دو شرمناک لمحات

جمعہ 1 اگست 2014

Anwaar Ayub Raja

انوار ایوب راجہ

مجھے یہاں برطانیہ میں رہتے ہوے چالیس سال ہوئے ہیں میری زندگی میں دو لمحات بڑے شرمناک تھے ۔ پہلا لمحہ وہ تھا جب یہاں آنے کے دس سال بعد میں پہلی بار پاکستان گیا ۔میں نے پی آئی اے سے سفر کیا اس وقت برٹش ائیر ویز اور دیگر کمپنیوں کے طیارے پاکستان جاتے تھے مگر مجھے میرے پاکستان پر ناز تھا ، پاکستان کا جھنڈا اور پاکستان کی قومی ہوائی کمپنی ہمارا فخر ہوا کرتا تھا ۔

مجھے یاد ہے جب پہلی بار میں اسلام آباد ایر پورٹ پر اترا تو میری آنکھوں میں آنسو تھے ، ۔جیسے قیدی کی آنکھوں میں رہائی کے بعد ہوتے ہیں ۔
پاکستان کی سر زمین کو دیکھ کر میری پیاس میں شدت آ گئی جیسے پیاسے کو پانی ملتا ہے تو وہ پانی کی طرف بے صبری سے لپکتا ہے میں بھی اپنی محبت کی پیاس کو بجھانے کی خاطر پاکستان کی مٹی کو چومنا چاہتا تھا ۔

(جاری ہے)

میں واپس اپنے حرم میں آ چکا تھا ، میں اس کی مٹی کا طواف کرنا چاہتا تھا ۔مجھے اس مٹی سے اپنے خمیر کا کنیکشن ملتا نظر آ رہا تھا ۔یہ ایک انتہائی روحانی تجربہ تھا ۔یہ میری زندگی کا وہ لمحہ تھا جسے میں کبھی بھولنا نہیں چاہتا تھا مگر جیسے ہی میں کسٹم اور امیگریشن سے گزرا تو سب کچھ بدل گیا ۔میرا کنیکشن ٹوٹ گیا ۔میرا طواف ادھورا رہ گیا ، میری پیاس ختم ہو گئی میرے آنسو سوکھ گئے جب مجھ سے پہلی بار مٹھائی (رشوت) کی مانگ کی گئی ( مجھ سے کہا گیا کہ میں برطانیہ سے آیا ہوں اور کسٹم والوں کے لیے کچھ نذرانہ پیش کروں ورنہ میرے ساتھ سختی کی جائے گی ) ۔

میں اپنے حرم میں آیا تھا ، میں اپنے گھر میں داخل ہو رہا تھا میں رشوت دینے جیسے حرام فعل کا سوچ بھی نہیں سکتاتھا ۔میرے انکار پر میرے عظیم ہم وطن دوستوں نے مجھے اس قدررسوا کیا کہ آج تک وہ دن مجھے نہیں بھولتا ۔
میرا حب الوطنی کا سارا بخار اتر گیا مجھے میرے کعبے میں میری چاہتوں کے وطن میں میری محبت کی سرزمین میں ایسے زدوکوب کیا گیا کہ مجھے میرے سفر کے بعد ہر لمحہ خود سے نفرت محسوس ہوئی ۔

کسٹم کے عملے نے میری بیوی کے ذاتی کپڑے باہر نکال کر ان کی پڑتال کی ۔انھوں نے ہمارے ساتھ وہ برتاوٴ کیا جو کسی جیل میں داخلے پہ قیدی کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔یہ میری زندگی میں وہ پہلا لمحہ تھا جب مجھے میری قومیت پر شرمندگی ہوئی ۔وہ دن گزر گیا میں اس کے بعد واپس نہیں گیا ۔میں نے ایک اور کعبہ آباد کیا ، میں نے اپنی محبتوں کا وطن چھوڑ دیا اور اپنی ضرورتوں کا جہان بسا لیا ۔

میں نے برطانوی شہریت اپنا لی ، میرے بچے پیدا ہوئے ، میں نے انھیں تعلیم دلوائی ، ایک بیٹا ڈاکٹر بنا ، دوسرا بیٹا وزارت داخلہ میں سول سرونٹ بنا اور میرے تیسرے بیٹے نے اپنا کاروبار شروع کر دیا ۔الله نے مجھے مالامال کر دیا ۔میرے تین بیٹے میری دولت اور میرا کل سرمایہ بنے ۔
اس کے بعد میں کبھی بھی پاکستان نہیں گیا ۔مجھے پاکستان پکارا کرتا تھا مگر آہستہ آہستہ پاکستان کی آواز میں میرے کانوں سے بہت دور ہو گئی ۔

وہ آواز جس سے میرے دل کی دھڑکنیں جڑی تھیں اس سے میرا رابطہ ٹوٹ گیا ۔پچھلے تیس سال میں بہت سے حادثات رونما ہوئے ان حادثات کی وجہ سے مجھے پاکستان لوٹنے کی ضرورت محسوس بھی نہیں ہوئی ۔ اس دوران میرے رشتے داروں نے میری زمینوں پر قبضے کر لیے اور میری رہی سہی محبت کا جنازہ نکال دیا ۔میری والدہ جب فوت ہوئیں تو میری بیوی پاکستان گئی مگر میں اس وقت بھی نہ جا سکا کیونکہ میں بیمار تھا ، ہسپتال میں تھا اور میں میری ماں اسی مٹی کی چھاتی میں اتر گئی جس کو میں اپنا کعبہ کہتا تھا ۔

ماں کے مرنے کے بعد پاکستان سے سب کچھ اٹھ گیا ۔میرے والد تب فوت ہوئے تھے جب میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا ۔میری بیوی جب پاکستان سے لوٹی تو اس نے مجھے بتایا کہ میری خالہ نے اسے بتایا کہ میری مرحومہ والدہ کی آخری خواہش تھی کہ میں اپنے ایک بیٹے کی شادی پاکستان میں اپنے کسی عزیز کے گھر کرواوٴں ۔جب میری ماں اپنے آخری سانس لے رہی تھی میں اپنی ماں کے لیے کچھ نہیں کر پایا ۔

میں کر بھی نہیں سکتا تھا اور نہ ہی کوئی کر سکتا ہے ۔
میں نے اپنے بیٹوں کو بٹھایا اور اپنی مرحومہ والدہ کی خواہش ان کے سامنے رکھ دی ۔میرے بڑے بیٹے نے میری خواہش کا احترام کیا اور مجھے پاکستان چلنے کو کہا ۔ہم سب تیار ہوئے ۔ہم سب نے سامان باندھا ، میرے اندر پھر سے پاکستان بیدار ہو گیا ۔میں برمنگھم انٹرنیشنل ائیر پورٹ سے جب جہاز پہ سوار ہوا تو مجھے ماضی کے سارے دکھ ، غم ، دشمنیاں ، میرے ہم وطنوں کا برتاوٴ سب بھول گیا ۔

مجھے پھر سے لگا کہ میں باوضو ہو جاوٴں ، میرے کانوں میں پھر سے پاکستان کی آواز گونجنے لگی ۔میری محبتوں کے جہان سے بلند نغمے میرے وجود میں گونجنے لگے ۔
ہم اسلام آباد پہنچے ، اب میں پہلے جیسا جوان آدمی نہیں تھا ، اب میرا رد عمل ویسا نہیں تھا جیسا تیس سال پہلے تھا ۔مجھ میں بہت سی تبدیلیاں آئیں تھیں مگر پاکستان کے نظام میں کچھ نہیں بدلا تھا ۔

سب کچھ ویسا ہی تھا بلکہ پہلے سے بھی بگڑ چکا تھا ، آبادی میں اضافہ ہو چکا تھا ، عمارتیں اونچی ہو چکی تھیں مگر میرے عظیم ہم وطنوں کے مزاج پہلے سے بھی زیادہ پست ہو چکے تھے ۔وہی کیفیت تھی وہی ذلالت جس کا مجھے تیس سال پہلے سامنا کرنا پڑا۔
میں اپنے گاوٴں پہنچا ، اپنی ماں کی قبر کو چوما اپنے باپ کی قبر پہ حاضری دی اور ہم یہاں پندرہ دن رہے ۔

میرے بیٹے نے ہمارے ایک رشتے دار کی بیٹی سے شادی کی ۔دونوں کی شادی کے بعد ہم سب واپس آگئے ۔بہت سی تنگیوں کے باوجود اتنے سالوں بعد مجھے میرے گاوٴں کی مٹی کی خوشبو اچھی لگی ، وہ میرے خمیر کا حصہ تھی اس لیے وہ میرے اندر مہک رہی تھی اور شائد اسی لیے یہ بیدار ہو گئی ۔
ہمارے برطانیہ آنے کے بعد کوئی آٹھ ماہ بعد ہماری بہو بھی برطانیہ آ گئی ۔

مجھے لگا کہ شائد میرا ٹوٹا ہوا رشتہ بحال ہونے جا رہا ہے ۔میں نے سوچا کہ شائد تقدیر میں پھر سے نسبت بدلنی لکھی ہے ۔ہم سب بہت خوش تھے ، ہم نے اپنی بہو کو اپنی بیٹیوں کی طرح گھر میں عزت اور پیار دیا مگر میری بہو کے یہاں آنے کے کچھ دن بعد میرے بیٹے نے مجھے بتایا کہ اس کی دلہن موبائل فون خریدنے کا تقاضہ کر رہی ہے ۔میں نے اپنے بیٹے کو بتایا کہ وقت بدل چکے ہیں اب پاکستان بھی ماڈرن ہو چکا ہے اور ہوسکتا ہے کہ اس کو اپنی سہیلیوں سے بات کرنے کے لیے فون کی ضرورت ہو ۔

میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ وہ اپنی دلہن کو موبائل فو ن دلوا دے ۔ اس کے بعد اکثر ایسے ہوتا کہ ہماری بہو کا فون بجتا تو وہ یہ کہہ کر اپنے کمرے میں چلی جاتی کہ اس کی سہیلی کا فون ہے یا اس کی بہن کا فون ہے ۔ہم نے کبھی اعتراض نہیں کیا ، اعتراض والی کوئی بات بھی نہیں تھی ۔میرے چوتھے بیٹے شہر سے دور کام کرتے تھے ، میرا بڑا بیٹا ہفتے کے چھے دن شہر سے باہر جاتا مگر شام کو گھر لوٹ آتا ۔


الله نے میرے بیٹے کو ایک ننھے فرشتے کا تحفہ دیا ۔مجھے الله نے اور مالا مال کیا اور میں دادا بن گیا ۔ہم نے گھر میں ایک جشن رکھا ۔ہمیں سکون تھا کہ ہماری بہو اب ہمارے گھر کا نظام کی چلا سکتی ہے ، ایک روز اس نے مجھے کہا کہ ابو میں کام کرنا چاہتی ہوں ، میں گھر میں بور ہو جاتی ہوں ۔مجھے یہ مانگ بھی جائز لگی ۔میری خود کی اگر بیٹی ہوتی تو مجھے یہی کہتی لہذا جب میرا پوتا آٹھ ماہ کا ہوا تو میری بہو نے انگریزی کا امتحان پاس کیا اور گھر کے پاس ایک کپڑوں کے سٹور میں کام شروع کر دیا ۔

ہمیں نہ اس کے انگریزی کپڑوں پہ اعتراض تھا اور نہ ہی اس کے کام کرنے پہ بلکہ خوشی تھی کہ یہاں کے نظام کو سمجھ کر اس کے سماجی تانوں بانوں کا حصہ بن رہی ہے ۔
ایک روز میرے بیٹے نے شکایت کی کہ دن کو جب بھی وہ اپنی بیوی کو فون کرتا ہے تو اس کا فون مصروف ہوتا ہے ۔میں نے اپنے بیٹے کو سمجھایا کہ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ جب ایک شخص فارغ ہو تو دوسرا بھی فارغ ہو ۔

مجھے تھوڑی تشویش ہوئی ۔میں نے اپنی بیگم سے کہا کہ وہ بہو سے بات کرے ۔میری بیگم نے تجویز دی کہ ہمیں اس بات کو زیادہ اچھالنا نہیں چاہیے ہو سکتا ہے کہ بہو اس بات کو برا جانے اور اس کے دل میں ہمارے لیے منفی رجحان پیدا ہو ۔میں نے اپنی بیگم کی بات پر عمل کیا اور خاموش رہا ۔میرا پوتا ایک سال کا ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ اب میری بہو کو اپنے بچے کے ساتھ اپنے والدین کو ملنے جانا چاہیے ۔

میں نے اپنے بیٹے سے چھٹیاں لینے کو کہا ، انہوں نے ٹکٹ بک کروائے اور اس سے پہلے میری بہو کی برطانیہ میں رہنے کی غیر معینہ مدت قیام کی درخواست قبول ہو گئی اور انہوں نے پاکستان جانے کی تیاری کرنا شروع کر دی ۔
ان کے پاکستان جانے سے ایک ہفتہ پہلے ایک ایسا حادثہ پیش آیا کہ سب کی زندگیاں بدل گئیں ۔وہ فون کالیں جنھیں ہم سہیلیوں اور رشتہ داروں کی سمجھتے تھے ایک مرد کی نکلیں کہ جس کا میری بہو سے شادی سے پہلے رابطہ تھا اور اس کے موبائل فون سے کچھ ایسی تصویریں اور پیغامات ملے جنھیں پڑھنے کے بعد میرا سر شرم سے جھک گیا ۔

میں شور شرابا نہیں چاہتا تھا ۔میں نے اپنے بیٹے اور بیوی سے گزارش کی کہ کسی بحث کے بجائے بہو سے پوچھیں کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہے ۔ہماری بہو کو جب علم ہوا کہ اس کا موبائل فون پکڑا گیا ہے تو اس نے گھر آنے کے بجے سیدھے پولیس اسٹیشن میں حاضری دی اور پولیس کی مدد لی کہ مجھے میرے خاوند سے خطرہ ہے ۔پولیس بچے اور بہو کے سامان کو حاصل کرنے گھر آئی جو ہم نے با خوشی دے دیا ۔

کچھ ہفتوں بعد ہماری بہو نے طلاق کے لیے درخواست دی ، معاملہ عدالت میں گیا اور عدالت نے بچے کے بہترین مفاد میں اسے ہم سے ملنے کی اجازت دی ۔
میں ایک دم غریب ہو گیا ۔جو دولت مجھے الله نے عطا کی تھی اسے میری بہو لوٹ کر لے گئی ۔ہم عدالتوں کے چکر کاٹنے لگ گئے۔میرا بیٹا اور میرے دیگر خاندان والے اس ساری صورتحال میں کبھی دلبرداشتہ ہوتے تو میری مری ہوئی ماں کو کوستے کہ یہ ان کی خواہش تھی ۔

میں بھی اس الاوٴ میں جھلس رہا تھا ۔میں ترستا کہ مجھے میرے پوتے سے ملنے دیا جائے مگر مہینے میں مجھے صرف ایک بار اپنے پوتے سے ملنے کی اجازت تھی ۔میں اصل میں بہت غریب ہو چکا تھا ۔ایک روز مجھے ایک شاپنگ مال میں میرا پوتا نظر آیا ۔اس کی ماں ایک دوکان میں شاپنگ کر رہی تھی ۔میں نے اپنے پوتے کو اس کی پرام سے اٹھایا ، گلے لگایا اور پیار کیا ۔

میری بہو کہیں سے آئی اس نے بچہ مجھ سے چھینا اور مجھے دھکا دیا ۔میں زمین پر گرا اور میرا ماتھا کسی آہنی چیز سے ٹکرایا اور میں زخمی ہو گیا ۔میرے سیدھے ہاتھ کی دو انگلیاں بھی ٹوٹ گئیں ۔میں بے ہوش ہو گیا ۔جب میری آنکھ کھلی تو میں ہسپتال میں تھا اور پولیس میرے سامنے کھڑی تھی ۔انہوں نے مجھ سے میری بہو کے خلاف بیان لکھوایا اور آج تین ماہ بعد میں اپنی بہو کے خلاف عدالت میں گواہی دینے آیا ہوں ……۔

۔محمد نور ولی اپنی کہانی سنا رہے تھے اور دروازے پر عدالت کے عشر نے آ کر آواز لگائی " مسٹر ولی کیا آپ اپنی گواہی دینے کے لیے تیار ہیں " نورولی نے اپنے دونوں ہا تھو ں سے اپنے آنسو پونچھے اپنے پورے جسم کا زور اپنی چھڑی پہ ڈالا اور عشر کے پیچھے کمرے سے باہر چلے گئے شائد یہ ان کی زندگی کا دوسر ا شرمناک لمحہ تھا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :