بجٹ 2014، غریبوں اور ملازمین کا استحصال

منگل 17 جون 2014

Muhammad Kamran Shehzad

محمد کامران شہزاد

پنجاب کا بجٹ اپوزیشن کے شور ،،حکومتی ارکان کی تالیوں اور وزیرِخزانہ کی پُرزور اور نان سٹاپ تقریر سے عوام کے گوش گذار کر دیا گیا،،ہمیشہ کی طرح اپوزیشن نے اسے مسترد کر دیا اور حکومتی ارکان نے اس بجٹ کی شان میں واہ وا کی گردان کر تے ہوئے اسے عوامی بجٹ قرار دے دیا۔میں سمجھتا ہوں کہ آدھے سے زیادہ مجنوں نما ارکان نے تو بجٹ کی دستاویز کو پڑھا بھی نہیں ہو گا اور شائد پڑھنا ۔

۔۔۔۔۔؟؟؟ کیونکہ آپکو پتا تو ہے کہ ڈگری اصلی ہو یا جعلی اُس کے لئے پڑھنا شرط نہیں۔
بجٹ میں بھی الیکشن کے دوران دکھائے گئے سبز باغ ہی نظر آئے،غریب عوام کے لئے ایک بھی منصوبہ نہیں ہے۔وہی مہنگائی کا عفریب،،وہی وعدے،،وہی خواب جو شائد غریبوں کی پہنچ میں ہیں ،،،،دانش سکول بنیں گے ،،کالج بن رہے ہیں،،یونیورسٹیاں بن رہی ہیں،،موٹر وے اور میٹرو ٹریک بنیں گے،،لیپ ٹاپ تقسیم ہوں گے،،فنی تعلیم کے ادارے لوگوں کو تعلیم دیں گے،،40 لاکھ روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں گے،،۴سال میں 70 لاکھ افراد کو غربت کی لکیر سے اوپر لایا جائے گا،، تعلیم پر 274ارب خرچ کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

کتنے سنہرے اور سُہانے خواب ہیں۔۔غریب کا بچہ پرائمری پاس کرے گا تو وہ دانش سکول تک جائے گا۔ایک غریب آدمی جو مزدوری کرتا ہو وہ گھر چلائے یا اپنا بچہ سکول میں پڑھائے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پہلی جماعت میں 100بچے داخل ہوں تو پانچویں میں 50بچے پہنچتے ہیں اور دسویں تک 25بچے پہنچتے ہیں۔ اس کی وجہ غربت ،،مہنگائی اور بے روزگاری ہے،عارضی اور فرضی سکیموں پر اربوں کی فنڈنگ کی جا رہی ہے،مگر غریب عوام کی بہتری اور فلاح پر کسی کی توجہ نہیں۔

۔ووٹ لیکر غریبوں کو بے یارو مددگار چھوڑدیا جاتا ہے۔بجٹ کا تمام تر خسارہ پورا کرنے کے لئے بھاری ٹیکسوں کا سارا بوجھ غریبوں پر لاد دیا گیا ہے۔جمہوریت کا پورا پورا خراج غریبوں سے لیا جا ریا ہے،،نہ بجلی ملتی ہے،،نہ آٹا اورنہ باٹا،،غریبوں کو دور سے ہی ٹاٹا۔یہ بجٹ نہیں مہنگائی کا ہے جوار بھاٹا،،،غریب بُو کاٹا،،مزدور کی اُجرت 12000کر کے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری گئی،،سوال یہ کہ کون دیتا ہے غریب مزدور کو اتنی اُجرت؟؟؟؟ کون دلائے گا ؟؟سرمایہ دار کہاں دیتا ہے مزدور کو اتنی اُجرت؟؟؟؟؟
پچھلے سال وزیرِخزانہ نے سابقہ حکومت،،خالی خزانہ اور معاشی بد حالی کا رونا رو کر سرکاری ملازمین کو 10٪پر ٹرخا دیا تھا،،اس بار بھی وفاقی اور پنجاب گورنمنٹ نے سرکاری ملازمین کے ساتھ وہ کیا ہے جو اکثر فلموں کے آخری سین میں ہیرو پارٹی اکیلے پھنس جانے والے ولن کے ساتھ کرتی ہے،،ڈنڈے مار مار کر ادھ مویا کر دیتی اور پھر ہیرو اُس کا قصہ تمام کر دیتا ہے۔

اس با رحکومت نے سرکاری ملازمین کو مہنگائی کے بپھرے طوفان کے سامنے اکیلا چھوڑ دیا ہے۔غریب سرکاری ملازمین نہ ہی اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی فیملی کو خوشحال زندگی دے سکتے ہیں۔غریب سرکاری ملازمین ہر دور میں اسی طرح مہنگائی کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔۔کیا جمہوریت میں جمہور کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا جاتا ہے؟؟؟؟جتنے بھی ٹیکس لگائے گئے ہیں اُن کا براہ راست بوجھ غریب عوام اور سرکاری ملازمین پر ہی پڑے گا،،سواریوں والی گاڑیوں پر جو ٹیکس لگایا گیا ہے کیا اس سے کرایوں میں اضافہ نہیں ہو گا؟؟؟؟؟جن دس نئی اشیاء کو ٹیکس نیٹ میں لایا گیا ہے کیا اُس سے مزید مہنگائی نہیں ہو گی؟؟؟؟
حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں تعلیم عام ہو۔

لیکن تعلیم کو عام کرنے والے مین اور مرکزی اہمیت کے حامل اُستاد کو تو ہر پالیسی اور ہر بجٹ میں بالکل ہی نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔حکومت 10%اضافہ کرتی ہے،اور اُستاد کی تنخواہ سے پروفیشنل ٹیکس،،،انکم ٹیکس،،اور گرمیوں کی چھٹیوں میں کنویس الاؤنس کی کٹوتی کر دی جاتی ہے۔ایسے میں 10%اضافہ کیا معنی رکھتا ہے؟؟ حکومت غریب ملازمین کو دیوار سے لگا رہی ہے،،ساری مراعات اور فوائد ان مراعات یافتہ طبقے کے لئے ہیں جو نہ ہی ٹیکس دیتا ہے اور نہ ہی قانون کا احترام کرتا ہے،،ایسے میں کیسے کہا جا سکتا ہے کہ جمہوریت عوام کے دل کی آواز ہے اور عوام جمہوریت کو پسند کر تی ہے؟؟؟؟؟کیا یہ سچ ہے؟؟ یا جھوٹ۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :