معاشی ترقی کی جدید ضروریات : پانی، بجلی اور گیس

جمعرات 10 جولائی 2014

Muhammad Mumtaz Baig

محمد ممتاز بیگ

ہمارے ملک میں کل17,000میگا واٹ بجلی کی ضرورت ہے جبکہ21,000میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے وسائل اوربجلی گھراس وقت ہمارے پاس موجود ہیں۔نئے پاور پلانٹ لگانے بھی ضر وری ہیں مگراسکے ساتھ ساتھ موجودہ بجلی گھروں کی ضروری مرمت کے بعد انھیں پوری استعداد سے چلانے پر ملکی ضروریا ت فوری طورپر آسانی سے پوری ہو سکتی ہیں۔مگر اس کے باوجود لوڈشیدنگ ختم نہیں ہو سکتی جس کی وجہ واپڈا کے موجودہ سسٹم کی خرابی اور فرسودگی ہے سسٹم میں 15,000میگاواٹ بجلی آنے پرتمام نظام لرز جاتا ہے اور پوری بجلی پیدا ہونے کے باوجود اس کی صارفین کو سپلائی نا ممکن ہے۔

اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بجلی پیدا کرنے کا سستا ترین ذریعہ پانی وافر مقدار میں فراہم کیا ہے جوکوہ ہمالیہ اور قراقرم کے گلیشےئرز میں محفوظ ہے جس سے دو روپے سے بھی کم فی یونٹ کے حساب سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے ۔

(جاری ہے)

پہاڑوں پر برف پگھلنے اور بارشوں کے بعد دریاؤں میں وافر پانی آنے کے باوجودبجلی کا شارٹ فال 4,200میگا واٹ تک پہنچ گیا اور لوڈ شیڈنگ میں اضافہ کے ساتھ ساتھ بجلی کی مسلسل ٹرپنگ نا قابل فہم ہے۔

پی ایس او کے پاور سیکٹر پر واجبات164ارب روپے تک پہنچ گئے ۔بجلی کا بحران بڑھ رہا ہے بجلی کی کمی کے سبب غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان آنے سے گھبرا رہے ہیں۔بجلی کی 18سے20گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ حکومت کا ظالمانہ اقدام ہے۔پانی کی بجائے فرنس آئل اور ڈیزل سے مہنگی بجلی پیداکرکے سستے داموں اورسبسیڈی کے ساتھ صارفین تک پہنچانے سے یہ نظام ذیادہ دیر تک نہیں چل سکے گا۔

دریائے سندھ پر مختلف جگہوں پر ہائیڈل پاور پراجیکٹ لگا کر 40,000میگا واٹ سستی ترین بجلی جو کہ ہماری ضرور ت کے دگنا سے بھی ذیادہ ہے آسانی سے پیدا کی جا سکتی ہے ہمیں جلد یا بدیر کالاباغ ڈیم بنانا ہی ہوگا۔
کرہ ارض کا دو تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے اورتازہ پانی زمین کیلئے انتہائی ضروری ہے اس کے بغیر کسی بھی قسم کی زندگی نا ممکن ہے پانی ہی تمام قسم کی زندگی کوقوت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ رواں دواں بھی رکھتا ہے۔

بجلی پیدا کرنے کیلئے بھی پانی بہت ضروری ہے یہ ہائیڈرو پاور کیلئے ڈرائیور کے طور پر کام کرتا ہے۔پانی، صحت، توانائی اور خوراک کا واحدذریعہ ہے۔70%پانی فصلوں کی کاشت اور کھیتی باڑی کے کام آتا ہے تمام قسم کی صنعتوں کیلئے بھی پانی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔پاکستان کے چھ بڑے دریاؤں میں سے تین راوی ،بیاس اور ستلج ہندوستان کو فروخت کر دےئے گئے دریائے بیاس کاتونشان تک مٹ گیا جبکہ ستلج اور راوی دریائے چناب کے سہارے زندہ ہیں۔

ہندوستان جب چاہے اس دریا کا تمام پانی روک کر پاکستان کو ربیع کی فصل سے محروم کر سکتا ہے۔ہمارے پاس تربیلا، منگلا اور چشمہ میں صرف 30دن کی ضروریات کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے جبکہ ہندوستان کااپنے 37دریاؤں کا بھرپور استعمال کرنے کے بعدبھی230دن تک کاپانی سٹور کرنے کا انتظام ہے۔ بجلی کے بعد گیس کی لوڈشیڈنگ بھی شروع ہو گئی اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو پانی کی لوڈشیڈنگ بھی شروع ہو سکتی ہے۔


قدرت نے ہمارے ملک کوبے شمارمعدنی وسائل، سونا،چاندی،کاپر،کوئلہ،تیل اور گیس جیسی نعمتوں سے مالامال کیا ہواہے مگرمس مینجمنٹ کے باعث ہم ان سے مکمل استفادہ نہیں کرپارہے ۔دنیا بھر میں سب سے زیادہ زیرزمین قدرتی گیس کے ذخائر ہمارے پاس موجودہیں۔1955سے سوئی (بلوچستان)سے ملک کی گیس کی 26%ضروریات پوری کرنے والا خزانہ 100سال کیلئے کافی تھا مگر اب یہ آئندہ 20سال میں ختم ہوجائیگا۔

گزشتہ 60سال سے یہ گیس گھروں اور فیکٹریوں میں ایندھن کے طورپر،پاور پراجیکٹس میں بجلی پیدا کرنے کیلئے،سیمنٹ اور کھاد فیکٹریوں میں صنعتی مقاصد کیلئے استعمال ہو رہی ہے۔جبکہ گزشتہ دس بارہ سالوں سے غیر ضروری طور پرکاروں اور ویگنوں میں پٹرول کی جگہ استعمال ہو رہی ہے۔
ملک اقتصادی لحاظ سے انتہائی کمزور ہو چکا ہے۔ بجلی ،گیس اورپانی کی کمی ،بیروزگاری ،غربت، مہنگائی اوردہشتگردی میں اضافہ نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے پاکستان اندرونی اور بیرانی خطرات میں گھرا ہوا ہے دہشتگرد اپنے ہی لوگوں کا بے دریغ خون بہا رہے ہیں۔

ملک حالت جنگ میں ہے۔وزیرستان اور اس کے گردونواح کے تقریباّ چھ لاکھ لوگ گرمی حبس اور بے سرو سامانی کے عالم میں نا معلوم منزل کی طرف رواں دواں یا کیمپوں میں مقیم ہیں۔سٹیمپ ڈیوٹی میں50% اور اشٹام کی مالیت میں1100% جبکہ پراپرٹی ٹیکس میں 100%اضافہ کردیا گیا ہے ۔CNGہفتے میں اب صرف 18گھنٹے ملے گی جو اس وقت بھی دو تین گھنٹے انتظا رکے بعد بلیک میں ملتی ہے حکومت نے نیا مالی سال جولائی سے شروع ہوتے ہی پانچ روپے فی کلو نرخ میں بھی ناجائز اضافہ کر دیاہے۔

جبکہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے سیاسی لوگوں نے عو ا م کی ا صل مسائل سے توجہ ہٹا کرجلسے،جلوسوں،ریلیوں، دھرنوں، لانگ مارچوں، انقلابوں اورٹاک شوزمیں الجھایا ہوا ہے حتی کہ یہ لوگ کو ل پاور پلانٹ جیسے ترقیاتی کاموں اورمنصوبوں کے خلاف بھی احتجاج شروع کرا دیتے ہیں۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے منتخب اور سیاسی نمائندوں کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی ذاتی، جماعتی، سیاسی، گروہی، مذہبی اورمسلکی اختلافات بھلا کر اپنے آپ کوملک و قوم کے اجتماعی مفاد کی خاطر متحد ہوکر، بجلی، پانی،گیس، مہنگائی، غربت، بیروزگاری ،تعلیم ،صحت اور دہشتگردی جیسے مسائل کو حل کرنے کیلئے متحدہوجانا چاہئے۔بصورت دیگر اردگردکے حالات ہمیں پتھر کے زمانے کی طرف واپس لے جانے کیلئے تیارکھڑے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :