”‌‌ قائداعظم کیا چاہتے تھے۔۔۔۔۔۔۔؟“

اتوار 10 اگست 2014

Haroon Adeem

ہارون عدیم

پاکستان کو معرض وجود میں آئے 67 سال ہو گئے،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان سالوں میں ملک اوج ثریا کو چھو لیتا، مگر آج جو ملک کی حالت ہے، وہ شاید پتھر یا جنگل کے دور کی بھی نہیں تھی۔آج حکمرانوں کو صرف اپنی حفاظت اور بزنس کی فکر ہے، قومی سکیورٹی کانفرنس میں ملک کا وزیر اعظم، ائیر چیف،نیوی چیف اور چئیرمین جائنٹ چیف آف سٹاف کو مدعو نہیں کرتا۔

بات کرتا ہے تو لانگ مارچ اور انقلاب مارچ کے خاتمے کی۔سانحہ ماڈل ٹاوٴن لاہور میں جس طرح عورتوں کو قریب سے گولیاں مار ی گئیں، سو سے زائد لوگوں کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا،اور الٹا ان کے کلاف ایف آئی آر کاٹ دی گئی، ان زخمیوں اور مرنے والوں کے قاتلوں کو ابھی تک کچھ نہیں کہا گیا بلکہ اس سانحہ کی ذمہ داری ابھی تک کسی پہ نہیں ڈالی گئی،مہنگائی بیروز گاری،لوڈ شیڈنگ، نان سٹیٹ ایکٹرز اور خود ریاستی دہشت گردی،امن عامہ نے جس طرحپورے ملک کو جکڑ رکھا ہے،گزشتہ تین روز سے جس طرح ماڈل ٹاوٴن اور اس سے ملحقہ علاقوں کے مکینوں کو ان کے گھروں تک محصور کر کے رکھ دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

مذہبی جنونیت اور دہشت گردی نے عقیدوں کی بنیاد پر بے گناہ پاکستانیوں کو مارا جا رہا ہے، پہلے بہاولپور،گوجرہ،پشاور اور شانتی نگر میں پاکستانی مسیحیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا،اب گوجرانوالہ میں احمدی اس کا شکار ہوئے،چار روز قبل پشاور میں سکھ تاجر وں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔یہ ہے آج کا پاکستان جسے ہم کھینچ کھانچ کے یہاں تک لے آئے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قائد اعظم نے ایسے پاکستان کا خواب دیکھا تھا یا ایسا پاکستان بنانا چاہا تھا۔ جواب ہے نہیں۔
قائد اعظم نے ایک خوش حال پاکستان کا خواب دیکھا تھا، ایک ایسی ریاست کا خواب جس میں مذہب یا عقیدے کا امور سلطنت سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، جس میں بسنے والے رنگ، نسل، ذات اور عقیدے کی تفریق کے بغیر برابر کے شہری تھے، تاریخ بتاتی ہے کہ برطانوی حکومت نے ہندوستان اور پاکستان دونوں کے گورنر جنرلوں کے لئے حلف نامے کی یکساں عبارت تجویز کی تھی اور اس کا متن یہ تھا:
اطاعت کا حلف
میں…………حلف اٹھاتا ہو کہ میں…………کے عہدے پر احسن طریقے سے اورسچے دل سے شہنشاہ معظم جارج کی خدمت کرو گا۔

پس اے خدا میری مدد فرما۔
پٹیل اور نہرو نے ماوٴنٹ بیٹن کے لئے یہ عبارت من وعن قبول کر لی لیکن جناح نے اس سے اتفاق نہ کیا اور اپنے لئے علیحدہ عبارت تجویز کی جس کی برطانوی حکومت نے توثیق کر دی اور 15اگست کو انہوں نے اسی عبارت پر حلف اٹھایا اس میں متذکرہ دونوں حلف ایک ہی عبارت میں اکٹھے کر دیئے گئے تھے۔ متن یہ ہے:
”میں محمد علی جناح با ضابطہ اقرار کرتا ہوں کہ میں پاکستان کے آئین کی جو کہ نافذ ہے۔

سچا وفادار اور اطاعت گزار رہوں گا اوریہ کہ شہنشاہ معظم جارج ششم اس کے وارثوں اورجانشینوں کا بطور گورنر جنرل پاکستان وفا دار رہوں گا۔“
اس میں جناح نے پاکستان کے آئین سے وفاداری کو شامل کیا اور اسے اوّلیت دی۔ اس کے علاوہ برطانوی حکومت کے مجوزہ متن سے ایک اہم جملہ جسے جناح نے حذف کر دیا تھا۔ ”پس اے خدا میری مدد فرما“۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جناح کا روبارِ حکومت میں مذہب کا عمل دخل نہیں چاہتے تھے۔

وہ اس لئے کہ وہ آئین کی بالادستی کواوّلیت دیتے تھے۔ 15اگست کوجناح نے پاکستان کی پہلی کابینہ کے وزراء کاحلف بھی اسی عبارت پر لیا۔ اس سے فقط با ضابطہ اقرار کرتا ہوں کہ جگہ حلف اٹھاتا ہوں کر دیا گیا تھا ۔ 10اگست کو پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس ہو اس میں مشرقی بنگال کے رکن اچھوت رہنما جو گندرناتھ منڈل کو اسمبلی کا عارضی چیئر مین منتخب کیا گیا۔

یہ شخص متحدہ ہندوستان کی عبوری مخلوط وزارت میں مسلم لیگ کے پانچ وزیروں میں سے ایک تھا اس کے پاس محکمہ قانون کاقلمدان تھا اور جب جناح نے پاکستان کی پہلی کابینہ وضع کی تو اس میں بھی بطور وزیر قانون شامل کیا گیا۔ ”اسلامی نظریاتی مملکت پاکستان“ کی آئین ساز اسمبلی کا پہلا عارضی چیئر مین اور پہلا وزیرقانون ایک ہندو اچھوت بنایا گیاتھا۔

یہ دوہرا اعزاز سیکولر ہندوستان میں آج تک کسی اچھوت کو نہیں دیا گیا۔ امبید کر اور جگ جیون رام وزیر تو بنے مگر آئین ساز اسمبلی کی صدارت کے اعلیٰ اور باوقار منصب پر فائز نہ ہو سکے کہ یہ کرسی باقی تمام ارکان اسمبلی کی کرسیوں سے بلامتیاز ذات پات بلند مقام پر رکھی جاتی ہے۔
10 اگست کے اجلاس میں ارکان نے اسمبلی کے رول پر دستخط کر کے رکینت کی توثیق کی۔

اس کے علاوہ جو گندرناتھ منڈل نے ایک رسمی تقریر کی او ر طریق کار سے متعلق کچھ قرار دادیں منظور کی گئیں۔ 11 اگست کے اجلاس میں ارکان نے قائداعظم محمد علی جناح کو آئین ساز اسمبلی کے پہلے صدر کی حیثیت سے اپنی پہلی تقریر کرتے ہوئے پاکستان کی آئین سازی کا سنگِ بنیاد ان الفاظ کے ساتھ رکھتے دیکھا، قائد نے کہا:
”خواہ آپ کا تعلق کسی مذہب، ذات یا عقیدے سے ہو اس کا امور مملکت سے کوئی تعلق نہیں ہو گا… ہم اپنی مملکت کا آغاز کسی امتیاز سے نہیں کر رہیں ہیں۔

کسی فرقے، ذات یا عقیدے کے درمیان کوئی فرق روا نہیں رکھا جائے گا۔ ہم اپنے کام کا آغاز اس بنیادی اصول سے کر رہے ہیں کہ سب شہری ہیں اور ایک ملک کے شہری ہیں۔ ہم اسے نصب العین کے طور پر ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں گے اور آپ دیکھیں گے کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد ہندو، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے۔ مذہبی اعتبار سے نہیں کیونکہ مذہب افراد کا ذاتی عقیدہ ہے۔

بلکہ سیاسی اعتبار سے کہ وہ ایک قوم کے شہری ہیں“۔
یہ جناح کی پہلی پالیسی ساز تقریر تھی یہ پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے اس میں واضع طور پر امور مملکت، حکومت و سیاست کو مذہب سے بالکل جدا کر دیا گیاتھا۔ مذہب کو ہر فرد کا ذاتی عقیدہ قرار دیاگیا اور امور مملکت کو اس سے بالا تر قرار دیا گیا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کے 10اگست کے افتتاحی اجلاس،11اگست کے پہلے باقاعدہ اجلاس میں جس میں جناح نے متذکرہ تقریر کی اور 14اگست کے اجلاس میں ماوٴنٹ بیٹن نے تقریر کی ان میں سے کسی اجلاس کی کاروائی کا آغاز تلاوت کلام پاک سے نہیں کیا گیا۔

جب کہ شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی بھی اسمبلی کے ان اجلاسوں میں ایک مقتدرر کن کی حیثیت سے بہ نفس نفیس موجود تھے ان کے علاوہ مولوی تمیز الدین خان بھی موجودتھے۔ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی جو مرکزی مجلس قانون ساز بھی تھی اس کے اجلاسوں کی سرکاری طور پر شائع شدہ کاروائیوں کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کے عہد حکومت (15 اگست 1947ء تا ستمبر 1948ء) کے دوران اس اسمبلی کے جتنے بھی اجلاس منعقد ہوئے۔

خواہ بطور آئین ساز یا خواہ بطور قانون ساز ان کے آغاز میں کبھی تلاوت کلام پاک نہیں ہوئی۔ جب کہ جناح خود اسمبلی کے صدر (سپیکر ) تھے فقط 23فروری 1948ء کا اجلاس مستثنیٰ ہے جس میں مولانا سبیر احمد عثمانی نے تلاوت فرمائی لیکن اس اسمبلی کے پہلا اجلاس 10تا14اگست 1947ء دوسرا اجلاس 23فروری تا 26مئی 1948ء اور تیسرا اجلاس 15تا 30دسمبر 1948ء کے دوران کم و بیش اجلاسوں کاآغاز بغیر تلاوت ہوا۔


تاریخ پاکستان کے یہ اوراق صاف ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان” اسلامی نظام کی تجربہ گاہ“کی حیثیت سے معرض وجود میں نہیں آیا، بلکہ بابائے قوم قائداعظم نے جس اصول کے تحت اس مملکت خداداد پاکستان کا آغاز کیا اس سے صاف ظاہر ہے کہ روز مزہ کا روبار حکومت میں مذہب کا عمل دخل نہیں تھا۔ وہ جس قسم کا پاکستانی نیشنل ازم ابھرتا دیکھنا چاہتے تھے اس کی بنیاد سیکولر تھی۔


لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ خان عبدالولی خان، جمعیت علماء ہند اور مجلس احرار اور جمعیت علماء اسلام تو قیام پاکستان کے نظریہ کے مخالف تھے ہی خود قائداعظم کے رفقاء نے بھی قائداعظم کے تصورات پاکستان سے وفا نہیں کی اور نوابزادہ لیاقت علی خان نے جو کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے 11اگست 1947ء والی قائداعظم کی تقریر کو سینسر کر دیا اور متذکرہ تقریر کا یہ حصہ اخبارات تک نہ پہنچنے دیا جبکہ قائداعظم کی تقریر کا یہ حصہ منظر عام پر آجانے کے بعد اسے مسخ کرنے اور اس کے معنی بدلنے کی مذموم کوششیں جاری رکھی گئیں۔

پروفیسر خورشید احمد اپنی کتاب جمہوریت، پارلیمنٹ اور اسلام کے صفحہ 162میں ”قائداعظم کی تقریر کا پس منظر“ میں لکھتے ہیں کہ :
”انہوں نے یہ تقریر 11اگست 1947ء کو کی تھی جب کہ ابھی وہ گورنر جنرل نہیں بنے تھے اور انہیں منتخب اسمبلی کا صدر منتخب کیا گیا تھا یہ تقاریر انہیں مبارکباد دینے کے لئے کی گئیں۔ ان تقاریر میں ہندو ممبر وں نے کچھ خاص اعتراضات اور مسائل اٹھائے اور اس کا پس منظر ہندو مسلم فسادات تھے۔

اس موقع پر قائداعظم نے فی البدیہہ تقریر کی اور ان اعتراضات کے سلسلے میں بعض باتوں کا جواب دیا۔ اس پس منظر میں 11اگست کو جو تقریر کی گئی وہ سربراہ مملکت کے حیثیت سے نہیں بلکہ اسمبلی کے صدر کی تقریر تھی او روہ پاکستان کے وجود میں آنے یعنی 14اگست سے تین دن پہلے کی گئی تھی۔ قائداعظم کی ہر تقریر ہمارے لئے اہم ہے لیکن انہیں مخصوص مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے“۔


حیران کن امر یہ ہے کہ پروفیسرخورشید احمد جیسا زیرک اور مدبر،دانشور اور عالم بھی لفظوں کی باز یگری کرتا ہے اور وہ قائداعظم کی11اگست کی تقریر کو اس لئے اہمیت نہیں دینا چاہتا کہ وہ قیام پاکستان سے تین دن قبل کی گئی جب قائدعظم سربراہ نہیں تھے۔ شاید انہوں نے تاریخ کا مطالعہ کسی اور انداز سے کیا ہے۔ قائد اعظم نے 13جولائی 1947ء کو دہلی میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی تھی اور اس میں انہوں نے کہا تھا:
”پاکستان ایک جمہوری ریاست ہو گی اور اس میں غیر مسلم اقلیتوں کو ہر لحاظ سے مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔

انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان ڈومینین میں اقلیتوں کے مذہب ،ققیدے جان و مال اور ثقافت کا تحفظ ہو گا۔وہ ہر لحاظ سے پاکستان کے شہری ہوں گے اور ان سے کسی طرح کا بھی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ البتہ انہیں بلاشبہ پاکستانی شہریت کی ذمہ داریاں بھی ادا کرنا ہوں گی۔ اقلیتوں کو ریاست کاحقیقی وفادار ہونا پڑے گا۔“
اس پریس کانفرنس میں جناح سے پوچھا گیا تھا کہ پاکستانی ریاست ”سیکولر“ ہو گی یا ”تھیوکریٹک “تو ان کاجواب تھا کہ ”یہ سوال احمقانہ ہے مجھے نہیں معلوم کہ تھیوکرٹیک کا مطلب کیا ہے ؟ “
اس پر جب نامہ نگار نے کہا کہ تھیوکریٹک ریاست کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں مسلمان پورے شہری ہوں گے تو جناح نے کہا تھا کہ:
”تو پھر یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں نے اب تک جو کہا ہے وہ رائیگاں گیا ہے۔

خدا کے لئے اس قسم کے بے ہودہ خیالات کو اپنے ذہن سے نکال دیں۔“
اسی طرح مسلم لیگ نے تحریک پاکستان کے دوران 1946ء میں اپنے منشور میں جسے افتخار حسین ایم ایل کے صدر اور ممتاز دولتانہ ایم ایل اے ، جنرل سیکرٹری نے شائع کیا میں قائداعظم کی 25اکتوبر 1942ء کی ایک تقریر کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں قائداعظم نے فرمایا:
”حکومت (پاکستان) کو اپنی پوری آبادی کی تائید و حمایت حاصل ہو گی اور حکومت اپنے تمام عوام ،بلا امتیاز رنگ و نسل اور عقیدہ کے مرضی و تائید کے ساتھ کام کرے گی۔


چنانچہ جناح کے پاکستانی نیشنلزم میں مسلم کو غیر مسلم پر برتری حاصل نہیں تھی۔ ان کے نزدیک پاکستان کی جغرافیائی حدود میں آباد ہر شخص کو بلالحاظ مذہب وعقیدہ ایک شہری کے حقوق اورترقی و خوشحالی کے یکساں مواقع مہیا تھے۔
مگر گزشتہ 67سالہ ریاستی بندوبست اور سیاسی عمل اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ہم نے قائداعظم محمد علی جناح کے نظریہ پاکستان کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے، قائد صرف ایک ریاست کے قیام کے لئے ہی کوشاں نہیں تھے بلکہ وہ پاکستانی معاشرے، سماج اور ثقافت کے بارے میں بھی ایک مکمل خاکہ رکھتے تھے۔

قائداعظم کی 13جولائی 1947ء کی پریس کانفرنس اور 11اگست 1947ء کی تقاریر واضح اشارہ دیتی ہیں کہ پاکستانی معاشرت اور ثقافت کے بارے میں ان کا تصور مغل حکمرانوں سے بالعموم اور صوفیاء کرام سے بالخصوص متاثر تھا۔ وہ ایک ایسی ملت کی تشکیل کرنا چاہتے تھے جس میں اقبال کا یہ شعر جھلکتا نظر آئے کہ:
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
اگر تاریخ کے کسی موڑ پر قائد اعظم کے نظریہ ء پاکستان پر سختی سے کاربند ہونے کی ضرورت تھی تو وہ آج ہے۔کیونکہ جب تک ہم اس پر عمل نہیں کریں گے ،حالات مزید بگڑتے جائیں گے۔ موجودہ حالات عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہیں، اس پر عمل کرنے کا نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :