آہ۔ ۔ ہم نظریاتی ”سپاہیوں“ کا امیر چلا گیا!

پیر 28 جولائی 2014

Syed Badar Saeed

سید بدر سعید

جنازہ پڑھنے کے باوجود یقین نہیں آتا کہ ہمارا سالار چلا گیاہے۔ ڈاکٹر مجید نظامی کی صورت صحافت کا ایک باب ختم ہو گیا ۔ وہ ہزاروں کارکنوں کی طرح میرے بھی استاد تھے۔آج سے نہیں بلکہ تب سے کہ جب مجھے اخبارات کے درمیان فرق اور پالیسی کا بھی نہیں علم نہ تھا۔ میں ان دنوں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ سکول کی جانب سے پہلی بار نظریہ پاکستان کے پلیٹ فارم پر تقریر کرنے گیا تو وہیں پہلی بار مجید نظامی مرحوم سے ملاقات ہوئی ۔

اس کے بعد نظریہ پاکستان سے تعلق مضبوط ہوتا چلا گیا۔ ہم ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کے نظریاتی کیمپ میں شریک ہوتے تھے۔ وہیں مختلف مباحثے اور فکری نشستوں کا اہتمام ہوتا تھا۔ہمارے ہاں بچوں کو عموماً نظر انداز کر دیا جاتا ہے کیونکہ بچوں پر” وقت ضائع“ کرنے والے کو ان سے کچھ نہیں مل پاتا۔

(جاری ہے)

بچوں کو تو مقرر کا نام تک یاد نہیں رہتا لیکن مجید نظامی بچوں کی تربیت خود کرتے تھے ۔

کبھی ہمیں پروجیکٹر پر تحریک پاکستان کے واقعات دکھائے جاتے تھے تو کبھی فکر اقبال اور اصول قائد سے روشناس کرایا جاتا تھا۔ نظامی صاحب خود بھی مائیک ہاتھ میں لیے اپنے مخصوص انداز میں ہم سے گفتگو کرتے تھے ۔
انہی دنوں مجھے معلوم ہوا کہ ہمیں نظریہ پاکستان سے روشناس کرانے والے مجید نظامی صاحب نوائے وقت کے ایڈیٹر انچیف بھی ہیں ۔ بتانے والے نے بتایا کہ یہ وقت کے حکمرانوں سے ٹکڑا کر پاکستان کے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں ۔

پاکستان ایٹمی طاقت بنا تو اس کے پیچھے بھی نظامی صاحب کی مخصوص دھمکی کا اثر تھا جو انہوں نے وقت کے وزیر اعظم کو دی تھی ۔ حکمرانوں کے ساتھ نظامی صاحب کے تعلقات اکثر خراب رہتے تھے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لگی لپٹی رکھے بنا کھڑی کھڑی سنانے کے عادی تھے ۔ دوسری جانب بچوں کے ساتھ ان کے تعلقات ہمیشہ ہی اچھے رہے۔حکومتی ایوانوں میں انہیں جتنا سخت گیر سمجھا جاتا تھا، بچوں کی محفل میں وہ اتنے ہی نرم دل اور”فرینڈلی“ تھے ۔

سچ کہوں تو زمانہ طالب علمی میں مجھے نظامی صاحب سے نہ تو کبھی ڈر لگا اور نہ ہی انہوں نے کبھی ہم پر رعب جمایا ۔ ان کی شخصیت میں بزرگی کا رنگ نمایاں تھا۔ ہم ان کا احترام کرتے تھے اور وہ ہم پر شفقت فرماتے تھے ۔ میں وہاں شرارتیں بھی کرتا تھا لیکن انہوں نے کبھی کسی بچے کو نہیں ڈانٹا۔مجھے اس دور میں گھر سے زیادہ دور جانے کی اجازت نہیں تھی ۔

نظریہ پاکستان کی بلڈنگ تو میرے لیے جیسے سات سمندر پار تھی ۔ کوئی استاد میسر نہ ہوتا تو ہم تین چار دوست زیر لب مطلوبہ بس کا روٹ نمبر دہراتے خود ہی چلے جاتے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ واحد جگہ تھی جہاں جانے سے والد محترم نے کبھی منع نہیں کیا۔
میں سائنس کا طالب علم تھا ۔ میٹرک تک سکول میں پہلی تین میں سے ایک پوزیشن میرے نام رہی لیکن ایف ایس سی تک مجید نظامی کی شخصیت کا سحر اس قدر ھاوی ہو چکا تھا کہ میں نے میڈیکل کی بجائے ماس کمیونی کیشن کا انتخاب کر لیا ۔

مجید نظامی جس نہج پر ہماری تربیت کر رہے تھے شاید اسی کا اثر تھا کہ میں انٹرمیڈیٹ میں ہی میں قلم اٹھا کر اپنے تئیں” صحافی“ بن گیا تھا۔عملی زندگی میں آنے کے بعد میں نے کچھ عرصہ مختلف میڈیا گروپس میں کام کیا اور پھر نوائے وقت سے منسلک ہو گیا ۔
نوائے وقت کو مجید نظامی نے صحافیوں کے لیے تربیتی ادارہ بنا رکھا تھا۔ یہاں کام کرنے والا جہاں مرضی چلا جائے ، نوائے وقت اس کے اندر موجود رہتا ہے۔

بڑے بڑے نامور صحافی نوائے وقت سے تربیت کے بعد گئے لیکن آج بھی انہیں” نظریاتی صحافی“ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ مختلف اخبارات کے مالکان اور ایڈیٹر نظامی صاحب سے تربیت لینے پر فخر کرتے ہیں ۔ مجید نظامی نظریہ پاکستان ، فکر اقبال اور اصول قائد اپنے کارکنوں کی روح میں گھول دینے کا فن جانتے تھے ۔
لوگ نوائے وقت سے دیگر میڈیا گروپس کی جانب جاتے ہیں ۔

میں دیگر چینلز اور اخبارات میں کام کرنے کے بعد نوائے وقت میں آیا ہوں۔ اس لیے پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس ادارے کو نظامی صاحب نے صحافت کے اعلی اصولوں کی بنیاد پر چلایا ہے۔ نوائے وقت میں دیگر اداروں کی طرح کام کرنے کی” آزادی“ نہیں ہے۔یہاں آپ پاکستان کے خلاف نہیں بول سکتے۔ یہاں حضرت اقبال اور قائد اعظم سمیت مشاہیر پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کی ”آزادی“ نہیں دی جاتی۔

یہاں پاکستان کی نظریاتی اساس کے خلاف کام کرنے کی” آزادی“ نہیں ۔ نظامی صاحب نے کبھی کسی کو اتنی” آزادی“ نہیں دی کہ وہ پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا شروع کر دے۔ نوائے وقت بتاتا ہے کہ آزادی اور توہین میں کیا فرق ہے۔ یہاں وہی کام کر سکتا ہے جسے صحافت کے اصول یاد ہوں ۔ یہ وہ ادارہ ہے جہاں کوئی آپ کو کرپشن یا بلیک میلنگ کا نہیں کہہ سکتا۔

میں ہی نہیں آپ بھی ایسے میڈیا گروپس کو جانتے ہیں جہاں مالکان خود اپنے کارکنوں کو بلیک میلنگ اور کرپشن کا حکم دیتے ہیں ۔ صحافی بلیک میلنگ کے بعد مالک یا انچارج کو اس کا ”حصہ“ دینے کا پابند ہوتا ہے۔ نوائے وقت میں اس کے الٹ معاملہ ہے۔ یہاں کوئی کرپشن کرے تو اس کی چھٹی کر دی جاتی ہے۔ اس معاملے میں نظامی صاحب بہت سخت تھے۔
اسی طرح نوائے وقت واحد میڈیا گروپ ہے جہاں خواتین کی عزت سب سے زیادہ ہے۔

اس معاملے میں بھی نظامی صاحب بہت حساس تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر پرانے صحافی اپنی بیٹیوں کو نوائے وقت کے علاوہ کسی اور میڈیا گروپ میں کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے ۔ یہ ماحول نظامی صاحب نے بنایا تھا ۔ نوائے وقت میں 20 ، 20سال پرانے صحافیوں کو بھی صرف اس لیے نکال دیا گیا کہ ان سے کسی خاتون کو عدم تحفظ کا احساس ہوا ۔ اس معاملے میں انکوائری تو ہوتی تھی لیکن معاملے کو بہت زیادہ طول نہیں دیا جاتا تھا ۔

نظامی صاحب نے اپنے کارکنوں کو خواتین کی عزت و احترام کرنے کا جو درس دیا وہ دیگر بہت سے اداروں میں نہیں دیا جاتا ۔
مجید نظامی صاحب اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان سے تربیت حاصل کرنے والے ہزاروں کارکن صحافی ان کے نظریات کا تحفظ کرتے رہیں گے ۔ پاکستان کے دفاع اور مشاہیر پاکستان کی خدمات کا اعتراف اسی طرح ہوتا رہے گا ۔ نظامی صاحب نے انتہائی محنت سے نظریاتی صحافیوں کی جو نرسری لگائی وہ اب پھیل کر پوری میڈیا انڈسٹری پر چھا چکی ہے ۔

نظریہ پاکستان کی بات کرنے والے صحافی ہر میڈیا گروپ میں ہیں لیکن اگر آپ ان کا پس منظر کھنگالیں تو معلوم ہو گا کہ وہ ماضی میں نوائے وقت سے منسلک رہے تھے۔ ان کی فکری تربیت میں نظامی صاحب کا ہاتھ ہے۔ ڈاکٹر مجید نظامی پاکستان کے لیے جو کام کر گئے ہیں وہ انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا ۔ کم از کم اگلی صدی تک ان کے تیار کردہ نظریاتی صحافی و ادیب اپنا کام کرتے رہیں گے اور پھر ان ادیبوں اور صحافیوں کے تیار کردہ ”نظریاتی صحافی“ میدان میں اتر آئیں گے۔

ڈاکٹر مجید نظامی پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ایک ایسی فوج چھوڑ گئے ہیں جسے شکست دینا اغیار کے بس میں نہیں ۔ اب چرغ سے چراغ جلتے رہیں گے اور مجید نظامی مرحوم کا یہ قافلہ چلتا رہے گا ۔ مجھے ان کے ساتھ کام کرنے اور ان سے اصولی صحافت سیکھنے پر فخر ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :