مادر علمی کی دوپہر اور ایک خوبصورت شام

بدھ 12 مارچ 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

بقول کامران مجاہد” اہلیان پاکستان کاحال بھی قومی کرکٹ ٹیم جیساہو چکا ہے۔ مقابلہ کر نے پر آئے تو طاقت ور ٹیم کو شکست سے دوچار کردے اور ہارنے پر آئے تو چھوٹی سے چھوٹی ٹیم کے آگے گھٹنے ٹیک دے۔بالکل ایسے ہی ہم لوگ اپنی آئی پر آئیں تو ایٹمی دھماکہ کر کے عالمی طاقتوں کو حیران کردیں اور نا اہلی کا ثبوت دینے پر آئیں تو تھر میں قحط سے مرنے والے بچوں کی بھی خبر نہ ہو“۔

ایسا ہی کچھ حال میرا ہے کہ دل کرے تو چھوٹی سے چھوٹی تقریب میں بھی حاضری ممکن ہو جاتی ہے اور نہ کرے تو بڑی سے بڑی محفل میں جانے سے گریز ہی کر تا ہوں۔وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی جناب کامران مجاہدنے سابق نگران وزیراعلیٰ بلوچستان نواب غوث بخش باروزوئی کے اعزازمیں اخبار نویسوں کے ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ اور لمبے چوڑے کھانے کا بندو بست کر رکھا تھاجس میں شدید مصروفیات کی وجہ سے شرکت کا کوئی ارادہ نہ تھالیکن عزیزم انیق احمد صاحب کی تشریف آوری نے مجھے اپنی مصروفیات کو ترک کرکے یہاں آنے پر مجبور کیا۔

(جاری ہے)

کامران مجاہد صاحب کا یہ خاصہ ہے کہ وہ وقتاََ و فوقتاََ مختلف طبقہ ء حیات کے افراد کو اہمیت کے حامل موضوعات پر گفتگو کر نے اور معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتے گھمبیرمسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے مد عو کرتے رہتے ہیں جہاں اپنی سخاوت کا اظہار کرتے بے تکلف کھانے کااہتمام بھی خوب فر ماتے ہیں ۔نوا ب صاحب ایک اچھے انسان ہونے کے ساتھ منجھے ہوئے سیاست دان بھی ہیں اور انہیں یہ سب کچھ اپنے والد کی طرف سے وراثت میں ملا ہے ۔

الیکشنوں کے دنوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے انہوں نے فر مایا کہ جنرل الیکشن کے موقع پر بہت سے لوگ اندیشے پیدا کر رہے تھے کہ بہت خون بہے گا۔ بلوچستان میں الیکشن نہ کرائے جائیں اور اگرکروانے ہیں تو قسطوں میں کرائے جائیں۔لیکن میں اللہ کے فضل و کرم سے استقامت کے ساتھ اپنے کام پر لگا رہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بغیر کسی خون خرابے کے الیکشن منعقد ہوئے ۔

مادر علمی کی پر سکون فضا میں منعقدہ مختصر مگر خوبصورت تقریب میں جہاں بعض سینئر اخبار نویسوں کے ایک دوسرے پرباتوں کے چوکے چھکے اس تقریب کو مزید چار چاند لگا رہے تھے ۔یہاں سے فراغت کے بعد شیڈول میں پہلے سے موجود خالد یعقوب صاحب کی طرف سے اینکر پرسن برادرم انیق احمد کے اعزاز میں دئیے گئے عشائیے میں شرکت کے لئے حاضر ہونا تھا جہاں بہت سے مذہبی سکالر اور علما ء کرام بھی موجود تھے۔

قارئین محترم! خالد صاحب گھی کے کاروبار سے منسلک اور وسیع دل کے مالک ہیں۔یہی وجہ ہے کہ 1990میں چند ہزار تنخواہ پر ملازمت کرنے والے شخص کئی گھروں کے چولہا جلانے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔اخلاص اور محبت کا مجسم پیکر جن کی قربت میں بیٹھنے سے دل کو اطمینان کی دولت نصیب ہوتی ہے۔کوئی مہینہ ایسا نہیں گذرتا جب دوستوں کو ایک جگہ جمع نہ کریں۔پھر معاشرے کی گرتی ہوئی اخلاقی اقدار کو سنبھالا دینے کے لئے ہر وقت مصروف عمل ۔

اپنے قیمتی وقت میں سے زیادہ سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نام کیا ہوا ہے جہاں امید کا دیا روشن کئے نوجوانانِ قوم کی تباہ ہوتی اخلاقیات کو سنوارنے کی اپنی سی کوششوں میں مصروف ہیں۔اس بار بھی کھانے کی ایک رسمی سی تقریب فکری نشست میں تبدیل ہوگئی جہاں معاشرے میں بڑھتے ہوئے ناسوروں کے آگے بند باندھنے پرسیر حاصل گفتگو ہوئی ۔بالخصوص جب اسلام مخالف قو تیں بے دریغ اربوں روپے اس مقصد کے لئے خرچ کر رہی ہیں اور اسلام کی تعلیمات سے نا آشنا جاہل اور ڈرامہ باز لوگوں کو میڈیا پر اسلام کا ترجمان بنا کے بٹھا دیا جاتا ہے جو اسلام کو بالکل غلط طریقے سے پیش کررہے ہیں ۔

جبکہ علما ء کرام کی ایک کثیر تعداد ان تما م واقعات پر خامو ش تما شائی کا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے ۔
میں سمجھتا ہوں کہ انیق احمد وہ فرد واحد ہیں جو میڈیا پر اسلام کا صیح چہرہ دیکھانے کی کوشش کر رہے ہیں یہ بھی اس بات کا شکوہ کرتے نظر آئے کہ رمضان المبارک میں کے مبارک مہینے میں تھوک کے حساب سے اسلامی پروگرامات پیش کئے جاتے ہیں جس کی میزبانی زیادہ تررقاصاؤں اور اداکاروں کو دی جاتی ہے جن کااسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا ۔

افسوس تو اس بات کا ہے ان پروگرامات میں شریک علما ء کرام اس بات سے بے خبرہیں کہ معاشرے میں اس کے کتنے بُرے اثرات سامنے آرہے ہیں ۔میزبانوں اور مہمانوں کی جہالت میں لتھڑی بد بو دار باتوں سے نوجوان نسل میں مزید اضطراب پیدا ہو تا ہے جس کی وجہ سے اسلام سے قریب آنے کی بجائے وہ مزید راہ فرار اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔ علما ء کرام سے معذرت کے ساتھ میں یہاں یہ بات لکھنا چاہوں گا کہ دنیا میں اسلام کے خلاف ہونے والی میڈیا وار کے حوالے سے ہم کچھ بھی تیاری نہ کر پائے اور نہ کر رہے ہیں۔

ہم ابھی تک تصویر کے حرام اور حلال ہونے کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں اور اپنی اس ضد کے اتنے پکے ہیں کہ بعض مدارس میں تو ٹیلی ویژن دور کی بات اخبار نام کی کوئی شے بھی نہیں پائی جاتی ۔ضرورت اس امرکی ہے کہ ایسے افراد کی کھیپ تیار کی جائے جنہیں اسلام کے ساتھ معاشیات، سماجیات اور سیاسیات جیسے مختلف موضوعات پر بات کر نے کا ملکہ حاصل ہو اور آج کے نوجوان کے ذہن میں جو سوال جنم لے رہے ہیں ان کے جوابات دینے کی مقدور بھر صلاحیت بھی موجود ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :