لیڈر کی ضرورت !!

پیر 28 جولائی 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

عرب اسرائیل جنگ زورو ں پر تھی ،1973کی اس جنگ میں پورا یو رپ اور امریکہ اسرائیل کے ساتھ تھے اور مصر کو عربوں کی حمایت حاصل تھی ۔سعودی عرب کے شاہ فیصل ا س جنگ کے مرکزی کردار تھے اور انہوں نے پہلی دفعہ اس جنگ میں تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا ۔عربوں نے تیل کی سپلا ئی بند کر دی اور پورا یورپ اور امریکہ اندھیرے میں ڈوب گئے ۔

کارخانے اور ملیں بند ہو گئیں ،ٹرانسپورٹ اور گاڑیاں سڑکوں سے غائب ہو گئیں ،لوگوں نے پیدل سفر شروع کر دیئے اور معاشرے بھوک سے مرنے لگے ۔ان دنوں یورپ میں ایک عجیب قانون بناجس کی رو سے کو ئی بندہ اپنی گاڑی میں اکیلے سفر نہیں کر سکتا تھا ،ہر گاڑی والے کے لیئے ضروری تھا وہ پیدل چلنے والوں کو لفٹ دے اور تیل کی بچت کے لیئے گو رنمنٹ کی پالیسیوں پر عمل کرے ۔

(جاری ہے)

اس قانون کے پیش نظر یورپی ملک کے ایک وزیر پر ایک انوکھا مقدمہ درج ہوا کیوں کہ وہ گاڑی میں اکیلے سفر کر رہا تھا اور اس نے کسی کو لفٹ نہیں دی تھی ۔اس ساری صورتحال نے امریکہ اور یورپ کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا ،امریکی انتظامیہ حرکت میں آئی ،ہنری کسنجر دوڑتا ہواسعودی عرب پہنچا لیکن شاہ فیصل نے دو دن تک اسے ٹائم نہیں دیا ،دو دن کے بعد جدہ کے ایک خیمے میں ملاقات ہو ئی ،کسنجر نے پہلے دھونس دھاندلی سے شاہ کو قائل کر نے کی کو شش کی کہ اگر ہم نے آپ کے تیل کا بائیکاٹ کر دیا تو دنیا میں کو ئی آپ کا تیل نہیں خریدے گا ،شاہ نے پوری تندہی سے جواب دیا ”مسٹر کسنجر ہمارے آباوٴاجداد ایک کجھور اور اونٹوں کا دودھ پی کر زندگی گذارتے تھے اور ہم بھی ویسے ہی جی لیں گے ،اگر تیل چاہیئے تو فلسطین کو آزادی دو ورنہ ہم خود اپنے تیل کے کنووٴں کو آگ لگا دیں گے “کسنجر نے تیور بدلے اور خوشامد پے اتر آیا ”معزز بادشاہ میرا جہاز ایندھن نہ ہو نے کے باعث آپ کے ہوائی اڈے پر کھڑا ہے کیا آپ اس میں تیل بھرنے کا حکم نہیں دیں گے ؟دیکھئے میں آپ کو اس کی ہرقیمت ادا کر نے کو تیار ہوں “شاہ فیصل پوری سنجیدگی سے بولے ”میں ایک ضعیف اور عمر رسیدہ آدمی ہوں میری ایک ہی خواہش ہے میں مرنے سے پہلے مسجد اقصیٰ میں دو رکعت نماز پڑھنا چاہتا ہوں کیا تم اس میں میری مدد کر و گے “
عرب اسرائیل میں اب تک چار جنگیں ہو چکی ہیں اور میں آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو ان جنگوں کی تھوڑی ہسٹری بتانا چاہتا ہوں ،عرب اسرائیل میں پہلی جنگ 1948میں ہو ئی تھی اور اس جنگ میں اسرائیل کا پلہ بھا ری رہا ،دوسری عرب اسرائیل جنگ 1956میں نہر سوئز کی وجہ سے ہو ئی ،نہر سوئز مصر کی ایک سمندری گزرگا ہ ہے جو بحیرہء روم کو بحیرہء قلزم سے ملا تی ہے ،یہ 163کلومیٹر طویل نہر ہے اور اس نہر کی بدولت تجارتی جہازوں کا فاصلہ سمٹ کر آدھا رہ جاتا ہے ۔

تجارتی جہاز افریقہ کے گرد چکر لگائے بغیر ایشیا اور یورپ میں داخل ہو جا تے ہیں ۔یہ نہر 1869میں کھودی گئی تھی اور اس وقت یہ معاہدہ ہو اتھا 1959یعنی نوے سال یہ نہر عالمی طاقتوں کے قبضے میں رہے گی اس کے بعد مصر اسے قومی تحویل میں لے لے گا ۔26جولائی 1956میں جمال عبدالناصرنے نہر کو قومی تحویل میں لے لیا جس کی وجہ سے برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل کی مدد سے مصر پربھر پور حملہ کر دیا ،اقوام متحدہ کی مداخلت سے یہ جنگ ختم ہو ئی اور برطانیہ ،فرانس اور اسرائیل نے اپنی فوجیں واپس بلا لیں ۔

جنگ ختم ہو گئی لیکن صدر ناصر ”عظیم تر مصر“کے خبط میں مبتلاء ہو گئے ،صدر ناصر نے پہلے یمن میں مداخلت کی ،ستر ہزار فوجی یمن میں بھیجے اور ساتھ ہی اسرائیل کی طرف پیش قدمی کی منصوبہ بندی بھی شروع کردی ۔اسرائیل کو صدر ناصر کی یہ توسیع پسندانہ پالیسیاں ہرگز قبول نہیں تھیں، اسرئیل نے اندر خانے جنگ کی تیاری کی اور 1967میں اچانک مصر پر حملہ کر دیا۔

اسرائیل کو امریکہ کی مکمل حمائت حاصل تھی ،مصر کے اکثر ہو ائی اڈے اور جنگی جہاز تباہ ہو گئے ،ہزاروں لو گ شہید ہوئے اور آدھا مصر تباہ ہو گیا ۔اسرائیل کا حملہ اچانک تھا اس لیئے مصر کو سنبھلنے کا موقعہ نہ ملا نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ،اسرئیل جنگ جیت گیا ہزاروں مصری فوجی قید ہو ئے ،اسرائیل نے شام کے کئی علاقے ،مصر کے جزیرہ نمائے سینا اور نہر سوئز پر قبضہ کر لیا ۔

چھ روزہ جنگ میں عرب افواج کے 21ہزار فوجی ہلا ک ،45ہزار زخمی اور چھ ہزار قیدی بنا لیئے گئے ،سینکڑوں ٹینک اور چار سو سے زائد طیارے تباہ ہوئے ۔عربوں نے آج تک اتنی ذلت آمیز شکست نہیں دیکھی تھی چناچہ صدر ناصر نے استعفی ٰ دے دیا ۔
نہر سوئز مصری آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ تھی اور اس سے ہر سال اسے ساڑھے نو کروڑ ڈالر کی آمدنی ہو تی تھی ،1967کی جنگ کے بعد یہ نہر اسرائیل کے قبضے میں چلی گئی جس سے مصری معیشت پر بہت برا اثر پڑا ،صدر ناصر نے نہر سوئز کی واپسی کے لیے ایک نئی جنگ کی تیاری شروع کر دی ،صدرناصر نے روس کا دورہ کیا اور روس کو اسلحے کی فراہمی پر قائل کر لیا ، ناصر کی وفات کے بعد انور سادات نے سفارتی کوششوں سے یہ مسئلہ حل کر نے کی کو شش کی لیکن کو ئی نتیجہ برآمد نہ ہو ا6اکتوبر1973کو عربوں نے اسرائیل پر بھرپور تیاری کے ساتھ حملہ کر دیا،جنگ کا آغاز یہودیوں کے مقدس تہوار یوم کپور کے دن ہوا ،مصر اور شام کی افواج نے گولان کی پہاڑیوں اور جزیرہ نمائے سینا پر دوبارہ قبضہ کرلیا ،قریب تھا کہ اسرائیل کی کمر ٹوٹ جاتی اور جنگ ہار جاتا امریکہ میدان میں کود پڑا اور بات مذاکرات کی میز پر چلی گئی ۔

مذاکرات میں عربوں کا پلڑا بھاری رہا اور اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں سے ہاتھ دھونے پڑے اور یوں27سالہ کشمکش میں پہلی دفعہ عربوں کو فتح حاصل ہوئی،اس جنگ میں پاکستان نے بھی عربوں کی مدد کی اور اپنے 16ہوا باز عربوں کے جنگی جہاز اڑانے کے لیئے روانہ کیئے ۔
اب آپ واپس حالیہ فلسطینی جنگ کی طرف آئیں ،فلسطینی مسلمانوں پر تاریخ کا بدترین ظلم ڈھایا جا رہا ہے لیکن ساٹھ ممالک کے حکمرانوں میں سے کسی کی آنکھیں نہیں کھلی ۔

کسی نے آگے بڑھ کر اسرائیلی جارحیت کی مذمت نہیں کی اور کسی نے جنگ بندی کے لیئے آگے بڑھ کر کوئی کردار ادا نہیں کیا ۔جنگیں دراصل لیڈروں کے ذریعے لڑی جاتی ہیں لیکن مسلم امہ آج ایک لیڈر سے محروم ہے ،لیڈروں کی کثرت نے لیڈروں کے فقدان کو جنم دیا ہے ۔شاہ عبداللہ نے تین سو ملین ڈالر کی امداد تو فلسطین کو دی ہے لیکن اندرون خانہ وہ حماس کی کمر تڑوانے کے لیئے اسرائیل سے ملے ہو ئے ہیں ،غزہ میں پھول مسلے جا رہے ہیں او رنواز شریف صاحب دو سو آموں کی پیٹیوں کا تحفہ لے کر سعودی عرب جا رہے ہیں ،یہ مسلم ممالک کے دو نمائندہ ملکوں کے حکمرانوں کا طرز عمل ہے بقیہ اٹھاون اسلامی ممالک کے حکمرانوں کیا کر رہے ہیں اس کا آپ کو اندازہ ہو جا نا چاہئے ۔

عوام سے کو ئی گلہ نہیں ،عوام بیچارے کیا کریں ،عوام اپنی فرض ادا کر رہے ہیں،عوام کا دعاوٴں کا معمول،ریلیوں اور جلسے جلوسوں میں شرکت اور نوجوان طبقے کی کو ششیں قابل تحسین ہیں مگر جنگیں عوام نہیں لیڈر اور حکمران لڑا کرتے ہیں اور یہی ہمارا المیہ ہے کہ ہم ایک ارب پینسٹھ کروڑ ہونے کے باوجود ایک لیڈر سے محروم ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :