موبائل فون معاشرتی انتشار اور بڑھتے جرائم کا ہتھیار؟

جمعرات 5 جون 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

ہر نئی ایجاد انسان کی ضرورت کے طور پر پیش کی جاتی ہے اور ابھی تک دیکھنے میں بھی یہی آیا ہے کہ ہر نئی ایجاد نے انسان کو سہولتیں اور آسانیاں پہنچائی ہیں ،کہتے ہیں کوئی چیزبھی اچھی یا بری نہیں ہوتی بلکہ اس کا طریقہ استعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے ،عصر حاضر کی ایجاد سیل فون نے جہاں انسان کو انسان سے قریب کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے وہیں اس نے کئی طرح کی قباہتوں کو بھی جنم دیا ہے اس میں قصور سیل فون کا نہیں بلکہ اسے استعمال کرنے والے کریمنل زہنوں کا اور ریاست کی جانب سے موثر چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کا ہے۔

دور حاضر میں اس وقت جتنے جرائم ہو رہے ہیں ان میں سیل فون ایک کرائم آلے کو طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ،ملک بھر میں ہونے والی واردتوں کے اعداد و شمار اکٹھے کئے جائیں تو پتہ چلے گا کہ کریمنل نے سیل فون کے زریعے رابطہ کاری کی اور اپنے ہدف تک پہنچنے میں انہیں آسانی ہوئی اسی طرح دہشت گردی کی واردتیں ہوں ،اغوا برائے تاوان ، چور چکاری گھریلو ملازمین کی حرکتیں ،لڑکیوں کا گھروں سے دوڑنا ان سب واردتوں میں سیل فون کا استعمال کافی موثر نظر آتا ہے۔

(جاری ہے)


گزشتہ حکومت کے ایک وزیر باتدبیر رحمن ملک ہوا کرتے تھے انہوں کا ایک نسخہ کیمیا کسی خاص دن پر فون بند کرنا ابھی تک رائج اس لئے ہے کہ اس عمل سے دہشت گردی کی واردتوں پر کافی حد تک قابو پایا گیا۔ سیل فون پر پابندی کا عمل جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑنا اور رابطے ختم کرنا بتایا جاتا رہا جسے وقت نے ثابت کیا ہے کہ ان کا یہ عمل درست تھا۔


ناجائزطریقے اور بنا کسی خاص تصدیق کے حاصل کی گئی سم کارڈ دہشت گردوں اور سماج دشمن عناصر کے ہا تھوں میں بہترین ہتھیار ثابت ہو رہیں ہیں۔ کسی بھی دہشت گرد کے لئے جو پاکستان کے کسی بھی شہر میں افراتفری وانتشار برپا کرنا چاہتا ہو ، موبائل فون پر معمولی سبسکرائبر آئیڈنٹی موڈیول یا سم کارڈ ایک زبردست طاقتور ہتھیار ہے۔ بہت زیادہ پریشانی کاسامنا کئے بغیر سم کی فوری تبدیلی سے شناختوں اور اشتعال انگیزی برپا کرنے والوں کی نقل وحرکت کو خفیہ رکھا جا سکتا ہے اور اس کی مدد سے سیکورٹی ایجنسیوں کو بڑی آسانی سے چکمہ دیا جا سکتا ہے۔


گزشتہ دنوں اسمبلی کے فلور پروزیر ِمملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب کا کہنا تھا کہ افغانستان کی سِمز پاکستانی حدود میں بلاک کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ اکثر بھتہ خور انہی غیر ملکی موبائل سِموں کے ذریعے تاجروں سے بھتہ مانگتے ہیں اور جب پولیس یا دوسرے ادارے ان فون کالز کی تحقیقات کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فون افغانستان سے کیا گیا ہے۔

پاکستان میں افغانستان کی موبائل سِموں کا بڑھتا استعمال جرائم کی شرح میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ اسی سلسلے سے جڑا ایک حیرت انگیز امر یہ بھی ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے پاس افغانستان کی سِمز پاکستانی حدود میں بلاک کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ خیبر پختونخواہ کی مارکیٹوں میں کھلے عام افغانستان کی سمز فروخت ہورہی ہیں۔

وزیر ِمملکت نے تسلیم کیا کہ افغانستانی سم کے استعمال سے جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
پنجاب میں سٹریٹ کرائمز کی شرح میں اضافہ روزافزوں ہے۔ جبکہ صوبائی دارالحکومت میں بھی ڈکیتی، راہزنی، چوری اور قتل کی وارداتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پنجاب کے بعض شہروں کی اہم سڑکوں پر رات کے وقت سفر سکیورٹی رسک بن چکا ہے۔

بلکہ اب تو لاہور جیسے شہر کی پوش آبادیاں ہوں یا محلے چوروں ڈاکوں سے کچھ بھی محفوظ نہیں رہا ۔ 1985ء سے 11مئی 2013 ء تک8 منتخب جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر منتخب جمہوری حکومتیں عوام کو مسلسل یقین دہانیاں کراتی چلی آرہی ہیں کہ وہ جرائم کی بیخ کنی کرکے شہریوں کو جرائم پیشہ عناصر کی کارستانیوں سے مکمل تحفظ فراہم کریں گی۔

پنجاب حکومت تو خاص طور پر1997ء سے عوام کو باور کرارہی ہے کہ وہ تھانہ کلچر تبدیل کر کے دم لے گی لیکن میاں محمد شہباز شریف کے تیسری بار وزیر اعلیٰ بننے کے باوجو تھانہ کلچرجوں کاتوں ہے۔ اصل ضرورت پولیس کو مہذب بنانے کی ہے اور کسی محکمہ کے افسران و اہلکاران کو مہذب انسان بنانے کیلئے ان کی ذہنی، فکری اور نظری تربیت ناگزیر ہوا کرتی ہے۔


پاکستانی عوام جہاں ایک عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہیں وہاں ملک میں اغوا جیسے جرائم کی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا۔ ایک عالمی نشریاتی ادارے کے مطابق پاکستان میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اغوا کی وارداتوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے۔ گزشتہ برس کے پنجاب پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری سے جون کے اواخر تک مختلف نوعیت کے اغوا کی 7139 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔

پنجاب میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران کئی اہم شخصیات کو بھی اغوا کیا گیا۔ اغوا کی وارداتوں کی اصل تعداد سرکاری اعدادو شمار سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیو نکہ کئی افراد اس معاملے کو پولیس تک لے جانے کے بجائے بات چیت کے ذریعے حل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن پولیس افسران مغویان کی بازیابی کے لئے اس دلیل کا سہارا لیتے ہیں کہ’ اغواکار مغویوں کو ایسے علاقوں میں لے جاتے ہیں جہاں حکومتی رٹ پوری طرح قائم نہیں جیسے قبائلی علاقے۔

یا پھر کچھ معاملات میں اغوا کرنے والے دوسرے صوبوں میں چلے جاتے ہیں۔ان سب وارداتوں کے ساتھ سیل فون کسی نہ کسی طرح جڑا ہوا ہے۔
اب تو سیل فون کو ہمارے معاشرے میں تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا جاریا ہے جن میں بڑھتے ہوئے رومانی تعلقات اور گھروں سے بھاگ جانے کے واقعات میں اضافہ شامل ہے جبکہ موبائل فون کے بڑھتے ہوئے استعمال بالخصوص طلبہ و طالبات میں اس کے رجحان کی سب سے بڑی وجہ موبائل کمپنیوں کے انتہائی سستے اور کم ریٹ پیکیج ہیں۔

موبائل کمپنیوں کے ”لیٹ نائٹ آورز“ طالب علموں کے لیے سب سے خطرناک اور نقصان دہ ہیں۔ اسی وجہ سے طلباء کی دلچسپی موبائل کی طرف بڑھ رہی ہے اور وہ اسے محض تفریح کے لیے استعمال کرنے لگے ہیں۔ رات کو مطالعہ کا شغف اسی لیٹ نائٹ آوورز کی وجہ سے ختم ہوتا جارہا ہے۔ دوستوں سے گپ شپ، ان جانے نمبروں پر کال اور اور بے معنی پیغامات سے طلبہ اپنا وقت برباد کرتے چلے جاتے ہیں۔

ایک سروے کے مطابق پاکستان میں موبائل فون استعمال کرنے والوں کی بڑی تعداد طلبہ کی ہے۔ سروے کے مطابق 25 سال سے کم عمر لوگ زیادہ ایس ایم ایس کرتے ہیں جن میں کالج کے سٹوڈنٹ سب سے زیادہ ہیں جبکہ لیٹ نائٹ آفرز میں کال کرنے والوں میں بھی زیادہ تعداد انہی صارفین کی ہے جو 20 سال کی عمر کے درمیان ہیں۔ آپ کسی بھی تعلیمی ادارے کا معائنہ کرلیں، راہ چلتے کسی بھی طلبہ گروپ کو دیکھ لیں آپ کو ان کے ہاتھوں میں کتابیں کم موبائل زیادہ نظر آئیں گے۔ نہ معلوم یہ ”ترقی“ ہے یا زوال، طلبہ تیزی سے کتابوں سے دور ہوتے جارہے ہیں اور موبائل کے رسیا بنتے جارہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے حکومت اس مسلے کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرے تا کہ معاشرہ انارکی سے بچ سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :