ٹھوس یا ٹھس

ہفتہ 26 جولائی 2014

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

پاکستانی قوم 14اگست کو یوم آزادی مناتی ہے، اس لیے کہ 1947کی اس تاریخ کو اس ”آزاد“ مملکت کو وجود ملا تھا، آزادی تو27رمضان کو بھی ملی تھی ،سن تھا 1366ہجری لیکن 27رمضان کو یوم آزادی نہیں منایا جاتا، بعض لوگ اس خواہش کااظہار کرتے رہتے ہیں کہ یوم آزادی 14اگست کی بجائے 27رمضان کو منایا جائے ،لیکن قوم اور اس کے رہ نما اس خواہش کو پورا نہیں کرنا چاہتے ، اس لیے ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں،وجہ یہ ہے کہ یوم آزادی منانے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، یہ تقاضے رمضان میں پورے نہیں کیے جا سکتے ، شیطان قید ہوتا ہے ، تقاضے پورے کیے جائیں تو ان تقاضوں کی ذمے داری انسانوں کو اپنے ذمے لینا پڑے گی ،اس کو قوم بھی مناسب نہیں سمجھتی اور قوم کے رہ نما بھی،انسان کی تو خوبی ہی یہ ہے کہ یہ جو خود کرے وہ بھی شیطان کے کھاتے میں ڈالتا ہے ، شیطان انسان کا ازلی اور ابدی دشمن ہے ،اس لیے اس کو زیادہ سے بد نام کرنا انسان نے اپنا مشن بنا لیا ہے،اچھا مشن ہے جاری رہنا چاہیے ،بس اتنا خیال رہے کہ روز قیامت اپنے کیے کی ذمے داری شیطان کے سر ڈال جان نہیں چھڑائی جا سکے گی ، شیطان اپنے کیے کی بھگتے گا اور انسان اپنے کیے کی۔

(جاری ہے)


#####
الطاف بھائی کا کہنا ہے حکومت نے قتل و غارت روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے، یہ گلہ صرف الطاف بھائی کو نہیں دوسری جماعتوں کو بھی حکومت سے یہی شکوہ و شکایت ہے ،حکومت کا کہنا ہے وہ جب اقدامات کرتی ہے تو یہ سب رہ نما دہائی دیتے کہ زیادہ ٹھوس اقدامات کر دیے گئے ہیں جس سے ان کے لوگ ”ٹھس “ ہورے ہیں، ایک بار فیصلہ کر لیا جائے کہ اقدامات ٹھوس کرنے ہیں یا اپنے لوگوں کو ٹھس ہونے سے بچانا ہے یعنی ملک سے بد امنی ختم کرنی ہے یا اپنے چہیتوں کو قانون کی گرفت سے بچانا ہے ،دو نوں چیزیں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔

امن قائم کرنا ہے تو یہ پروا چھوڑنا ہو گی کہ کون کون ٹھس ہو رہا ہے۔
#####
سندھ پولیس کے قائم مقام آئی جی کا کہنا ہے کہ” کراچی میں انتہائی تربیت یافتہ اور جدید اسلحے سے لیس دہشت گردوں کا راج ہے۔“رسمی اور وقتی آئی جی صاحب اس مقولے پر عمل کر رہے ہیں، کہ دشمن کو کبھی کمزور نہیں سمجھنا چاہیے اور با صلاحیت و بہادر دشمن کی تعریف کرنی چاہیے، یہ پتا نہیں قائم مقام آئی جی صاحب دشمن کی تعریف ہی کرتے رہیں گے یا ان کے خلاف کارروائی بھی کریں گے،ایسا لگتا ہے آئی جی ہوں یا ڈی آئی جی صاحبان ،اصلی ہوں یا قائم مقام ان کو اپنی نوکری بچانے کی فکر ہوتی ہے، اس لیے وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی بجائے ان کے خلاف بیانات دینے پہ ہی اکتفا کرتے ہیں، ان بیانات میں اپنی بے چارگی کا رونا بھی ہوتا ہے اور دشمن کی بہادری کا ذکر بھی، سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساز باز بھی جاری رہتی ہے اوردہشت گردوں کے خلاف آپریشن بھی، غریب غرباء ہاتھ لگ جائیں ان کی چمڑی ادھیڑ دی جاتی ہے ، کبھی ہاتھ اوچھا پڑ جائے تو ان صاحبان کو لینے کے دینے بھی پڑ جاتے ہیں۔

لین دین کے اس چکر میں ہی سروس پوری ہو جاتی ہے ، اس دوران اپنے ساتھ اگلی کئی نسلوں کی روٹی کا بھی انتظام ہو جاتا ہے ، باقی زندگی پاؤں پسارے گزارتے ہیں۔
####
پی پی پی کے نوجوان سرپرست اعلی نے پارٹی رہنماؤں سے کہا ہے کہ عید فوجی جوانوں کے اہل خانہ کے ساتھ منائیں۔تجویز بری نہیں، خاص طورپر ان کے اباحضور اور ان جیسے دوسرے لیڈر صاحبان کے لیے جن کے اہل خانہ نہیں ان کو اس تجویز پر عمل کرنا چاہیے ۔

شیخ رشید بھی خودکو فوج کا چہیتا ثابت کرنے میں مصروف رہتے ہیں ان کی عید بھی فوجی بھائیوں کے اہل خانہ کے ساتھ گزرنی چاہیے، عمران خان بھی ایک آدھ دن کے لیے میاں صاحب کی جان چھوڑ دیں،رہے الطاف بھائی تو وہ یقینا ٹیلے فونک ساتھ دیں گے۔ ان کے پاس ہر پریشانی ، ہر مشکل کا حل ان کا فون ہے ، بڑا وفا دار ساتھی ہے الطاف بھائی کا ۔خدا کرے چولی دامن کا یہ ساتھ برقرار رہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :