اجڑتی کوکھ کا نوحہ

اتوار 16 مارچ 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

18بچے ڈائریا سے مرے،17بچے بخار سے مرے ، اور باقی بچے دیگر بیماریوں سے مرے اس میں قحظ کا کوئی قصور نہیں ۔ مجھے تو ان بیانات سے یہ محسوس ہونے لگا کہ جیسے "قحط" بھی کسی سیاسی پارٹی کا کوئی راہنما ہو جس کے ہر اچھے برے کام کی حمایت کرنا اس کے حواری اپنا فرض عین سمجھ رہے ہیں۔ سندھ حکومت کی ایک بانکی مشیر کے یہ الفاظ ہیں جن میں تھوڑی بہت کمی بیشی ہوسکتی ہے۔

کیوں کہ میں اس نوجوان نسل کا نمائندہ ہوں جو وقت سے پہلے بڑھاپے کی طرف رواں دواں ہے۔ لہذا بھول چوک معاف کیجیے گا۔
ان مشیر صاحبہ کے بقول تھر کا علاقہ تو شروع سے ہی اس "سوکھے پن" کا شکار ہے۔ لہذا اب اتنا واویلا کیوں کیا جا رہا ہے۔ شاید محترمہ کے اعدادو شمار ٹھیک ہی ہوں لیکن میرے خیال میں ان اعدادو شمار میں صرف ان بچوں کی اموات کو شامل کیا گیا ہے جو سانس لینے کے بعد داعی ملک عدم ہو گئے۔

(جاری ہے)

اس میں یقینا وہ ننھی جانیں شامل نہیں ہیں جو ماں کے پیٹ میں ہی ابدی نیند سو گئے کیوں کہ ان کی ماؤں کو غذا کے لیے کچھ میسر نہ تھا۔ مجھے حیرانگی ہوتی ہے جب کہا جاتا ہے کہ تھر کی تاریخ ہی یہی ہے۔ صرف تین ماہ میں کم و بیش 150 بچوں کی ہلاکت کیا عام سی بات ہے؟
اکثر صومالیہ، ایتھوپیا وغیرہ کی فوٹیج ٹی وی سکرین پر دیکھتے تھے تو کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے اور اللہ کا شکر ادا کرتے تھے کہ ہمیں اچھا کھانے کو میسر ہے۔

لیکن وطن عزیز میں جب سوکھے لب، پچکے پیٹ، پلپلاتی آنکھیں،چٹخکتی پسلیاں نظر آئیں تو اس حقیقت کا دارک ہو کہ ہم سب اپنی اپنی جگہ اس اجتماعی قتل میں برابر کے شریک ہیں۔ اس ملک کے "شریف" وزیر اعظم ، اور "ٹویٹر" راہنما کو بھی اب زحمت ہوئی کہ عوام کی صورت حال کا جائزہ لیں۔ اور مجھے تو رونا آ رہا تھا کہ بہت بڑی پارٹی کے سجیلے راہنما سفید قمیض پہنے، بازو فولڈ کیے اس طرح مسکرا مسکرا کے لوگوں کی طرف ہاتھ ہلا رہے تھے۔

جیسے تھر میں موت کی جگہ کوئی ثقافتی میلہ جاری ہو۔
حقیقت میں دیکھا جائے تو قصور ہمارے راہنماؤں کا نہیں ہے۔ قصور تو ان مرنے والے بچوں کا ہے۔ جو زندہ رہتے ہیں تو بھی واویلا کرتے رہتے ہیں۔ اور مر جا تے ہیں تو پھر بھی حکمرانوں کے لیے مشکلات کا باعث بن جاتے ہیں۔ اب ہمارے "محنتی" حکمران غیر ملکی دورے کریں۔ ٹویٹر پر پیغامات بھیجیں۔

ایک ڈکٹیٹر کو سزا دلوائیں یا عوام کے "بھوکے" پیٹ بھرنے پہ لگ جائیں۔ انہیں اس بات سے کیا غرض کہ جب ان کے پاؤں ثقافت کے احیاء کے نام پر "تھرک" رہے تھے تو کسی غریب کی سانسیں بھوک کی وجہ سے ختم ہو رہی تھیں۔ ہم اجتماعی طور پر ایک بے حس قوم ہو چکے ہیں۔ جب ہم اپنے گھروں میں نت نئے پکوان پکا رہے ہوتے ہیں تو ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ مٹھی، چاچڑو، اسلام کوٹ یا ڈیپلو میں کوئی ننھا پھول ایک نوالہ نہ ہونے کی وجہ سے جان کی بازی ہار گیا ہو گا۔


محترم خورشید شاہ سندھ حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ تو ان سے صرف اتنی سی گذارش ہے کہ جناب کیا قصور صرف کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کا ہوتا ہے؟ اپنے حال میں مست "پیر صاحب" دوسرا دور اقتدار اسی انداز میں گزار رہے ہیں کہ "حال مستم چال مستم "۔ کیا ان کا قصور نہیں بنتا؟ کیا سزا کے حقدار وہ نہیں ہیں؟ اور جو نام نہاد ثقافتی شو کے نام پر عریانی پھیلا رہے تھے ، ان کا اس میں کوئی قصور نہیں؟ کیا عوام کو آپ اسی طرح ہمیشہ بے وقوف بناتے رہیں گے؟ مجھے یاد ہے کہ ثقافتی شو میں تھرکی ثقافت کو پروان چڑھانے کے لیے ماڈلز کو بیش قیمت لباس پہنائے گئے تھے۔

اب تو حکومت کے لیے اور بھی آسانی ہو گئی ہے۔ کیوں کہ اگلے سال ثقافتی میلے کے لیے انہیں بھوکے بچوں کی آئیں اور سسکیاں میسر آگئی ہیں۔ وزیر اعظم کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ 125000 آٹے کے تھیلے تقسیم کیے جا چکے ہیں۔ صد افسوس کہ یہ آٹے کہ تھیلے تھری عوام تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکے جب تک وہ اپنے نونہالوں کی قربانی نہ پیش کر چکے۔ میڈیا پہ چیخ و پکار تو فروری کے مہینے میں شروع ہوئی۔

لیکن تھر میں تو قیامت کم و بیش ایک سال سے برپا ہے۔ محترم چیف جسٹس آف پاکستان کہتے ہیں کہ ہمارے سر شرم سے جھک جانے چاہیے۔ تو ان کی خدمت میں صرف اتنی سی گذارش کہ آپ تو اپنا فرض ادا کر رہے ہیں لیکن ہم نے بطور قوم بے شرمی کا لبادرہ اوڑھ رکھا ہے۔ ہمارے سر نہیں جھکیں گے۔ ہم تو مٹھی میں آنے والے معزز "مہمانوں" کی تواضح بھی "ملائی بوٹی " سے کرتے ہیں۔

یہاں تو ہمارے محترم "شاہ جی" جو سندھی عوام کی قسمت میں عرصے سے لکھ دیے گئے ہیں کہتے ہیں کہ ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی جا رہی ہے۔ تو جناب کاروائی تو آپ کے خلاف کی جا نی چاہیے۔
کیا کیا ستم زیر قلم لائے جائیں۔ یہاں تو لہو سے اس ملک کی تاریخ لکھی جا رہی ہے پھر بھی ہم دم سادھے بیٹھے ہیں اور حالات کی بہتری کی نوید سنا رہے ہیں۔خبر آئی کہ ملک ریاض حسین نے 20کروڑ کی امداد بھیجی ۔

ایدھی صاحب الگ سے اقدامات کر رہے ہیں۔ تو کیا یہ بہتر نہیں کہ اس ملک کو ایدھی صاحب جیسے لوگوں کے سپرد کر دیا جائے؟
صحرائے تھر میں "مور" قحط کی دہائیاں دے رہے تھے۔ اور ہم رقص و سرور کو ثقافت کا حصہ بنانے پر تلے ہوئے تھے۔ تھری ماؤں کی کوکھ اجڑ رہی تھی اور ہم ان کا نوحہ سن کر ماتم کے بجائے سازندوں کے ساتھ ہم آواز ہو کر تھرک رہے تھے۔

ہم یہ تک بھول گئے کہ جس "اجرک " کو ہم اپنی ثقافت کہہ رہے ہیں اس کا تھر کی زمین سے رشتہ کتنا مضبوط ہے۔ لیکن ہمیں اجڑتی کوکھ کی کیا فکر، ہم اس بات کا کیا غم کہ کتنے ہی نونہال جوماں کو ماں نہیں پکار سکتے تھے صحرا میں دفن ہو گئے۔ہمیں تو خوشی منانی چاہیے کہ تھری ماؤں کی چیخ و پکار اور آنسو تک خشک ہو گئے ہیں ، بھوک نے ان کی آواز تک ان سے چھین لی ہے لہذا وہ ہمارے " محفلوں" میں آہ و بکا کر کے مزہ کر کرا نہیں کریں گے۔


میں خود کو مجرم سمجھتا ہوں ننھی قبروں کے مکینوں کا، میں خود کو مجرم سمجھتا ہوں اس ملک کے " مستقبل" کا، میں خود کو مجرم سمجھتا ہوں خشک لبوں کا، میں خود کو مجرم سمجھتا ہوں ٹوٹتی امیدوں کا۔ کیوں کہ جب تھر کے پھول مرجھا رہے تھے میں منوں کے حساب سے کھانا کوڑے کے ڈھیروں پر پھینکنے والوں میں شامل تھا۔ میں آنکھیں بند کرتا ہو ں تو ایک صحرائی بچہ میرے سامنے آجا تا ہے۔ جو موت کی طرف جاتے ہوئے مجھ سے پوچھ رہا ہے کہ کیامیرے آباء و اجداد نے اس دھرتی کے لیے قربانیاں نہیں دیں؟کیا میرا بہتر غذا پر کوئی حق نہیں؟ کیا مجھے اپنا تن ڈھانپنے کا کوئی حق نہیں؟ پھر اس کی ایک طنزیہ مسکراہٹ اور کفن میں لپتا اس کا وجود۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :