سب کی نگاہیں پیمرا پر ۔ قسط نمبر2

ہفتہ 3 مئی 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

ذکر تھا کہ سب کی نظر” پیمرا“ پر لگی ہوئی ہے اور درمیان میں مارشل لاء لگانے والے جرنیلوں کا ذکر آ گیا ،جن کی آئین شکنی کو جواز بنا کر کچھ لوگ افواج ِ پاکستان کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ہم چند جرنیلوں کی آئین شکنی کو جواز بنا کر ایک انتہائی منظم اور مستحکم ادارے کے خلاف زہر کیسے اگل سکتے ہیں ؟
بہر کیف ، جیو گروپ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ مسئلہ دن بدن ہاتھ سے نکلا جا رہا تھا۔

ورنہ صلح پسند لوگوں کا تو خیال تھا کہ” جیو گروپ “ کو اپنی غلطی پر معافی مانگ لینی چاہیے اور جیو گروپ کی جارحیت کا نشانہ بننے والے ادارے کو بھی ، اس مسئلے کو گھر کا مسئلہ سمجھتے ہوئے در گزر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔لوگوں کا خیال ہے کہ ملک میں دو بڑے اداروں کے درمیان اتفاق و اتحاد کی فضا پیدا کرنے کے لئے یہ بڑا ہی نیک اور صلح پسندانہ مشورہ تھا۔

(جاری ہے)

لیکن جیسا کہ راقم زیر نظر کالم کی پہلی قسط میں لکھ چکا ہے کہ کچھ لوگ تاریخ ساز رِگنگ کی مدد سے چرائی ہوئی اپنی جمہوری طاقت کے زُعم میں، اپنے قومی ادارے افواج پاکستان سے پرانے حسا ب چکانے کی ضد کر بیٹھے ہیں اور یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں کہ فوج کے ایک انتہائی حساس اور ہر لہاز سے قابل فخر ادارے کے سربراہ جنرل ظہیر السلام اور اُن کے ادارے کی ساکھ کے خلاف کوئی مجرمانہ کھلواڑ ہوا ہے ۔

خیر اس حوالے سے حکومت کو زیر بحث لانا تو اس لئے بے معنی ہے کہ حکومت نہ صرف اپنے سبھی شعبوں میں اپنی رٹ قائم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے، بلکہ جیو گروپ اور موجودہ حکومت کے سربراہ بھارت نوازی میں بھی ہم خیال ہیں۔لیکن جیو گروپ ، جس کا اِس مسئلے سے برائہ راست تعلق ہے، اپنی ہٹ دھرمی کے حوالے سے اس کا روّیہ خا صا توجہ طلب ہے ۔وہ اس مسئلے کو ختم کرنے کے لئے اپنی ہٹ دھرمی پر تا دم تحریر قائم رہا ہے بلکہ جیو گروپ نے تو
( ماہنامہ آ فاق ٹورونٹو کے مطابق ) اپنی سبھی ایجنسیز پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کر دیا ہے ، با وجود اس کے کہ میاں نواز شریف نے جیو گروپ کو یقین دھانی بھی کرائی تھی کہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے،کوئی درمیانی راستہ نکال لیا جائے گا ، بہر کیف،اب کچھ اس قسم کی باتیں بھی سننے میں آئی ہیں کہ جیو گروپ معافی مانگنے کے لئے پر تول رہا ہے۔

سوال ہے کیا آئی۔ایس۔آئی کو اِس معاملے کو معاف کر دینا چاہیے ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں ہمارے دو بڑے قومی ادارے ہیں، قوم و ملت کی بھلائی کا تقاضہ تو بلا شبہ یہی ہے کہ ان کے درمیان بد گمانی کے بادل برسے بغیر ہی چھٹ جائیں۔ لیکن کیسے ؟
قا ر ئین ِ کرام ! اگر تو یہ سب کچھ غلطی سے ہوا ہے ،پھر تو معافی کی گنجائش ہے ،لیکن اگر یہ سب کچھ کسی بیرونی ایجنڈے کے نتیجے میں ہو ا ہے ، پھر معافی کی گنجائش ہر گز نہیں ہونی چاہیے کہ یہ ہمارے دفاع کی دیوار پر حملہ تھا۔


# سوال ہے،حامد میر پر حملہ ہوتے ہی جس بھر پوراعتماد کے ساتھ آئی۔ایس،آئی کے سربراہ جنرل ظہیر السلام کے خلاف مسلسل زہر اگلا جاتا رہا ہے ۔ اُن کی ساکھ کے پرخچے اڑائے جاتے رہے ہیں۔اگر یہ لوگ سچے تھے تو پھراُسی اعتماد کے ساتھ انہوں نے آئی۔ایس۔آئی کے سربراہ کے خلاف آیف۔آئی۔آر کیوں نہیں کٹوائی ؟ یہ بڑا گھمبیر اور غور طلب مسئلہ ہے ۔

قومی سطح کے حادثے ہمیشہ ہر خاص و عام کے لئے موضوع گفتگو بن جاتے ہیں۔بیرون ملک بھی اس حادثے کے بارے میں لوگوں میں گفتگو ہوتی ہے اور راقم نے کئی لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ ایف۔آئی۔آر اِس لئے نہیں کٹوائی گئی کہ جیو گروپ اس معاملے کی تفتیش سے بچنا چاہتا تھا۔اگر یہ سچ ہے ،تو پھر اسے غلطی نہیں کہا جا سکتا۔ اسے فوج کے ایک قابلِ فخر ادارے( اب تو میں نے اپنی آنکھوں سے گوگلز پر اپنے اس ادارے کو دنیا کے نمبر ۱ ادارے کی شکل میں دیکھ لیا ہے) کے خلاف سازش سمجھا جانا چاہیے، اور قوم کے دفاع کے خلاف سازش کرنے والے مجرموں کو ہر گز معاف نہیں کرنا چاہیے۔


ہمارے دفاع کی دیوار سے اینٹیں نکالنے کی سازش کے علاوہ، جیو گروپ جس طرح ہمارے معاشرے میں بے حیائی پھیلا رہا ہے، جس طرح بالی ووڈ کی فلموں کو پرموٹ کر کے پاکستانی فلم انڈسٹری کو نقصان پہنچا رہا ہے،وہ ایک الگ شرمناک موضع ہے۔
ہم جس طرح اپنی قومی غیرت سے بے نیاز ی کے شرمناک مظاہرے کرتے رہتے ہیں۔اِس حوالے سے بھی بہت کچھ لکھنے کو جی چاہتا ہے۔

ہندوستان میں ہر الیکشن کے موقعہ پر جس طرح مسلم دشمنی کو ایک نعرے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ،ہندوستانی لیڈروں کا یہ نعرہ بذاتِ خود ”دو قومی نظریے“ کی سچائی کا ضامن نعرہ ہے۔ ہندوستانی لیڈروں کی اِس اسلام دشمنی کے مقابلے میں، ” امن کی آشا “ کے چراغ روشن کرنے والوں کو ، یا یہ کہنے والوں کو شرم کیوں نہیں آتی کہ
” ہمارا کلچر ایک ہے، ہمارا اوڑھنا بچھونا ایک ہے،کھانا پینا ایک ہے۔

بس بیچ میں ایک باڈر آ گیا ہے۔“ ایسی قوم کو ، جسے اپنی قومی غیرت کی پاسداری کا احساس چھو کر بھی نہیں گزرا، ایک غیرت مند قوم کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے جو ایسے ایسے لیڈروں کو ووٹ دے کر اپنے کندھوں پر سوار کر لیتی ہے۔ورنہ جس طرح ہندوستانی لیڈر ہمارے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں۔خدا کی قسم کوئی غیر مند قوم، ایسی دشمن قوم کے مُنہ پر تھوکنا بھی پسند نہ کر ے ۔

سعادت حسن منٹو ( مرحوم )نے اپنے خاکے ” گنجے فرشتے“ میں سو فیصد درست کہا تھا کہ میں ایسے معاشرے پر اور ایسی قوم پر لعنت بھیجتا ہوں۔
ہم بیرون ملک پاکستانی ہندووٴں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ان کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اس لئے ہندوں کو اور ان کی پاکستان دشمنی کو جتنا ہم جانتے ہیں۔اتنا پاکستان میں بسنے والے ہمارے پاکستانی بھائی بہن نہیں جانتے۔اِس حوالے سے بہت ساری باتیں دل میں کانٹوں کی طرح چبھ چبھ کر بے چین کر رہی ہیں۔لیکن مجھے ہفتہ وار کیمو کے لئے ہسپتال جانا ہے۔(اس لئے باقی آئندہ )۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :