شیخ رشید کا دکھ

اتوار 16 مارچ 2014

Munawar Rajput

منور راجپوت

شیخ رشید نے بھی حکومت کو بڑے دکھ دیے ہیں مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ جو زیادہ ڈینگیں مارتا ہے وہ چاروں ہاتھ پاوٴں سے پھنستا ہے۔ شیخ صاحب نے نہ جانے کس ترنگ میں حکومت کو چیلنج کردیا تھا کہ اگر ڈالر98 روپے پر آگیا تو وہ قومی اسمبلی کی نشست چھوڑکر لال حویلی میں رضائی اوڑھ کر سوجائیں گے۔ وزیرخزانہ جنہیں شیخ صاحب منشی اسحاق ڈار کہتے ہیں، گویا موقع کی تلاش میں تھے، انہوں نے ایسی کوئی جادو کی چھڑی چلائی کہ ڈالر ڈرامائی انداز میں 98 روپے کا ہوگیا۔

اب بے چارے شیخ رشید کی حالت اس بکری کی طرح ہے، جو ایک دیہاتی کے ہاتھ لگ گئی تھی، وہ اسے ذبح کرنا چاہتا تھا مگر چھری نہیں مل رہی تھی، ابھی وہ کوئی منصوبہ بنا ہی رہا تھا کہ بکری نے زور سے زمین پر لات چلائی اور مدتوں سے مٹی میں دبی چھری نکل آئی۔

(جاری ہے)

شیخ صاحب اول روز سے حکومت کے گلے پڑے ہوئے تھے۔ جب وہ وزراء کے لیے منشی، نکھٹو، نکمے اور مالشیے جیسے الفاظ ادا کرتے ہیں تو بہت سوں کو لطف آتا ہے، لیکن حکومت لال پیلا ہونے کے سوا کچھ نہیں کرپارہی تھی۔

وہ تو شیخ صاحب کی ”لمبی زبان“ کی مہربانی ہے، جس کی وجہ سے حکومت کو ان کی چھاتی پر پاوٴں رکھنے کا موقع مل گیا ہے۔
شیخ صاحب بہت جھنجلائے ہوئے ہیں، ہر شخص سلام دعا کے بعد یہی پوچھتا ہے استعفاء کب دے رہے ہیں؟ اگر دو چار دن اور معاملہ یوں ہی چلتا رہا تو استعفاء کا لفظ ان کی چڑ بن جائے گا۔ گلی محلے کے بچے ان کو استعفاء، استعفاء کہہ کر چھیڑا کریں گے اور یہ ان کے پیچھے یہ کہتے ہوئے دوڑ رہے ہوں گے تمہارا باپ استعفاء، تمہاری… وغیرہ وغیرہ۔

اور تو اور کل کلاں شیخ صاحب اسمبلی میں داخل ہوئے تو کوئی زور سے آواز لگادے گا استعفاء صاحب آرہے ہیں۔ شیخ صاحب بہت تپے ہوئے ہیں، ایک صحافی نے جب کھنکارتے ہوئے استعفے کا پوچھا تو صاحب نے غصے سے کہا کیوں میں کیا تمہاری بھینس کا دودھ پی کر بھاگا ہوں؟ کئی لوگوں کا خیال تھا شیخ صاحب زبان کی ”پھسلن“ کا پاس رکھتے ہوئے مستعفی ہوجائیں گے، مگر وہ بچے تو نہیں، انہوں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی ہی نہیں پیا بلکہ تیراکی بھی کرچکے ہیں۔

بڑے کائیاں انسان ہیں، اگر آپ کو ”کائیاں“ کا لفظ غیرمہذب لگ رہا ہے تو ان کے شایان شان کوئی اور لفظ تلاش کرلیں۔ شیخ صاحب چالاک اتنے ہیں کہ کبھی کسی اور مہمان کے ساتھ پروگرام میں نہیں آتے۔ ایک بار احسن اقبال ان کے ساتھ آکر بیٹھ گئے، لوگ خوش تھے کہ اب بڑا رن پڑے گا مگر شیخ صاحب پورے پروگرام کے دوران آپ، جناب ہی کرتے رہے۔ بہرحال شیخ صاحب استعفے سے بچنے کے لیے اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ کا سہارا لے رہے ہیں، کبھی پیٹرول سستا کرنے کی بات کرتے ہیں تو کبھی انہیں غریب آدمی یاد آجاتا ہے۔

ہمیں تو اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ استعفاء دیتے ہیں یا نہیں، مگر آدمی کو زبان کا پکا ہونا چاہیے۔
شیخ رشید عوامی مسلم لیگ نامی ایک تنظیم کے سربراہ ہیں۔ یہ تنظیم کہاں پائی جاتی ہے، اللہ ہی جانتا ہے۔ شاید کوئی ایسا خوش نصیب ہو جسے اس ”عوامی“ جماعت کے کسی دوسرے عہدیدار کا نام معلوم ہو۔ شیخ صاحب اس جماعت کے واحد عہدیدار ہیں اور شاید واحد کارکن بھی! نوابزادہ نصراللہ خان کی جماعت پر لوگ تانگا پارٹی کی پھبتی کستے تھے مگر شیخ صاحب کی لیگ کو تو تانگا پارٹی بھی نہیں کہا جاسکتا، اس کے لیے بھی چار، پانچ لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

سائیکل پارٹی کہہ لیں؟ مگر سائیکل پر بھی تین آدمی آسکتے ہیں اور شیخ صاحب تو اکیلے ہیں۔ لگتا ہے پیدل پارٹی ٹھیک رہے گا، کیونکہ پیدل تو آدمی اکیلے بھی چلتا ہے۔ شیخ صاحب سے جو نشست چھوڑنے کا کہا جارہا ہے، اسے حاصل کرنے کے لیے انہوں نے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے۔ شیخ رشید کا ماوٴنٹ ایورسٹ پر چڑھنا تو آسان تھا مگر یہ نشست جیتنا ناممکن تھا، یہ تو عمران خان کی مہربانی ہے جس کی وجہ سے شیخ صاحب دوبارہ اسمبلی دیکھ پائے۔

انہیں پتا ہے اگر یہ سیٹ ہاتھ سے نکل گئی تو دوبارہ تو جیتنا نہیں ہے، وہ مرجائیں گے مگر سیٹ نہیں چھوڑیں گے، ہوسکتا ہے بلاول سے متاثر ہوکر لال حویلی پر لکھوادیں مرسوں مرسوں، سیٹ نہ ڈیسوں!
ویسے مذاق کی بات الگ ہے مگر شیخ صاحب بہت مظلوم ہیں، جنرل کیانی نے ان کو بڑے زخم دیے ہیں۔ شیخ صاحب فوجی حکومت کے ساتھ خود کو زیادہ آرام دہ محسوس کرتے ہیں، اس لیے بے چارے پی پی کے پورے دور حکومت میں کیانی صاحب کی منتیں سماجتیں کرتے رہے۔

روزانہ اس انتظار میں رہتے تھے کہ جی ایچ کیو سے اب ایک جیپ اور دو ٹرک نکلیں۔ پورے پانچ برس صبح سے شام تک ان کا یہی کام رہا۔ کیانی کا دل نرم کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا، خودساختہ فوجی ترجمان بنے رہے۔ آخر تنگ آکر فوج پر ستو پی کر سونے کی پھبتی کستے رہے۔ ان کا خیال تھا شاید اس طرح کیانی کو غصہ آجائے اور وہ ٹارزن بن کر حکومت کو چلتا کردیں، مگر کیانی صاحب ضرورت سے زیادہ ہی جمہوریت پسند نکلے۔

آج کل شیخ صاحب نے جنرل راحیل سے لو لگا رکھی ہے۔ کھل کر ٹیک اوور کا مشورہ دیتے ہوئے ڈرتے ہیں لیکن ان کا دل یہی چاہتا ہے کہ میاں صاحبان ایک بار پھر سیاست کا ”گندا“ کام چھوڑکر مکہ شریف چلے جائیں!
شریف برادران سے یاد آیا، شیخ صاحب نے ان سے ”جھپی پانے“ کی بھی بڑی کوشش کی۔ انتخابات سے قبل میٹھے میٹھے بیان دیے، مگر شریف برادران کا دل تو گویا پتھر کا ہے، شیخ صاحب نے آنسووٴں کے دریا بہادیے لیکن ان کے دل پر ہلکاسا بھی اثر نہیں پڑا۔ شیخ جی نے عوامی مسلم لیگ بھی یہی سوچ کر بنائی تھی کہ شاید مسلم لیگوں کا اتحاد ہوجائے اور انہیں میاں برادران کی قربت مل جائے۔ لگتا ہے میاں صاحب ان سے بھی بڑے ”کائیاں“ ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :