کنفیوژڈ سٹیٹ

پیر 28 جولائی 2014

Jahid Ahmad

جاہد احمد

پاکستان روزِ اول سے سیاسی طور پر غیر مستحکم ، اندرونی و بیرونی جارحیت اور ریشہ دوانیوں کا شکار ملک رہا ہے۔ انگریز دور کے نو آبادیاتی نظام کی جڑیں اس خطہ میں اس حد تک گہری ہو چکی تھیں کہ آزادی کے ما بعد حصول بھی اپنا رنگ دکھاتی رہیں۔ سیاست دان کمزور تھا، سول بیوروکریسی مضبوط تھی جبکہ نزاکتِ وقت کے پیش نظر افواج کو تگڑا کرنا اور تمام قسم کے وسائل سے لیس کرنا اہم ترین قومی ذمہ داری تھی۔

1947 میں کشمیر کے پہلے تنازعے کے بعد ہی سے اعلی سول قیادت نے محسوس کر لیا تھا کہ طاقتور افواج کی غیر موجودگی میں پاکستان کی بقا کو بیرونی جارحیت اور خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا اورملک کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہر دم کھڑا رہے گا۔پھر ذمہ داری یقینا نبھائی گئی اور حکومت وقت نے عوام کا پیٹ کاٹ کر، صوبوں کے حقوق سلب کر کے ترجیحی بنیادوں پر قومی وسائل کا رخ افواجِ پاکستان کی جانب موڑا اور انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کیا ! یوں 1951 میں پاکستان کا تیسرا کمانڈر انچیف ایوب خان کی صورت میں سامنے آیا جو جنرل فرینک میسروی اور جنرل ڈگلس گریسی کے بعد پاکستان کا پہلا غیر انگریز سپہ سالارتھا۔

(جاری ہے)


پاکستان کا حصول کسی خواب کے حقیقت کا روپ دھار لینے سے کم نہیں جس کے تئیں اسقدر منقسم مزاج متنوع اقوام کو سبز ہلالی جھنڈے تلے اکھٹا کیا گیا۔قائد اعظم کے انتقال اور پھر لیاقت علی خان کے قتل کے بعد پاکستانی سیاست میں قیادت کا ایسا بحران پیدا ہوا جس نے روز بروز ملکی معاملات میں نئے نئے تنازعات کو جنم دیتے ہوئے افواج کو سیاست میں شمولیت پرمجبور کر دیا۔

فوج ایک بار جو اس سمندر میں اتری تو سیاست و اقتدار کا ایسا چسکا لگا کہ بات 1958 کے فوجی انقلاب پر ختم ہوئی اور پھر کام چل سو چل ہی رہا۔ ایوب خان کا انقلاب، یحی خان کا دورِ حکومت، ضیاء الحق کا سیاہ ملائیت زدہ عہد اور پھر پرویز مشرف کا مکے لہراتا آٹھ سالہ زمانہِ شجاعت !!!
ان تمام ماہ و سال میں وقوع پذیر ہوئے حالات و واقعات کے بعد افواج تو مستحکم ہو گئیں لیکن سیاست دان کیونکہ ہمیشہ سے ہی افواج کی مقتدرِ اعلی کی جانب سے حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا اور اسے ایک ایسے بدعنوان، جھوٹے اور لالچی طبقے کے طور پر ابھارا گیا جس کو قابو کرنے کے لئے ایبڈو جیسے قوانین کو رائج کرنا عین ضروری و درست گردانا گیا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ افواج بھی سیاست دان کو مضبوط کرنے میں ویسا ہی کردار ادا کرتیں جیسا کہ سیاست دان نے افواج کے لئے کیا تھا لیکن ہوا سب اس کے برعکس۔ ذولفقار علی بھٹو کو ضیاء الحق محض اس لئے معاف کرنے پر تیار نہیں تھا کہ بھٹو کے آزاد ہو جانے اور الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے صورت میں ضیاء الحق کو آرٹیکل چھ کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

ضیاء الحق یہ اپنی آنکھوں سے خود دیکھ چکا تھا ،سمجھ چکا تھا، کہ بھٹو کے خلاف مقدمات بنانے اور نفرت پھیلانے کے باوجود بھٹو عوام کا چہیتا تھا ،لاڈلا تھا! اپنی سنگین غلطیوں کے باوجود لوگ جوق در جوق اس کے پیچھے کھڑے تھے اور انتخابات منعقد ہونے کی صورت میں بھٹو کو جیتنے سے ایک مرتبہ پھر کوئی نہیں روک سکتا تھا۔نہ ضیاء الحق اور نہ ہی پاکستان قومی اتحاد!پرویز مشرف نے بھی بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو ملک بدر کر کے دیکھ لیا! دونوں شخصیات کو پاکستان سے باہر رکھنے کی ہر ممکن سعی کے باوجود یہ دونوں حضرات پاکستان واپس آئے اور دونوں کی سیاسی جماعتیں بالترتیب 2008 اور 2013 میں عام انتخابات جیت کر عوامی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹونے اسی جمہوری عمل کو آبیار کرنے کے خاطر جامِ شہادت تک نوش کیا۔
سول و فوجی قوتوں کے مابین جنگ اور جمہوریت کو پٹٹری پر چڑھانے کی کوششوں میں پاکستان کا بڑا نقصان ہوا ہے! آدھا ملک گنوا دیا گیا، منتخب وزیراعظم تختہ دار پر چڑھا، سیاست دان قتل ہوئے،عوام و اداروں میں جمہوری رویے پروان نہیں چڑھ سکے اور پاکستان آزادی کے سرسٹھ برس پورے کرنے کے قریب ہو تے ہوئے بھی دنیا میں ایک عدد کنفیوژڈ اور ڈری سہمی ہوئی سٹیٹ کے طور پر جانا پہچانا جاتا ہے! ایک ایسی ریاست جہاں عوامی و جمہوری حکومت کو ہمہ وقت تختہ الٹے جانے کا خوف ستائے رکھتا ہے اور جو ہر بڑے فیصلے سے پہلے ایک مرتبہ نظر گھما کر راولپنڈی کی جانب ضرور دیکھتی ہے ۔

حقیقی قوت کو کسی بھی دور میں ایسی سیاسی شخصیات اور عدلیہ میسر رہی ہے جنہوں نے آئین شکنوں اور ڈکٹیٹروں کے اقدامات کو آئینی، پارلیمانی اور قانونی تحفظ فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت ، 1981 کا پی سی او، لیگل فریم ورک آرڈرسب جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے منہ پر زوردار طمانچے ہیں جبکہ ان اقدامات کی توثیق کرنے والے اقتدار اور منصب کے دلدادہ وہ افراد رہے ہیں کہ جنہیں تاریخ شاید ہی کبھی اچھے الفاظ میں یاد کرے گی! امید واثق رکھنی چاہیے کہ خوابیدہ، نا سمجھی اور جذبات کی سونامی میں بہنے والے حضرات انقلاب اور تبدیلی کا نعرہ مار کر حصولِ اقتدار کی خواہش کو پائیہ تکمیل تک پہنچاتے پہنچاتے حالات کو اس نہج پر نہیں لے جائیں گے کہ جہاں اداروں ، سیاسی جماعتوں اور عوام کے مابین تصادم کی ایسی صورتحال پیدا ہو جائے جو پاکستان میں حقیقی قوت کے منبع کو جمہویت کی بساط الٹنے کا نیا موقع محل فراہم کردے۔

نیا پاکستان جمہوری پاکستان ہے! ایک حد زیادہ اور وقت سے پہلے نیا نکور کرنے کی کوشش کہیں اسے انہی گھٹا ٹوپ اندھیروں کی طرف نہ دھکیل دے جس سے بہ مشکل باہر نکلنے کی کوئی آس بندھی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :