قومی مقصدیت سے عاری ہجوم

اتوار 20 جولائی 2014

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

وائی فائی(WiFi)کے روٹر(Router)کی جلتی بجتی نیلی روشنی انٹر نیٹ کی روانی کا پتہ دے رہی تھی سوشل میڈیا کی لت کے اثر میں میز پر رکھی سال کی تیز ترین اور باریک ٹیبلٹ(Tablet)کی طرف بڑھا تو بغیر ارادے کے دو قدم آگے بڑھ گیا۔میرے سامنے لکڑی کی ایک چھوٹی سی الماری ایستادہ تھی جسے برسوں پہلے میں نے بڑے شوق سے بنوایا تھا اور اس میں رکھی ہوئی وہ چند کتابیں تھیں جنہیں کبھی روپیہ روپیہ بچاکر خریدا تھا۔

ان کتابوں میں سے کچھ کو ایک بار پڑھا،کچھ کو بار بار پڑھا اور کچھ کو کئی بار۔ ان کتابوں نے ہر بار علم و دانش کے موتی عطا کیے لیکن ضروریات کے دباؤ آلائشوں کے الاؤ اور وقت کے بہاؤ میں سب کچھ بہہ گیا۔کمپیوٹر سے لیپ ٹاپ،لیپ ٹاپ سے نوٹ بک اور پھر الٹر بک سے تیز ترین ٹیبلٹ تک کے سفر میں آدمی کو فرصت نصیب ہوتو سوچے کہ اس نے ٹیکنالوجی کے استعمال اور انحصار کے اس سفر میں کیاکیا گنوا دیاہے۔

(جاری ہے)


علم و ہنر کی لگن رہی ،نہ بلندی کردار کا شوق،نہ حسرت کمال رہی،نہ زوق جمال،نہ شعرو سخن کا فسوں رہا،نہ ستاروں پر گھمنڈ ڈالنے کا جذبہ ۔ اک ان دیکھی منزل کی طرف اندھا سفر جاری ہے۔سہولیات تو مل گیں مگر راحت کہیں گھو گئی۔ آدمی کی سب سے قیمتی متاع وقت ہوتا ہے بدقسمتی سے آج یہ سب سے ارزاں ہے کبھی کبھی یوں لگتاہے کہ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی نے ہمیں بے سمت کردیاہے۔

20کروڑ کے ہجوم میں اشرافیہ کے علاوہ کئی گروہ بن گئے ہیں پہلا گروہ جس کا میں بھی رکن ہوں آلائش زندگی کی دوڑ جس میں ایسا”جامد“ہوچکاہوں کہ بے حسی کا بت بن گیا ہے۔عہد حاضر کے آدمی کے المیوں کو امریکی شاعر ولیم ڈیوس نے کمال جہاندیدگی سے خوبصورت انداز سے نظم کیا ہے۔
We have no time to stand and stare
افسوس آدمی کے پاس فطرت سے ہم کنار ہونے کی فرصت نہیں ہے۔

دوسرا گروہ وہ ہے جس کی زندگی کا مقصد نت نئے موبائل فون ، تیز رفتار انٹر نیٹ، اور سوشل میڈیا پر لغویات میں مگن رہتاہے۔مجھ جسے لاکھوں نام نہاد پڑھے لکھے لوگ گھنٹوں فیس بک اور ٹیوٹر پر بے مقصد بحث،سکینڈلز کی کھوج اور لغویات سے لطف اندوز ہونے میں گزار دیتے ہیں۔اس سوشل میڈیا نے تو ایسا سحر زدہ کیا ہے کہ بڑے بڑے ”دانشوروں“ نے اپنے اکاؤنٹ کو اپ ڈیٹ رکھنے کے لیے سٹاف بھرتی کررکھاہے۔


اک بے فیض معلومات کا طوفان ہے جس نے اہل پاکستان کو اسیر کررکھاہے۔خبر میڈیا سے سوشل میڈیا تک پہنچی ہے تو ”جبر “ بن جاتی ہے اور ہمیں اس ”خبر“ کا شاید نشہ سا ہوگیاہے۔ اس روز ناجانے ساقی کی ”جادو نگاہوں“کا اثر کم تھا کہ میں دو قدم آگے بڑھ کر بک شلف کے سامنے جاکھڑا ہوا۔ کتابوں کا جائزہ لیتے ہوئے نظم ڈاکٹر محمد سلیم کی کتاب”بیسویں صدی میں برصغیر کے مسلم مشاہیر“ پر ٹھہر گئی۔


پھر پلٹ کر نگاہ نہیں آئی
تم پر قربان ہوگئی ہوگئی
فہرست پر نظر دوڑائی تو مسلم برصغیر کی عظیم شخصیات کے نام چمک رہے تھے۔سرفہرست بانی پاکستان قائداعظم اور اس کے بعد بتدریج مولانا محمد علی جوہر،سید عطاء اللہ شاہ بخاری،مولانا حسرت موہانی، سید سلیمان ندوی،مولانا ظفر علی خان،مولانا بشیر احمد عثمانی،نواب بہادر یار جنگ اور حکیم محمد اجمل خان کے نام پڑھ کر احساسات کی زمین پر اطمینان،یقین اور فخر کے پھول کھل اٹھے۔

یہ حقیقت ایسی تھی کہ مسلمان برصغیر کومعاشرتی، سماجی اور سیاسی شعور و آگہی کے لیے ایک ہی صدی میں اتنی نابغہ روزگار شخصیات عطاء ہوئیں جنہوں نے اپنے علم،فہم و فراست،دانش،خطابت ،صحافت اور ریاضت سے برصغیر کے مسلمانوں کے تشخص کو اجاگر کیا اور پاکستان کی منزل کے راستے میں”چراغ راہ“ بن کر روشنی بکھیرتے رہے۔اس کتاب کی ایک خاصیت تو یہ ہے کہ ہمارے ”محسنین “ سے تعارف کا ذریعہ ہے دوسرا ہر مضمون کو درجنوں کتب کے مطالعے کے بعد عام فہم اسلوب میں تحریر کیا گیاہے۔

یوں یہ کتاب کئی کتابوں کا ”حاصل“ہے۔
ڈاکٹر محمد سلیم پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ طبیعات کے چیئرمین،ہائی انرجی فزکس کے ڈائریکٹر اور فیکللٹی آف سائنس کے ڈین رہ چکے ہیں۔ وہ امریکہ میں انسٹی ٹیوٹ فاربیسک ریسرچ کے فزکس کے اعزازی پروفیسر ہیں۔ آپ کے سو سے زائد مقالات معروف غیر ملکی تحقیقی جرئد میں چھپ چکے ہیں۔ فزکس کے مختلف موضوعات پر آپ کی کتابیں برطانیہ اور امریکہ کے مشہور پبلشرز کی طرف سے شائع کی جاچکی ہیں۔

آپ امریکہ سے شائع ہونے والے فزکس کے ممتاز تحقیقی جریدے(hardonic Journal)کے مرید بھی ہیں۔اس کتاب سے پہلے اردو زبان میں ان کی تین کتابیں ”دارہ شکوہ” ، ” قائداعظم محمد علی جناح“ اور ”علامہ اقبال کی سیاسی زندگی“ چھپ چکی ہیں۔
ان ہمہ جہت شخصیات کے اوصاف کا کس خوبصورت انداز سے ڈاکٹر محمد سلیم سے اپنے دیپاچے میں تذکرہ کیاہے۔

”ہم تاریخ کے جھروکوں سے دیکھتے ہیں تو بیسویں صدی میں برصغیر کے مسلم مشاہیر کے کارناموں کی روشنی سے عالم اسلام بقعہ نور بنا نظر آتاہے۔ ان مشاہیر میں تراشے ہوئے ہیروں جیسی چمک دمک تھی اور ان میں سے ہر ایک ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔اب اس بات کو شدت سے محسوس کیا جارہا ہے کہ نئی نسل اپنے اسلاف کے علم و عمل،بے پنا فراست و ذہانت،کمال کی سیاست،بے مثل خطابت،بے نظیر تفسیرقرآن،دل کش و دلآویز انشا پردازی،بے کراں فصاحت و بلاغت سے بے خبر ہوتی جارہی ہے۔

انہیں اس کا علم ہی نہیں کہ ہمارے اسلاف نے سربلندیوں کی کہکشاں کی ہمسری کا دعویٰ کیا تھا اور خود عروج و کمال نے ان کی عظمت کے قدم چومے تھے۔وہ دلوں ہی پر نہیں،دماغوں پر بھی حکومت کرتے رہے۔ اس کی سعی سے انگریز سامراج کی اقتدار کا وہ سورج جو کبھی غروب نہیں ہوتاتھا،سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گیا۔اسلام کی عظمت کے لیے مسلمان قوم نے آزادی کی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا اور اپنے خو ن سے سوگھی زمین کو گلنارکیا جس سے آزادی کا پھول کھلا۔

ان میں سے بعض کے علمی کاموں کی روشنی سے نئی نسل کے دل و دماغ جگمگا اٹھے۔“
اس کتاب میں جن عالی مرتبت شخصیات کے حوالے سے مضامین شامل ہیں انہوں نے اپنی بے لوث کاوشوں سے مسلمانان برصغیر کو سیاسی شعور اور ملی فکر سے روشناس کروایااور آج ہم ایک آزاد ملک میں سانس لے رہے ہیں۔قائداعظم کی شخصیت سے تو ہر نوجوان شعورکی آنکھ کھولتے ہی متعارف ہوجاتا ہے گو اب کچھ ”دانشوروں“ کویہ بات ہضم نہیں ہوتی اور وہ بانی پاکستان کے حوالے سے کوئی نہ کوئی درفیطنی چھوڑتے رہتے ہیں اللہ تعالی ڈاکٹر صفدر محمود اور حامد میر جیسے عاشق پاکستان و بانی پاکستان کو سلامت رکھے جو ان نام نہاد دانشوروں کی در فیطنیوں کا جواب دلیل اور تاریخی حوالے سے دیتے رہتے ہیں۔

مگر ہمارے ہاں تحریک پاکستان سے وابستہ دیگر مشاہیر کا تذکرہ اب کتاب میں ملتانہ ہی خطاب میں۔
اگر جناب مختار مسعود کی کتاب” آواز دوست“ نہ پڑھی ہو تو شاید میں امیر شریعت عطا ء اللہ شاہ بخاری ، شاعر و سیاستدان اور عجزو انکساری کے پیکر مولانا حسرت موہانی کے بارے میں کبھی بھی جان نہ پاتا اسی طرح علمی و ادبی حلقوں میں مولانا سلمان ندوی کے اسلامی تعلیمات کے فروغ خصوصاً سیرت نبویﷺ پر خدمات کا ذکر نہ سنا ہوتا تو اس عظیم شخصیت کے تعارف سے بھی محروم رہتا۔


مسلم برصغیر کے مشاہیر کی بلندی کردارکا اندازہ کرنے کے لیے مولانا حسرت موہانی کے بارے میں مضمون کا یہ پیرا ملاحظہ کیجئے۔
”ان کے فقروو قناعت کے واقعات پڑھ کر ان کی عظمت کا شدید احساس ہوتاہے۔کرشن بابو شرمارقم طراز ہیں کہ ایک مرتبہ حسرت کے ایک نیاز مند ان سے ملنے آئے۔اس وقت مولانا کچھ لکھ رہے تھے۔ان کے آنے پر مولانا لکھتے بھی رہے اور ساتھ ساتھ ان صاحب سے باتیں بھی کرنے لگے۔

پشت پر ایک پھٹا پرانا پردہ لٹک رہاتھا۔مولانا پردے کے پیچھے ہاتھ ڈال کر کچھ نکالتے اور منہ میں رکھ لیتے اور اپنے سامنے دیسک پر رکھی ہوئی گڑکی ڈلی سے تھوڑا سا گڑ کھالیتے۔ملاقاتی نے کہا حضرت آپ کیا کھارہے ہیں۔کچھ خادم کو بھی عطاء ہو۔مولانا نے پردے کے پیچھے سے مٹی کا ہنڈا نکال لیا جس میں سوکھی روٹیاں پانی میں بھیگی ہوتی تھیں۔کہنے لگے یہ فقیروں کاکھاناہے تم نہ کھا سکو گے۔

ملاقاتی آب دیدہ ہوگیا۔مولانا نے کہا آج تیسرافاقہ تھا شکر ہے سوکھی روٹی میسر آگئی۔“
تحریک پاکستان کے لیڈراپنے قائد محمد علی جناح کی طرح راست کردار،ایماندار اور مولانا حسرت موہانی کی طرح عجزو انکسار اور عظمت کردار کا پیکر تھے۔اس سے بڑھ کر ہمار المیہ اور کیا ہوگا کہ آج ہم نے لٹیروں کو لیڈر بنالیاہے۔پاکستان کو خوشحال اور مستحکم ملک بنانے کے لیے ہمیں نوجوان نسل کو مسلم مشاہیر کے ذاتی اوصاف اورقومی خدمات سے متعارف کروانے کا اہتمام کرناہوگا ورنہ ہجوم ہجوم ہی رہے گا اور پاکستان قومی مقصدیت سے عاری اس ہجوم کا مسکن ۔

ہم نے یہ وطن جہد مسلسل ،بے شمار قربانیوں اورنفاذ اسلام کے وعدے پر مانگا تھا۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانان برصغیر کو پاکستان کا تحفہ27رمضان المبارک کو عطا کیا تھا ۔اورماہ رمضان بھی ہمیں ایک قوم بننے اور پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا وعدہ یاد دلا رہاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :