لائن نہیں مل رہی

اتوار 20 جولائی 2014

Anwaar Ayub Raja

انوار ایوب راجہ

باہر بارش ہو رہی ہے ، میرے سیدھے باتھ ایک بڑی سی کھڑکی ہے جہاں سے ٹھنڈی ہوا کمرے میں آ رہی ہے اور اس کمرے کے اندر اور باہر صرف دو آوازیں ہیں جو سنائی دے رہی ہیں .کمرے میں ہم دو لوگ تھوڑی دوری پر بیٹھے ٹائپنگ کر رہے ہیں لہذا کمرے سے ٹک ٹک ٹک کی آوازیں آ رہی ہیں اور کمرے کے باہر چونکہ بارش ہے اور جب بارش کی بوندیں کھڑکی کے شیڈ پر گرتی ہیں تو ٹپ ٹپ ٹپ کی آوازیں آتی ہیں ۔

میں یہ ٹک ٹک ٹپ ٹپ پچھلے ایک گھنٹے سے سن رہا ہوں ۔بارش تیز ہوئی اور یہ آوازیں بدل گئیں ،ٹک ٹک شر شر ٹپک ٹپک ٹک شر ٹک شر ٹک ٹک شر شر…
مجھے تھوڑی خنکی کا احساس ہوا تو میں نے اپنی پرانی لوئی میں خود کو لپیٹ لیا اور پھر سے وہی ٹک ٹک ٹپ ٹپ ۔کافی دیر یہ میوزیک میرے کانوں کے پردوں کو فطرت کے آرکیسٹرا کی دھنیں سناتا رہا ۔

(جاری ہے)

بارش ذرا تھمی تو درختوں میں چھپی گریٹ ٹٹ، بلو ٹٹ اور روبن نے مستی میں چہچہانا شروع کر دیا ۔

یہ تینوں پرندوں کی نسلیں ہیں جو ویسٹ مڈ لینڈ کے باغیچوں اور باغوں میں فطرت کے آرکیسٹرا کا حصہ ہیں ۔اس قدر خاموشی میں پر ندوں کے گیت اور ہماری ٹک ٹک۔میں نے ٹائپنگ بند کر دی اور چہرے کو لوئی میں چھپا لیا تا کہ اس خوبصورت احساس کو قریب سے محسوس کر سکوں ، اپنے اندر سے باہر کی دنیا دیکھ سکوں ، پرندوں کے مابین ہونے والی گفتگو سن سکوں ، ہوا کیا کہہ رہی ہے وہ سمجھ سکوں اور بارش رکنے کے بعد جو خنکی کا احساس ہے اسے سمیٹ سکوں مگر ابھی بھی کمرے میں ٹک ٹک جاری تھی ۔


میں اٹھا اور لوئی میں لپٹا دوسرے کمرے میں چلا گیا ، کھڑکی کھولی اور پھر سے مراقبے میں جانے کی کوشش کی ، آنکھیں بند کیں اور روبن ، گریٹ ٹٹ اور بلو ٹٹ کی فریکوئینسی سے اپنی فریکوئینسی ملانے لگ گیا ۔جیسے موبائل فون کے سگنل جگہ بدلنے سے کم ہو جاتے ہیں یا ختم ہو جاتے ہیں ایسے ہی تصور قائم ہو جائے اور اس میں کہیں کوئی دخل اندازی کرے یا دھیان بٹ جائے تو دوبارہ تصور قائم کرنے میں بہت وقت لگتا ہے ۔

جن کے قلب روشن اور روحیں پاکیزہ ہوتی ہیں ان کا کنیکشن ٹوٹتا نہیں ۔وہ بس نظریں جھکا کر سب کچھ دیکھ لیتے ہیں اور کچھ تو کھلی نظروں سے اندر باہر کا سفر کرتے ہیں وہ بیک وقت دونوں اطراف حاضر رہتے ہیں ۔انہیں ٹک ٹک شر شر ٹپک ٹپک کی آوازیں تنگ نہیں کرتیں ، ایک خاص قسم کا پلگ ان کے کانوں میں لگ جاتا ہے ان کے قلب پر ایک فلٹر لگا دیا جاتا ہے اور پھر وہ وہی سنتے ہیں جس کی وہ خواہش کرتے ہیں ۔

یہ خاص لوگ ہوتے ہیں اور ان کی سرچ مختلف ہوتی ۔
میں لوئی میں لپٹا فریکوئینسی ملانے میں ناکام ہو رہا تھا ۔میرا تصور بھٹک رہا تھا ، میں کوشش کر رہا تھا کہ ایک بار پھر سے میں رابن کے گیت سن سکوں ، گریٹ ٹٹ اور بلو ٹٹ کے درمیان گفتگو کا لطف لے سکوں مگر تصور قائم نہیں ہو رہا تھا ، ہوا چل رہی تھی ، خنکی تھی ، میں تھا ، لوئی تھی ، اور باہر پرندے بھی تھے مگر کوئی مجھ سے کمیونیکیٹ نہیں کر رہا تھا ۔

سگنل کمزور ہو رہے تھے بلکہ ڈراپ ہو گئے تھے ۔میں لگاتار فریکوئینسی ملانے میں لگا تھا مگر کہیں سے کوئی سگنل نہیں آ رہا تھا ۔
میں نے اٹھ کر کمرے کی ساری کھڑکیاں کھول دیں ، میں نے سوچا کہ شائد میرے اور فطرت کے درمیان یہ ڈبل گلیزنگ آ رہی ہے ، یا کوئی ایسی طاقت ہے جو ان شیشوں کو جیمر بنا رہی ہے کہ سگنل نہیں آ پارہے ۔میں پھر سے بیٹھ گیا ۔

اب باہر کی دنیا زیادہ بلند اور صاف تھی ، اب دور کی آوازیں بھی سنائی دے رہیں تھیں ۔میں نے آنکھیں بند کیں اور واپس مراقبے میں جانے کی کوشش کی ، اس احساس کی دنیا میں جانے کی کوشش کی جہاں روبن مجھ سے کچھ کہہ رہا تھا ، جہاں گریٹ ٹٹ بلو ٹٹ سے راز و نیاز کی باتیں کر رہی تھی ، جہاں اس بڑے درخت کے پتوں میں ہلچل تھی ۔میں اسی دنیا کا تصور قائم کرنے میں کمر بستہ تھا ۔

مگر سگنل ابھی بھی نہیں آ رہے تھے ، میں ڈائل کر رہا تھا ، کوئی اٹھا نہیں رہا تھا ۔اندر کے آپریٹر سے رابطہ بحال نہیں ہو پا رہا تھا ۔لگاتار گھنٹی بج رہی تھی مگر کوئی جواب نہیں تھا ، اس دنیا میں وائس میل سسٹم بھی تو نہیں کہ بندہ ایک بیپ کے بعد کوئی پیغام ہی چھوڑ دے ۔یہاں تو کوئی ریکارڈڈ پیغام بھی نہیں ہوتا کہ "یہ لائن مصروف ہے براہ مہربانی کچھ دیر بعد کال کیجیے"۔

یہ سب براہ راست ہوتا ہے ۔ایک بار لائن مل گئی تو مل گئی اور جن کی مل جاتی ہے وہ کاٹتے نہیں ہیں مگر اس کا
مطلب یہ نہیں کہ سروس پرووائیڈر صرف ایک صارف سے کنیکشن قائم کر لیتا ہے ۔یہ ہر گز مصروف لائن نہیں ہے ، اس کے کئی کنیکشن ہیں اور جس کی لائن مل جاتی ہے اسے اس کی استطاعت کے مطابق یہاں سے پیغام آتے رہتے ہیں .
میری لائن نہیں مل پا رہی ، اب تو کھڑکیاں بھی ساری کھلی ہیں ، ٹک ٹک بھی بند ہو گئی ہے اور میں، لوئی اور خاموشی ہے پھر بھی سگنل ڈراپ کیوں ہو گئے ؟ میں نے پھر سے آنکھیں بند کیں اور دھیان کے اینٹینے کو ہلانے لگ گیا ، فریکوئینسی ملانے کی کوشش کرنے میں مصروف ہو گیا ۔

سگنل نہیں ملے ، کوئی بہت بڑا جیمر رستے میں آ رہا تھا جو رابطہ منقطع کیے تھا ۔مگر میں آج ہارنا نہیں چاہتا تھا میں نے پھر سے اور آخری بار ڈائل گھمایا کہ اس بار ضرور لائن مل جائے گی ، کوئی تو اٹھائے گا ، کہیں سے تو کوئی کنیکشن ملے گا مگر نہیں لگتا ہے آج نہیں … میں واپس آنے ہی والا تھا تو کوئی ہلکی سی آواز آئی ۔میں نے پھر سے ڈائل گھمایا اور آواز آئی " غزہ پر اسرائیلی حملے نے دو سو مظلوم ، نہتے انسانوں کی جان لے لی اور دنیا تماشہ دیکھ رہی ہے " میں یہ نہیں سننا چاہتا تھا میں تو روبن اور گریٹ ٹٹ کے نغمے سن رہا تھا ، میں نے پھر سے ڈائل گھمایا تو مجھے کسی کے رونے کی آواز آئی ، میں نے محسوس کیا کوئی بلک رہا ہے ، فائن ٹیوننگ کی تو سسکیوں میں چھپی آواز تھوڑی کلیر ہو گئی ، کوئی کہہ رہا تھا " یوکرائن کے ایر سپیس میں تین سو مسافروں کے قتل کا حساب کون دے گا " میں یہ بھی نہیں سننا چاہتا تھا اور ڈائل گھمائے جا رہا تھا مگر ہر بار گولیاں چلنے ، رونے ، فریاد کرنے کی اور دھماکوں کی آوازیں مجھے ڈرا دیتیں اور میں فریکوئینسی بدل دیتا ۔

میں تو روبن کے نغموں کی تلاش میں تھا مگر یہاں تو صرف نوحے اور ریڑھ کی ہڈی تک لگنے والے کرب کے جھٹکے تھے ۔شائد یہی جیمر تھے جو تصور قائم نہیں ہونے دے رہے تھے ۔میں نے آنکھیں کھول لیں ، میں نے لوئی اتاری اور واپس اپنے اسی کمرے میں آ گیا جہاں میں ٹاپنگ میں مصروف تھا ، ہوا تھم چکی تھی ، روبن اڑچکا تھا ، گریٹ ٹٹ اور بلو ٹٹ خاموش تھے اور میری دنیا میں بس ایک ہی آواز آرہی تھی ، ٹک ٹک ٹیٹیک ٹک ٹیٹیک ٹک۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :