کیا القاعدہ کے کاروان کشمیر آئیں گے؟

منگل 8 جولائی 2014

Sareer Khalid

صریر خالد

ایک ایسے وقت پر کہ جب عراق میں داعش نے حیرانکن اور نا قابلِ یقین چڑھائی کر کے ملک کے بیشتر حصے کو قبضے میں لینا شروع کیا ہے عالمی جہادی تنظیم القاعدہ کے جموں وکشمیر میں پیر جمانے کی خبریں گشت کرنے لگی ہیں۔حالانکہ طالبان اور القاعدہ کے جیسی عالمی تنظیموں کی جموں و کشمیر میں دلچسپی سے متعلق پہلے بھی افواہیں اُڑتی اور پھر ہوا میں تحلیل ہوتی رہی ہیں تاہم اب کی بار جس ذرئعہ سے القاعدہ کی جموں و کشمیر میں دلچسپی سے متعلق خبر آئی ہے اُس کے القاعدہ کے ساتھ تعلقات ثابت ہیں ۔

حالانکہ ریاستی پولس سے لیکر فوج اور پھر وزارتِ دفاع تک سبھی نے لنگر لنگوٹے کس کے القاعدہ کے ساتھ دو دو ہاتھ ہونے کو تیار ہونے کے اعلانات شروع کر دئے ہیں لیکن کیا القاعدہ یا طالبان واقعی موجودہ حالات میں ”جہادِ کشمیر“شروع کرنے کی سوچ بھی سکتے ہیں،یہ ایک اہم سوال ہے۔

(جاری ہے)


”جنگ جاری رہے،مسلمانانِ کشمیر کے نام پیغام“کے عنوان کے ساتھ القاعدہ نے حال ہی ایک ویڈیو پیغام جاری کرکے بظاہر کشمیر میں اپنی دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے عندیہ دیا ہے کہ تنظیم ”جہادِ کشمیر“کے آغاز کا ارادہ رکھتی ہے۔

مولانا عاصم عمر کے نام سے متعارف کئے گئے ایک شخص،جنہیں القاعدہ کی پاکستان شاخ کا اہم لیڈر بتایا جاتا ہے،نے مذکورہ ویڈیو میں بلیغ اُردو میں مسلمانانِ کشمیر کو مخاطب کرتے ہوئے اُنسے کئی سوال کئے ہیں اور اُنہیں ”ترکِ جہاد“کرکے ”جمہوریت کے کھوکھلے نعروں،ہڑتالوں،مذاکرات اور قراردادوں کی سیاست“پر بھروسہ کرنے کے لئے کوسا ہے۔

بارہ منٹ طویل اس ویڈیو پیغام میں مولانا عاصم مسلمانانِ کشمیر سے سوال کرتے ہیں کہ اُن میں جہاد کی بھوک کیوں مٹ گئی ہے اور وہ کیونکر جمہوریت کے کھوکھلے نعروں،ہڑتالوں اور مذاکرات کی باتوں پر یقین کرنے لگے ہیں۔پیغام میں سوال کیا گیا ہے کہ”کس نے سازش کرکے بندوقوں کی جگہ آپ کو پتھر تھما دئے ہیں اور کس نے آپ کو جہاد کی بجائے پُر امن مظاہروں اور ہڑتالوں پر بھروسہ کرنا سکھایا،کیا یہ کھوکھلے نعرے اور یہ ہڑتالیں کسی ملک کو آزادی دلا سکی ہیں“۔

پُر امن اھتجاجی مظاہروں،ہڑتالوں اور اس طرح کی مزاحمت پر سوال اُٹھاتے ہوئے مولانا عاصم نے کہا ہے کہ وہ(القاعدہ)شہداء کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کا ایفاء کرے گی۔ماضی میں مرحوم اُسامہ بن لادن اور القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری کے بیانات شائع کر چکی ایک ویب سائٹ پر ظاہر ہونے والے اس ویڈیو پیغام میں القاعدہ لیڈر نے پاکستان اور لائن آف کنٹرول(ایل او سی)کے دونوں جانب آباد کشمیر سے طنزیہ انداز میں سوال کیا ہے”ہندوستانی فوج کے ساتھ لڑنے کے آپ کے ارادوں کا کیا ہوا؟وہ جہاد جو کل تک لازمی تھا آج ممنوع کیسے اور کیوں ہو گیا ہے؟کیا یہ سب ”برہمن جادو“سے ہوا ہے یا پھر پاکستان نے کشمیر کو ماضی کا فسانہ بنا دیا ہے؟۔

ویڈیو پیغام میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ افغانستان سے شہید ہونے کے متمنی ہیروز کا ایک کاروان کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے آرہا ہے۔
چناچہ القاعدہ کا یہ بیان،جسکے اصل ہونے کی تصدیق ابھی باقی ہے،ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے کہ جب نیٹو فوجوں کے افغانستان سے نکل جانے کا وقت قریب ہوتا جا رہا ہے لہٰذا کئی تجزیہ نگاروں نے یہ خدشات ظاہر کرنا شروع کئے ہیں کہ کہیں ”فارغ“ہونے پر طالبان اور القاعدہ کے لڑاکو کشمیر کا رُخ نہ کر لیں۔

ایسی سوچ کے حامل تجزیہ نگار اور ماہرین اس سلسلے میں القاعدہ چیف ڈاکٹر ایمن الظواہری کے اُس بیان کا حوالہ بھی دیتے ہیں کہ جس میں مذکورہ نے گذشتہ سال ہندوستان کے خلاف جہاد کی باتیں کی تھیں۔لیکن کیا القاعدہ یا طالبان واقعی ”جہادِ کشمیر“کے بارے میں سوچتے ہیں اور کیا اُنکے اس سمت میں دلچسپی رکھنے کے باوجود بھی اپنے مقاصد میں کامیاب رہنا ممکن ہے؟یہ ایک اہم سوال ہے۔


چناچہ القاعدہ،طالبان یا دیگر عالمی جہادی تنظیموں کی جانب سے یا پھر ان تنظیموں سے منسوب جموں و کشمیر سے متعلق بیانات نئے ہیں اور نہ ہی پہلی بار سامنے آئے ہیں۔/جون 2007کو اُس وقت ذرائع ابلاغ کو ایک سنسنی خیز خبر ملی کہ جب القاعدہ نے یہاں ہندوستان کے خلاف” اعلانِ جہاد“کردیا۔عربی زبان کی جگہ اردو اور بے نقاب ترجمان کی جگہ نقاب پوش کو استعمال کرنے کے جیسی چند چیزوں کو چھوڑ کر ”تنظیم“نے اپنے ”روایتی انداز“میں ایک Audio Visualبیان جاری کر دیا اور دنیا،با الخصوص ہندوستان ، کی توجہ اپنی جانب کر لی۔

”اعلانِ جہاد“میں کہا گیا کہ القاعدہ نے ہندوستان کے خلاف ”جہاد“شروع کیا ہے جس کے لئے جموں و کشمیر ایک Gatewayہوگا۔مختلف ٹیلی ویژن چینلوں پر نشر ہونے والے اس بیان کی ایک Compact Discیا سی ڈی سرینگر میں ایک مقامی خبر رساں ایجنسی کو اس ہدایت کے ساتھ موصول ہوئی تھی کہ اسکی تشہیر کرائی جائے۔چناچہ جونہی یہ سی ڈی ایجنسی کو موصول ہوئی،اسے مختلف ٹیلی ویژن چینلوں کے مقامی دفاتر تک پہنچایا گیا جنہوں نے اسے آن کی آن میں ٹیلی کاسٹ کیا۔


یہ دوسری بار تھا کہ جب جموں و کشمیر میں القاعدہ کے ”قیام“یا تنظیم کے یہاں سرگرم ہونے کا دعویٰ سامنے آیا۔اس سے ایک سال قبل 13/جولائی(2006 )کو اسی طرح کے ایک ڈرامائی انداز میں ”القاعدہ“نے جموں و کشمیر میں اپنی سرگرمیاں شروع کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔دلچسپی کی بات ہے کہ اُس وقت بھی اسی خبر رساں ایجنسی کو ایک ٹیلی بیان روانہ کیا گیا تھا جس میں ابو الحدید نام کے کسی کردار نے خود کو القاعدہ کا ہندوستان میں ترجمان بتایا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ ابو عبد الرحمان انصاری کی قیادت میں عالمی سطح کی اس جنگجو تنظیم کی مقامی شاخ قائم کی گئی ہے۔

اس سے قبل ریاست کے جموں صوبے میں جنگجووٴں کی ایک کمین گاہ سے کچھ ایسی ویڈیو بر آمد ہوئی تھیں کہ جن کو دیکھ کر حکام نے ریاست میں القاعدہ کی موجودگی کا خدشہ ظاہر کیا تھا ،تاہم ان خدشات کو سچ ثابت کرنے کے لئے حکومت کو کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا۔چناچہ مذکورہ اخباری بیان کے سامنے آنے کے بعد پولس نے تحقیقات کے ذریعے یہ پتہ لگایا تھا کہ بیان دینے والوں نے سرینگر کے پایئن شہر کا ایک پی سی او استعمال کیا ہے۔

پولس اور دیگر ذرائع نے اس بیان کو سنجیدگی سے نہ لیتے ہوئے ریاست میں القاعدہ کی موجودگی کو ناممکن بتادیا تھا اور ایسے کسی امکان کی صورت میں صورتحال سے نمٹنے کے لئے مکمل طور تیار ہونے کا بھی دعویٰ کیا گیا تھا۔اسکے ساتھ ساتھ ٰعلیحدگی پسند خیمے نے بھی اس طرح کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے القاعدہ کی ریاست میں موجودگی کو ایک فریب اور ،بقولِ اُنکے،حکومتِ ہندوستان کی سازش بتایا تھا۔

ابو الحدید کے بیان کو سازش قرار دیا گیا تو انہوں نے اپنے بیان کے دفاع میں دوسرا کوئی بیان دیا اور نہ ہی تنظیم نے کسی کارروائی کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش ہی کی۔ ابو الحدید کی اس خاموشی سے کشمیری قیادت اور پولس کے اس یقین پر مہرِ تصدیق ثبت ہوگئی کہ ریاست میں القاعدہ کا کوئی وجود نہیں ہے۔قریب ایک سال کے عرصہ کے بعد08/جون کو ویڈیو سی ڈی جاری ہوئی توکشمیر اور القاعدہ کی باتیں پھر کی جانے لگیں تاہم چند دنوں تک ٹیلی ویژن چینلوں پر مصالحے دار اور گھبرا دینے والی خبریں نشر ہوتے رہنے کے بعد القاعدہ کا کوئی ظہور ہوا اور نہ ہی اس سلسلے کی کوئی سرگرمی اور یوں معاملہ آیا گیا ہوگیا۔

تاہم دو سال کے وقفے کے بعد جموں و کشمیر پولس کے اُسوقت کے چیف مسٹر کلدیپ کھڈا نینے اپریل2009میں طالبان کے کشمیر کی جانب بڑھنے کا انکشاف کر کے گو سب کو حیران کر دیا۔ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں مسٹر کلدیپ کھڈا کا کہنا تھا کہ طالبان کے سوات وادی میں مزید با اختیار ہونے اور پاکستان کے شمال مشرق کے مختلف علاقوں پر غلبہ پانے کے بعد جموں و کشمیر میں دراندازی کے واقعات میں اضافہ ہونے لگا ہے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ طالبان اب ہندوستان کے ساتھ ملنے والی پاکستان کی سرحد کے قریب آ رہے ہیں اور انکے کشمیر میں سرگرم جنگجووٴں کے ساتھ قریبی روابط کا انکشاف بھی ہو گیا ہے۔بقولِ کھڈا کے”طالبان پاکستان کے شمال مشرقی علاقوں میں سرگرم تو پہلے سے ہی ہیں تاہم اب انہوں نے ہماری سرحدوں کے قریب آنا شروع کر دیا ہے“۔کلدیپ کھڈا کے اس انکشاف یا اُنکو ملی اطلاعات کی تاہم کو سچائی ثابت نہیں ہو سکی اور ابھی تک القاعدہ یا طالبان کے جموں و کشمیر کی سرحدوں میں کہیں کوئی نشان نہیں مل پائے۔

اتنا ہی نہیں بلکہ جب جب بھی اس حوالے سے خبریں،جو ابھی تک محض افواہیں ثابت ہوتی رہی ہیں،سامنے آئیں نہ صرف جموں و کشمیر کی علیٰحدگی پسند قیادت بلکہ خود یہاں سرگرم جنگجووٴں نے بھی ان خبروں کو نکارنے کے ساتھ ساتھ واضح کر دیا کہ عالمی جہادی تنظیموں کا جموں و کشمیر میں کوئی رول بنتا ہی نہیں ہے۔
گو کشمیر میں نئی دلی کے خلاف ہونے والے کسی بھی مظاہرے میں یہ نعرہ ،القاعدہ سے رشتہ کیا:لا الاہَ الاللہ، طالبان سے رشتہ کیا :لا الاہَ الاللہ ضرور لگایا جاتا ہے تاہم طالبان یا القاعدہ نے ریاست میں جنگجوئیت کے Peakپر رہتے ہوئے بھی یہاں کا رُخ کرنے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا اور نہ ہی ریاستی عوام یاریاست میں سرگرم کسی بھی جنگجو تنظیم نے عالمی جہادیوں کے ریاست کا رُخ کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔

یہاں تک کہ جب 2006ءء میں اور پھر اسکے ایک سال بعد ریاست میں القاعدہ کے سرگرم ہونے کی افواہیں پھیلیں تو لشکر طیبہ سمیت دیگر سبھی چھوٹی بڑی جنگجو تنظیموں نے ان افواہوں پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور القاعدہ کی کشمیر میں موجودگی کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ عالمی تنظیموں کو کشمیر آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ جنگ مقامی جنگجو ہی لڑیں گے۔

اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ جب طالبان اُسوقت کشمیر آنے پر آمادہ یا اس جانب راغب نہ ہوئے کہ جب یہاں جنگجووٴں کی طوطی بولتی تھی ،تو ان حالات میں یہ تنظیم کشمیر کا رخ کیسے کر سکتی ہے کہ جب ریاست میں خود کشمیری جنگجووٴں کا جینا محال ہو گیا ہے۔چناچہ جموں و کشمیر میں کئی سال سے جنگجوئیت کا محاذ تقریباََ خاموش ہے اور بعض دفاعی کارروائیوں کو چھوڑ کر اس عرصے کے دوران جنگجووٴں کی جانب سے،چند ایک واقعات کو چھوڑ کر، کوئی بڑا جارحانہ حملہ ممکن نہیں ہو پایاہے۔

کلدیپ کھڈا کا ہی،2009میں، کہناتھا کہ جنگجوئیت کا دور تقریباََ ایک تاریخ بن کے رہ گیا ہے اور یہ کہ پولس و فورسز نے جنگجووٴں کو جارحانہ حملوں کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے جبکہ تمام جنگجو تنظیموں کو افرادی قوت با الخصوص کمانداروں کی کمی کا زبردست مسئلہ درپیش ہے۔سکیورٹی اداروں کا ماننا ہے کہ جموں و کشمیر کا ماحول جنگجوئیت موافق نہیں رہا ہے اور باقی بچے جنگجو ایک طرح سے اپنی کمین گاہوں تک محدود ہوکے مارے جانے کے لئے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔

ایسے میں القاعدہ کو کشمیر آنے کی کیوں کرسوجھے گی؟یہ ایک سوال ہے۔پھر عالمی جہادیوں کے کشمیر آنے سے یہاں جاری ”تحریک“کو عالمی دہشت گردی کے ساتھ جوڑے جانے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں،کشمیر کی مسلح تحریک چلانے والے ایسا کر کے اپنے پیروں پر کلہاڑی کیوں ماریں گے،یہ بھی قابلِ غور بات ہے۔
جہاں تک القاعدہ یا طالبان کے لڑنے کے انداز کا تعلق ہے،دوبدو لڑائی کے یہ ماہر جنگجو ایک ایسے علاقے میں رہتے ہیں کہ جس پر انکا اپنا قبضہ ہو اور پھر وہیں سے وہ ”دشمن“پر حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں جبکہ کشمیر میں ایسا کوئی علاقہ نہیں ہے کہ جہاں جنگجووٴں کا قبضہ ہو۔

چناچہ خود پولس کا دعویٰ ہے کہ لشکر طیبہ طالبان کی کشمیر میں موجودگی سے خوش نہیں ہے ،جبکہ ابھی تک لشکر اور طالبان کو ایک دوسرے کے نہایت قریب اور ایک ہی ”مکتب فکر“سے منسلک مانا جاتا رہا ہے۔اگر ان دونوں میں کشمیر آپریشن کے حوالے سے Cordinationنہیں ہے تو پھر طالبان کس کے تعاون سے کشمیر میں اپنا ”محاذ“کھولیں گے ،کہ وہ ابھی تک یہاں کی زمینی صورتحال سے نا واقف ہیں،یہ بھی ایک سوال ہے۔

ایک سابق جنگجو،جو اس سے قبل افغانستان میں مختلف ممالک کے جنگجووٴں کے ساتھ رہ چکے ہیں،کا کہنا ہے”اُن کا انداز الگ ہے اور اُنکا مزاج مختلف ،وہ لوگ لڑاکو تو ہیں لیکن جموں و کشمیر کے حالات اُنکے لئے موافق نہیں ہیں“۔مذکورہ کا کہنا تھا”پھر جو اُنکے سوچنے کا انداز ہے مجھے نہیں لگتا ہے کہ کشمیر کہیں بھی اُنکی ترجیحات میں ہے،وہ لوگ عرب دنیا میں اتنے مصروف ہیں کہ میرے خیال میں اُنکے لئے کشمیر کے لئے کچھ بڑا سوچنا محال ہے“۔


حالانکہ فوج یہاں تک کہ وزیرِ دفاع ارُن جیٹلی نے بھی گذشتہ دنوں کہا کہ فوج القاعدہ یا کسی بھی طاقت کو کچلنے کے لئے با الکل تیار بیٹھی ہے۔تاہم جموں و کشمیر کے بزرگ علیٰحدگی پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی اس پورے معاملے کو ایک سازش قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ القاعدہ یا طالبان کے کشمیر میں سرگرم ہونے کی کوئی گنجائش تو ہے نہیں لیکن سرکار ی ایجنسیاں ایک سازش کے تحت اس طرح کی افواہیں پھیلا رہی ہیں۔

اپنی رہائش گاہ پر ،جہاں وہ مہینوں سے نظر بند ہیں،منعقدہ ایک سیمینار میں بولتے ہوئے سید گیلانی نے کہا” نوجوانوں کو حراساں کرنے کے مقصد سے اخبارات میں یہ ہواپھیلائی جارہی ہے کہ القاعدہ اور طالبان کشمیرآرہے ہیں “اُنہوں نے کہا”یہاں طالبان اور القاعدہ کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے“۔ اُنہوں نے کہاکہ کشمیری عوام اپنی جدوجہد سے ہی” منزل“ تک پہنچیں گے۔

سید گیلانی نے تحریک طالبان پاکستان کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ وہ اسی ٹہنی کو کاٹ رہے ہیں جس پر خود سوار ہیں۔پاکستان میں حالیہ ایام کے دوران ہوئے حملوں کا ھوالہ دیتے ہوئے اُنہوں نے کہاکہ ایئرپورٹ ، رینجر س ، پولیس یا اقلیتوں پر حملہ سے اسلامی نظام قائم نہیں ہوگا۔
حاصلِ کلام یہ کہ موجودہ حالات میں القاعدہ یا طالبان کا کشمیر میں کوئی رول بنتا نظر نہیں آرہا ہے اور نہ ہی ایسا لگتا ہے کہ عالمی جہادیوں کے لئے کاروانوں کی صورت میں واردِ کشمیر ہونا ممکن ہو سکتا ہے تاہم ماہرین کے مطابق نیٹو کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد جموں و کشمیر میں ”غیر معمولی سرگرمیوں“کو یکسر مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا ہے،تو پھر کشمیر کا آنے والا کل کیسا ہوگا؟اس سوال کا واضح اور حتمی جواب وقت گذرنے کے ساتھ ہی سامنے آ سکتا ہے!!!(بشکریہ عالمی سہارا)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :