پھر وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہو گیا

جمعہ 23 مئی 2014

Sabookh Syed

سبوخ سید

حامد میر کی گاڑی جونہی سپریم کورٹ کے مرکزی دروازے کے سامنے رکی تو قلم کے سپاہیوں نے حامد میر کو اپنی محبت اور دعاؤں کے حصار میں لے لیا ۔ انہوں نے صحافیوں کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا اور ایک درد بھری مسکراہٹ کے ساتھ انہیں سلام کیا ۔ ان صحافیوں میں ملکی اور غیر ملکی ٹی وی چینلز اور اخبارات کے نمائندے شامل تھے ۔ انیس اپریل کو کراچی میں قاتلانہ حملے میں معجزانہ طور پر بچنے کے بعد وہ پہلی مرتبہ میڈیا کے سامنے آئے ۔

حامد میر زندہ باد اور پاکستان زندہ باد کے نعروں کی گونج میں حامد میر سپریم کورٹ کے احاطے میں داخل ہوئے ۔
حامد میر کے لیے سپریم کورٹ کے راستے نئے نہیں تھے۔ وہ اکثر سپریم کورٹ میں ان راہداریوں میں خبر کے حصول کے لیے تیز تیز چلتے دکھائی دیتے تھے ۔

(جاری ہے)

گاڑی سے اتار کر انہیں پہیوں والی کرسی پر بٹھایا گیا اور پھر جوڈیشل کمیشن کے سامنے پیش کیا گیا ۔

حامد میر کو دو روز پہلے ہی ڈاکٹرز نے اخبار پڑھنے ، ٹی وی دیکھنے اور ملاقاتوں پر پابندی عائد کر دی تھی ۔ان کی جان کو اب بھی خطرات ہیں لیکن حامد میر نے اپنے تمام دوستوں کے تحفظات اور خدشات کے باوجود اسپتال میں یا گھر میں آرام اور پناہ لینے کے بجائے اپنا مقدمہ پیش کرنے کے لیے عدالت کے سامنے حاضر ہو گئے۔ وہ کراچی بھی اس لیے گئے تھے کہ انہیں اگلے روز کوئٹہ میں ایک عدالت کے سامنے اپنے اوپر بنائے گئے ایک مقدمے کا سامنا کرنا تھا ۔


حامد میر کمیشن کے سامنے بیان دے رہے تھے جبکہ دوسری جانب سپریم کورٹ کے پریس روم میں سینئر صحافیوں ،پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ، نیشنل پریس کلب ،راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس اور سپریم کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن کا مشاورتی اجلاس شروع ہو گیا ۔ اجلاس میں تمام رہ نماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ ملک میں رائے کی آزادی پر قدغن لگانے کے کسی فیصلے کو قبول نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی کسی ٹی وی چینل یا اخبار کو بند کرنے کی سوچ کو قبول کیا جائے گا ۔

تمام صحافیوں نے انتہائی سخت الفاظ میں حامد میر پر بزدلانہ طور پر کئے گئے قاتلانہ حملے کی مذمت کر تے ہوئے کہا کہ حامد میر پر حملہ پاکستان میں صحافت ،جمہوریت اور شخصی آزادیوں پر حملہ ہے ۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ نے کہا کہ پاکستان میں صحافیوں کی صفوں میں اس وقت کوئی تقسیم نہیں اور ہر صحافی حامد میر ہے ۔اس موقع پر نینشل پریس کلب صدر شہر یار خان ، راولپنڈی اسلام آباد کے صدر علی رضا علوی ،جنرل سیکرٹری بلال ڈار ،سینئر صحافی اور اینکر مطیع اللہ جان ،خدایار مو ہلا، راشد حبیب ،خالد عظیم ،رانا مسعود،احسان حقانی، وحید مراد ، شہزاد خان عبدالشکور ،طارق چودھری ،طاہر اے خان سمیت سینئر صحافی موجود تھے۔

سینئر صحافیوں کا کہنا تھا کہ جہموری معاشروں میں صحافت معاشرے کی آنکھ اور کان سمجھے جاتے ہیں اور وہ لوگوں کی رائے کی آزادی کے لیے قربانیاں دیتے رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ غدار ،تکفیر اور بند کرو کی ناپسندیدہ آوازیں مہذب معاشروں کا خاصہ نہیں ۔ صحافیوں نے ٹی وی چینلز پر چلنے والے متنازعہ پروگرام کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کر تے ہوئے اسے معاشرتی اقدار کے منافی قرار دیا ۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جیو کی جانب سے معافی مانگنا اور پروگرام کی پوری ٹیم کو معطل کیا جانا خوش آئند عمل ہے ۔صحافیوں نے تجویز پیش کی کہ سینئر صحافیوں پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی قائم کی جائے جو موجودہ حالات کے تناظر میں اپنا کردار ادا کرے۔
اسی دوران اطلاع ملی کہ حامد میر کمیشن کے سامنے بیان دینے کے بعد کمرہ عدالت سے باہر نکل رہے ہیں تو ان کے احترام اجلاس ختم کر دیا گیا اور تمام صحافی پریس روم سے باہر نکل آئے ۔

سب نے حامد میر کو خوش آمدید کہا کہ اور ان کی پہیوں والی کرسی کے ساتھ ساتھ بڑھنے لگے ۔جونہی حامد میر عدالت سے باہر نکلے تو سامنے بے شمار کیمرے ان کی جانب متوجہ ہو گئے ۔وہاں بالکل خاموشی تھی ،اداس کر دینے والی خاموشی ۔ عموما کسی شخصیت کی آمد پر کیمرا مین اپنے کیمروں کے لینز صاف کر تے ہیں لیکن آج کئی کیمرا مین کیمروں کے لینز صاف کر نے کے بجائے اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کر رہے تھے ۔

حامد میر نے سب کو دیکھا اور ہاتھ لہرایا ۔ سپریم کورٹ کے احاطے کے باہر لگی لوہے کی گرل کے اس پار کھڑے لوگوں نے تالیاں بجائیں تاہم انہیں سپریم کورٹ کے احترام میں روک دیا گیا ۔ملک میں قانون کی حکمرانی چاہنے والے صحافیوں نے قانون پر اپنے جذبات قربان کر دیے۔ سہہ پہر کے چار بج رہے تھے۔ گرمی کا زور ٹوٹ رہا تھا اور ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ حامد میر کی گاڑی لائی گئی۔
کئی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی اور کئی چہروں پر خوش اور مسرت کی دوڑتی لہر ۔ صحافی خواتین نے ان کے لیے دعائیں شروع کر دیں ۔ صحافیوں نے انہیں الوداع کہا۔حامد میر اپنی پہیوں والی کرسی سے اٹھے، بیساکھی کے سہارے اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کی کوشش کی ۔دو قدم چلے اور پھر گاڑی میں بیٹھ گئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :