انقلاب کے بعد پاکستان کیسا ہوگا؟

جمعرات 24 جولائی 2014

Mumtaz Amir Ranjha

ممتاز امیر رانجھا

رمضان کا آخری عشرہ بھی تقریباً اختتام کو ہے۔رحمتوں برکتوں اور مغفرتوں کا مہینہ ختم ہونے کوہے جبکہ دوسری طرف دکاندار،تاجر اور ریڑھی بان وعوام کے ساتھ مارا ماری میں اپنی سیپڈ بڑھائے نظر آتے ہیں۔پھل ،سبزی اور اشیائے صرف مہنگی سے مہنگی ہوتی نظر آرہی ہیں۔لوگ ان کے ہاتھوں روز لٹتے ہیں۔خواہشات اور ضروریات سے مجبور عوام اس مہنگائی سمیت مہنگی اشیاء بیچنے والوں سے تنگ،مایوس اور پریشان حال نظر آتے ہیں۔

رمضان میں تاجروں کا ٹارگٹ نئی فیکٹری بنانے کیلئے پیسے جوڑنا،دکاندار کا نیا سٹور بنانے کے پیسے اکٹھے کرنا اور ریڑھی والے کا نئی دکان بنانا ہوتا ہے۔قارئین دیکھیں حکومت کے دباؤ کے باوجو د (آلو صاحب) کی قیمت کم نہ ہو سکی (آلو جناب) بھی اب ساٹھ سے اسی روپے تک بکتا ہے یعنی آلوؤں اور دکانداروں پر حکومتی رٹ قائم نہ ہو سکی۔

(جاری ہے)

جس سٹور،دکان اور ریڑھی بان کے پاس جائیں جیب سے پیسے اسے نکلتے ہیں جیسے کوئی جیب تراش جیب کاٹ کے رفو چکر ہو جاتاہے۔

غریب لوگ اکثر افطاری ایک دو کھجوروں یا سادہ پانی سے ہی کھولنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
حکومت کے سستے رمضان بازاروں میں دکاندارغیر معیاری اور مضر صحت اشیاء اور مال مہنگے داموں بیچنے سے باز نہیں آتے۔برکتوں کے اس مہینے میں نیکیاں اکٹھی کرنے کی بجائے ہم لوگ گناہوں کیطرف نہ جانے کیوں دوڑنا پسند کرتے ہیں۔یہ مہینہ لوگوں سے انصاف،بردبادی اور خوش اخلاقی سے پیش آنے کا ہے لیکن ہمارے دکانداروں اور تاجروں کے پاس مہنگائی کی چھری ہے،جس سے قربانی سے پہلے ہی لوگوں کا گلہ کاٹ لیتے ہیں اور کسی کے بولنے پر اس کی ٹھکائی تک کرنے سے باز نہیں آتے۔


مولانا طارق جمیل صاحب بالکل ٹھیک فرماتے ہیں کہ” ہم لوگ خوداپنے دشمن ہیں ،ہم خود پریکٹیکل نہیں،ہم خود ایماندار نہیں،ہم خود بے ایمان اور کرپٹ ہیں ، پھرہر بات پرخواہ مخواہ واویلا کرتے ہیں کہ یہ امریکہ کی سازش ہے۔زوال حکمرانوں کی ناانصافی سے نہیں آتا بلکہ زوال عوام کے ظلم و ستم اور نافرمانی کی وجہ سے آتا ہے۔“بالکل ایسے ہی مہنگائی کو کنٹرول کرنا اگرچہ حکومت کا کام ہے۔

حکومت قانون بناتی ہے لیکن قانون پر عمل نہ کرنا ہم عوام کی اپنی غلطی ہے ،ہم خود مہنگی اشیاء بیچتے اور خریدتے ہیں اور پھر شور مچاتے ہیں کہ حکومت مہنگی اشیاء فروخت کر رہی ہے۔فوڈ انسپکٹرز کا کام ہے کہ وہ پولیس کے ساتھ ملکر اشیاء کا معیار اور ریٹ چیک کریں اور مہنگی اشیاء بیچنے والے دکاندار کی سرکوبی کرے اور روزانہ کی ریٹ لسٹ پر اشیاء فروخت نہ کرنے والے دکانداروں کا کاروبار سیل کرے لیکن یہ ایسا نہیں کرتے۔

قارئین پھر دھڑا دھڑ دھڑلے سے گلے سڑے پھل ،فروٹ اور سبزی بکتی چلی جاتی ہے۔فوڈ انسپکٹر اور ان سے منسلک پولیس صاحبان بھی شاید عیدی بنانے کی مہم تیز سے تیز تر کر دیتے ہیں۔اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ شاید انہیں پھل فروٹ کی پیٹیاں مل جاتی ہیں یا گھر پر رشوت بھیج دی جاتی ہے تبھی تویہ عوام کا خیال نہیں کرتے۔کوئی چھاپہ نہیں ڈالتے کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھتے تبھی ہر دکاندار رمضان میں ”ڈبل کمائی“ پروگرام باقاعدگی سے چلاتے ہیں۔


حکومت جہاں عوام کے لئے اتنی زیادہ مقدار میں سبسڈی دیتی ہے وہیں اگر تھوڑی سی ایماندار اور (Strict) قسم کی نفری بھی تعینا ت کر دے تو شاید حالات بہتر ہو جائیں۔یقین کریں عوام رمضان اور مہنگائی میں رُل جاتی ہے اور کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ہے اس پر یہی کہیں گے کہ
##مائے نی میں کنوں آکھاں
رمضان میں ہر چیز کا ریٹ ڈبل ہو جاتا ہے۔خاوندوں کی عید الفطر پر ہی قربانی ہو جاتی ہے۔

عید الفطر کے لئے کپڑے لینے جائیں تو دکاندار گویا گاہک کپڑے اتارلیتا ہے۔عید کے لئے جوتے لینے ہوں توگاہک کو خود جوتے پڑنے کے سو فی صد چانس نکل آتے ہیں۔لیڈیز میک اپ کا سامان خرید کر میاں کا سرگنجا کر دیتی ہیں۔ہمار ا ملک اسلامی ہے لیکن لاقانونیت میں ہم لوگ غیر مسلموں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں کئی باتیں ایسی ہیں جو کہ ہماری اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے جنم لیتی ہیں۔

مثلاً احقر نے اپنے علاقہ قریشی آباد،چک جلال دین راولپنڈی میں ایک میٹر ریڈر کو دیکھا جو بجلی غیر موجودگی میں ریڈنگ نوٹ کر رہاتھا اور اس سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ ”حضرت ہر ماہ بل بہت آتا ہے کیا وجہ ہے“۔اس پر میٹر ریڈر صاحب گویا ہوئے کہ”یہ حکومت ہی ایسی ہے ،یہ بل زیادہ بھیجتی ہے“۔مجھے اس کی اس بات کو سن کر شدید کوفت ہوئی مجھ سے رہا نہ گیا میں نے اس سے کہا”کم بخت تم تنخواہ گورنمنٹ سے لیتے ہو اور گورنمنٹ کے خلاف بولتے ہو ،خود کی بے ایمانی کا نہیں بتاتے،بجلی بند تو تو میٹر سے بھلا ریڈنگ کیسے ہو سکتی ہے؟“۔

بجلی میٹر کی طرح ہم تمام پاکستانیوں کی ایمانداری کی یہی روایا ت ہیں۔ہم لوگ اپنی اصلاح نہیں کرتے ،خود ایماندار نہیں ہوتے،خود بے ایمانی سے باز نہیں آتے،گورنمنٹ کو گالیاں نکالتے ہیں،عوام کا بھرکس نکالتے ہیں اور خود قانون پر عمل نہیں کرتے اور قصور وار ٹھہراتے ہیں حکومت کو۔
طاہر القادری صاحب عوام کو خود مشتعل کرتے ہیں اور قصوروار ٹھہراتے ہیں حکومت کو۔

ایک دن میں دفتر سے گھر آ رہا تھا تو میں نے خود دیکھا کہ قادری گروپ چوہڑ چوک بلاک کئے ہوئے تھا۔جب چوک کراس کرنے کی کوشش کی تو تماشہ دیکھا کہ جو بھی کراسنگ کی کوشش کرتا قادردی گروپ اس کو گالیاں دیتا او رکر کہتے کہ بھائی جان آپ نظر نہیں آتا یہاں آج ہمارا دھرنا ہے ،ہمارے قادری صاحب کے حکم کے مطابق یہاں ٹریفک نہیں چلے گی۔کئی مجبور و بے لوگ چوک میں گھنٹوں قید رہے پھر کہیں جا کر آرمی والوں نے آ کر چوک کھولا۔

یہ ہے قادری صاحب کے انقلاب کی ایک ادنیٰ سی مثال یہ ہے قادری صاحب کے انقلاب کے بعد کا پاکستان۔
عمران خان کا نیا پاکستان ہم روز دیکھتے ہیں۔عمران خان فیس بک کا وزیراعظم تو ہے ہی۔اب اسکا خواب ہے کہ راتوں رات پاکستانی حکومت اس کے ہتھے چڑھ جائے ۔پھر پلوشہ خان جیسی حسینائیں ہوں،خان صاحب ہوں اور نیا پاکستان ہو۔قارئین پاکستان ہم سے ہے۔

اگر ہم سارے خود کو ٹھیک کر لیں تو ہمیں کسی قادری،کسی عمران خان اور کسی پریشر گروپ کی کوئی ضرورت نہیں۔ہمارے دکاندار،ریڑھی بان اور تاجر اگر ہماری کھال اتارنا چھوڑ دیں۔ہم سارے محنت و مشقت کو اپنا شعار بنا لیں تو مہنگائی کا جن بوتل میں بند ہو جائیگا۔ہماری ایمانداری،ہماری حب الوطنی،ہماری سچائی اور ہماری قانونی پاسداری ہی ہماری کامیابی ہے۔پھر قوم وملک ترقی کرے گا یہی ترقی انقلاب ہے اس سے بڑا انقلاب کوئی نہیں لا سکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :