بچے کاحق ہے ‘ گو کہ پاکستان میں بھی مفت تعلیم کا نعرہ بلند کیاجاتا ہے لیکن اسکے باوجود کہیں نہ کہیں ”رکاوٹیں “ بہرحال سامنے آجاتی ہیں۔ ایسی ہی رکاوٹوں میں سب سے بڑا فعل تو غربت ہی ہے ‘پاکستان کی اکثرآبادی غربت کی آخری لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے‘ایسے میں جب تک گھر کا ہرفرد ”کماؤ پوت “ کا کردار ادا نہ کرے تو اس وقت جسم وجاں کا رشتہ قائم نہیں رکھاجاسکتا ۔ ظاہر ہے کہ اس ماحول میں بچے کیلئے تعلیم سے زیادہ اہمیت ورکشاپوں ‘ ہوٹلوں پر کام کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ گو کہ ”چائلڈلیبر “ کے حوالے سے عالمی چارٹر کے مطابق قوانین بھی قائم ہیں لیکن پاکستان میں آج بھی لاکھوں بچے غربت دور کرنے کیلئے محنت کرنے پر مجبور ہیں‘ اپنا اوراپنے گھروالوں کا پیٹ بھرنے کیلئے ان ننھے منے ہاتھوں کو دن بھر بھاری بھرکم کام کرنا پڑتے ہیں
بچوں کے حقوق صلب کرنے کے حوالے سے ایک اورنقطہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ دنیا بھر میں عموماً اور پاکستان میں خصوصاً بچے جسمانی استحصال کاشکار رہتے ہیں‘ یہاں دانشوروں کاقول یادآرہاہے کہ معاشرتی بے انصافی‘بے چینی جہاں دیگر برائیوں کو جنم دیتی ہے وہاں جسمانی برائیوں کو بھی خوب فروغ ملتا ہے‘ اسی قول کی روشنی میں دیکھاجائے تو پاکستانی معاشر ہ بھی کچھ ایسی ہی صورتحال کاعکاس بن چکا ہے جہاں بیروزگاری‘ مہنگائی‘ افراتفری عام ہے ایسے میں جسمانی بھوک نے جنم لیا اورپھر یہ بھوک بڑھتے بڑھتے نازک ترین رشتوں اورجذبوں کو بھی چاٹ چکی ہے۔ اسی بھوک کا شکارمعصوم بچے بھی ہوتے ہیں ۔ ماہرین نفسیات کے مطابق بدسلوکی ‘ جسمانی استحصال کا شکار کوئی بھی بچہ زندگی بھر اس خوف اوراستحصال کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکتا ۔ گو کہ اس بارے میں بھی دیگر عوامل کی طرح قاعدے قوانین بنائے گئے لیکن ان پر پوری طرح سے عمل درآمد نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے اب بچوں کے جسمانی استحصال کی شرح میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔
معروف بھارتی فنکارعامر خان ایک ٹی وی شو بنامSatyamev Jayate کرتے رہے جس میں دیگر امور کے علاوہ بچوں سے ہونیوالی زیادتیوں کے بارے پروگرام پیش کیاگیا جس میں بچپن میں زیادتی کا شکارہونیوالی خاتون‘ مرد کی کہانی آشکارکرکے گویا معاشرہ میں بسنے والے افراد کی دوعملی بھی واضح کی گئی ‘ دونوں ہی اپنے قریبی پاک پوتررشتوں کی ہوس کاشکار ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ یقینا ایسے عوامل کسی بھی معاشرہ کے منہ پر کالک کادرجہ رکھتے ہیں۔ اسی پروگرام کے آخر میں نتیجہ اخذ کیاگیا کہ بچپن میں بدسلوکی کاشکار بچے کا ذہن زندگی بھر اس واقعہ یا واقعات کو کھرچ نہیں پاتا اورپھر وہ جونک کی طرح ان کے ذہن ‘جسم کو چمٹ کر رہ جاتا ہے۔
جیسا کہ عرض کیاجاچکا ہے کہ 1989 میں بچوں کے حقوق اور استحصال زدہ بچوں کے تحفظ کیلئے اقوام نے ایک چار ٹر منظور کیا تھا جس کی توثیق پاکستان نے 1991ء میں کی پاکستان میں سپارک نامی ایک رفاحی تنظیم کے زیرنگرانی سی آرسی (چلڈرن رائٹس کمیٹی )ملک کے 145 مقامات پر بچوں کے حقوق کی بازیابی‘ تحفظ اور دیگر عوامل کے حوالے سے متحرک ہے۔ ان کوششوں کے ثمرات تو فی الوقت اس حد تک دکھائی نہیں دیتے تاہم مستقبل قریب میں امید رکھی جاسکتی ہے کہ اس کے ثمرات بہتر ثابت ہونگے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :