پاک چوکی پرافغان یورش․․․․ مذاکرات خاتمے کی سازش ؟

ہفتہ 7 جون 2014

Zubair Ahmad Zaheer

زبیر احمد ظہیر

باجوڑ ایجنسی میں واقع پاکستانی فوجی چوکی پر صبح سویرے حملے میں ایک سیکورٹی اہلکار وطن پر جان نچھاور کرگیا ۔یہ حملہ افغان طالبان کی جانب سے کیا گیا ہے ، 200 شدت پسندوں نے چوکی پرہلہ بول دیا ۔جوابی کاروائی میں پاک فوج نے 10شدت پسندوں کو ابدی نیند سلادیا ۔پاکستان متعدد بار افغانستان میں تعینات امریکی اتحادی افواج ایساف اور افغان نیشنل آرمی سے سرحدپار سے پاکستان میں ہونے والی مداخلت بند کروانے کا مطالبہ کرچکا ہے ۔

دو دن قبل افغان صدر حامد کرزئی نے افغان علاقوں میں پاکستانی فوج کی جانب سے گولہ باری بند کروانے کا مطالبہ کیا تھا ۔اب کٹھ پتلی افغان صدر بتلائیں کہ مداخلت کہاں سے ہو رہی ہے ۔ جب پاکستانی سرحدی چوکی پر حملہ ہوا ،اس کے ٹھیک ایک دن بعد بھارت کی سیکریٹری خارجہ حامد کرزئی سے کابل میں ملاقات کر لیتی ہیں۔

(جاری ہے)

یہ بھی اتفاق ہے کہ جب پاکستان کی چوکی پر حملہ ہوتا ہے اس کے ایک دن بعد یہ خبر آتی ہے کہ طالبان نے 5سال سے گرفتار امریکی فوجی کو رہا کردیا۔

اس کے بدلیمیں امریکا نے گوانتاناموبے میں قید پانچ افغان قیدی رہا کردیے ۔اس خبر کو دور بین سے دیکھنے کی قطعی ضرورت نہیں ۔خبر کھل کر اعلان کرتی ہے کہ امریکا اور طالبان مذاکرات میں مصروف ہیں ۔سادہ لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب پاکستانی چوکی پر حملہ ہوا تب افغان صدر بھارتی سکریٹری خارجہ کی خاطر مدارت میں مصروف ہیں ۔امریکہ اور طالبان جیسے دنیا میں ایک دوسرے کے سب سے بڑے دشمن مذاکرات اور قیدیوں کے تبادلوں میں ہمہ تن گوش ہیں ۔

کہا جارہا ہے کہ یہ حملہشدت پسندوں نے کیا ہے ۔ماضی میں ان حملوں کا الزام بھی سوات ،مالاکنڈ،اور مہمند ایجنسی کے طالبان پر عائد ہوتا رہا ہے ۔ان دنوں پاکستانی طالبان شدید اندرونی اختلافات کا شکار ہیں ۔ان اختلافات کی تصدیق مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد نے بھی کی ہے ۔۔ سجنا گروپ کے ترجمان اعظم طارق کی پریس کانفرنس نے طالبان کا کچا چٹھا کھول کررکھ دیا ہے ۔

جنوبی وزیرستان کے طالبان دھڑے نے اختلافات پر طالبان سے علیحدگی کا اعلان کردیا ہے ۔طالبان کی باہمی جنگ نے ہلاکتوں کی تعداد سیکڑوں تک پہنچا دی ہے ۔نجی افواج کا چونکہ کوئی باقاعدہ نظم ونسق نہیں ہوتا ،لہٰذا جس کے منہ میں جو آیا کہہ دیا جس کا منہ جس طرف اٹھااسی سمتچل دیا جیسی کیفیت ہوتی ہے ۔طالبان میں اختلافات سب سے پہلے حکومت سے مذاکرات پر شروع ہوئے، کئی دھڑے حکومت سے مذاکرات کے کھلے مخالف ہوگئے ۔

یوں طالبان میں پہلی خلیج مذاکرات سے پیدا ہوئی ،جو رفتہ رفتہ وسیع ہوتی چلی گئی ۔تاہم طالبان میں مذاکرات پرآمادہ حلقوں کا پلڑا بھاری رہا ، حکومت بھی مکمل سنجیدہ ہوئی ،رائے عامہ ایسی ہموار ہوئی ،کہ طالبان کو بھی مذاکرات کرتے بنی ،یوں مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی ہوتی رہی ،اور جنگ بندی میں مزید توسیع ہوتی چلی گئی ،جس کے نتیجے میں ایک عرصے تک امن بحال رہا ۔

طالبان قیدیوں کی رہائی کی طویل فہرست دیکھ کر حکومت نے بھی چپ سادھ لی ۔مگر رابطہ کار درمیانی راہ نکالتے رہے ۔پاکستان میں عمومی طور پر مذاکرات کے دوران امن رہا ۔ متعدد بار دونوں جانب سے اتارچڑھاؤ بھی آیا۔مگر آخر کار وہ ہی ہوا جس کا خدشہ تھا ۔طالبان مذاکرات کی تاب نہ لاسکے اور آپس میں بری طرح الجھ گئے۔یوں طالبان نے آپس کی لڑائی میں ایسی شدت لائی کہ ان کا خود کا شیرازہ بھی بکھر گیا اور ایسا بکھرا کہ اب تک ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہے۔

پچھلے ایک عرصے سے کوئی دن ایسا خالی نہیں گزرتا جس میں طالبان کی آپس کی لڑائی کی مزید کوئی خبر پڑھنے ،سننے کو نہ ملتی ہو۔طالبان رابطہ کاروں نے بھی صلح کروانے کی کوشش کی ۔اور اطلاعات ہیں کہ افغان طالبان نے بھی مصالحت کی کوشش کی مگر یہ سب کاوشیں بے کار گئیں ۔لے دے کر طالبان اب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے ہیں ۔طالبان ترجمان اعظم طارق نے علیحدگی کے اعلان کے ساتھ اپنے ہی طالبان پر جو الزامات عائد کیے ہیں ان الزامات نے انٹیلی جنس رپورٹوں کی تصدیق کردی ہے ۔

اعظم طارق کے الزامات طالبان کی جانب سے طالبان کے خلاف بہت بڑی شہادت ہیں ۔گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق ان انکشافات نے ثابت کردیا کہ بعض طالبان گروپ کسی بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ طالبان کی جنگ افغانستان میں 2001سے امریکی فوج کے خلاف شروع ہوئی ۔اور یہ جنگ بھی پاکستان میں صرف اس وجہ سے در آئی کہ پاکستان کے راستوں سے امریکی افواج کو فوجی کمک پہنچائی جاتی رہی ۔

طالبان کی جنگ ہمیشہ امریکہ سے رہی اور امریکا کی حمایت کی پاداش میں پاکستان کو میدان جنگ میں بدلا گیا ۔مذاکرات کے ذریعے اس جنگ کو واپس افغانستا ن میں دھکیلنے کی جب بھی کوشش کی گئی ،کوئی نہ کوئی رکاوٹ ضرور پیدا ہوئی ہے ۔یہ ان دیکھی، انجانی طاقت کون ہے کہہر موقع پر ایسے حالات پیدا کردیتی ہے کہ مذاکرات ٹوٹ جاتے ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ ٹارگٹڈڈ آپریشن کے ماحول میں افغانستان کی جانب سے مداخلت اور حملہ دراصل طالبان اختلافات کا ہی شاخسانہ ہے ۔

جو لوگ مذاکرات کے مخالف ہیں و ہ غلط فہمیوں کو مزید پختہ کرنے کے تانے بانے بن رہے ہیں ۔وزیر اعظم پاکستان نواز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ تاحال مذاکرات ہی کو امن کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں امن کا واحد بے خطر راستہ مذاکرات ہی ہیں ۔ مذاکرتی عمل کے متاثر ہونے سے ان طالبان تک رسائی ممکن نہیں رہی جو مذاکرات مخالف اور امن مخالف ہیں ۔

مذاکرات کے ذریعے امن عمل پر یقین رکھنے والے طالبان الگ تھلگ ہوجاتے اور تیسرے گروہ کی شناخت ہوجاتی اور اس کے گریبان پر بآسانی ہاتھ ڈالا جاسکتا تھا ۔اگر مذاکرات کامیاب نہیں رہتے تو پاکستان سے طالبان کا وجود ختم نہیں ہو سکتا۔ چھوٹے چھوٹے گروہوں کو تلاش نہیں کیا جاسکتا ۔2004ء میں جب جہادی تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی،تب اس ہی وقت چھوٹے چھوٹے گروہوں نے جنم لیا ۔

موتیوں کی مالا کی تار ٹوٹ جانے والے دانوں کی طرح بکھر کر الگ الگ ہوجانے والے ایک ایک زیر زمین جہادی نے کمانڈر کا روپ دھار لیا ۔وہ دن اور آج کا دن پھر ان روپوش ہونے والوں کو تلاش نہ کیا جاسکا۔مذاکرات کے ذریعے ان کو میز پر بٹھا کر منوایا جاسکتا ہے ۔پاکستان من جانب اللہ وجود میں آنے والی مملکت ہے ۔اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔عالم اسلام کے مسائل کے موثر حل کے لیے اس میں امن کا قائم ہونا نہایت ضروری ہے ۔اور امن کا راستہ مذاکرات کی کٹھن اور پُر خطر گھاٹی سے ہوکر گزرتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :