آزادی مارچ…یا… اقتدار کا لالچ؟

منگل 19 اگست 2014

Zubair Ahmad Zaheer

زبیر احمد ظہیر

یہ طے ہے کہ عمران خان نے اپنی سیاسی ضد پوری کر لی ،اور ساتھ ہی ساتھ بھاری مینڈیٹ والی نواز حکومت کو ہلاکر رکھ دیا ۔آزادی مارچ اسلام آباد پہنچا۔اور عمران خان نے جو سیاسی فوائد سمیٹنے تھے وہ انہیں حاصل ہوگئے ۔جاوید ہاشمی نے آمریت کا راستہ روک کردراصل عمران خان کا سیاسی مستقبل محفوظ کردیا ہے ۔عمران خان ابھی سیاست میں نو وارد ہیں۔

ماضی میں جن بزرگان سیاست نے فوجی آمریتکو پنجے گاڑنے کا موقع دیا۔بعد میں اس غلطی پران کی ساری عمر صفائیاں پیش کرتے گزری ۔اگر جاوید ہاشمی ذراسی ہوش مندی سے کام نہ لیتے اور مزید ایک اور بغاوت نہ کرتے تو عمران خان کی سیاست کی کٹیا ہی ڈوب گئی تھی ۔پوری قوم ،میڈیا ،عدلیہ اور رائے عامہ بڑی پارلیمانی سیاسی جماعتیں منتخب جمہوری حکومت کا یوں بوریا بسترگول ہونا گوارا نہیں کرسکتی تھیں۔

(جاری ہے)

پاکستان یہ پارلیمانی روایت رہی ہے کہ اپوزیشن حکومت کی غلطیوں کو گنتی رہتی ہے،انگلیوں کے پوروں پر شمار کرتی ہے اور صحیح کاموں کا بھی اتناجھوٹا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ رائے عامہ یہ سمجھ بیٹھتی ہے کہ واقعی حکومت غلط ہے ۔حکومت ویسے ہی پانچ سالوں کے اختتام تک بدنام ہوجاتی ہے ۔اور اپوزیشن اس کے خلاف الزامات کی ایک طویل فہرست قوم کے کچے کانوں میں ڈال کرحکومت کی رہی سہی ساکھ عوام کے کانوں سے کھرچ لیتی ہے ۔

نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ اگلے الیکشن میں حکومت اپوزیشن کی بن جاتی ہے ۔عمران خان نے پانچ سال کا صبر نہ کرکے پاکستان کی روایتی سیاست کا دھارا ہی بدل دیا ہے ۔انہوں نے صبر نہیں کیا بلکہ جلتی پر مزید تیل انڈیل دیا اور دھاندلی کو بنیاد بناکر لانگ مارچ کا طوفان کھڑا کردیا ۔عمران خان پہلے تو سونامی کا طوفان لانے کے وعدے کرتے رہے اور انہوں نے سچ مچ میں سونامی بپاکردیا ۔

بھلا اچھے بھلے حالات میں یہ کیسے ممکن تھا۔حکومت نے لانگ مارچ کو ٹالنے موخر کرنے اور ناکام بنانے کی لاکھ کوشش کرلی مگر عمران خان سیاسی ضد پر اتر آئے اور انہوں نے مشکل کو اپنے لیے ا ٓسان بنادیا ۔عمران خان کو بخوبی معلوم تھا کہ تبدیلی اتنی جلدی نہیں آسکتی ،حکومتیں گرانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں جب مرضی آئی دھمک آئے ۔پاکستان میں حکومتیں فوج کی مرضی ومنشا کے بغیر نہیں گرائی جاسکتیں ،فوج پاکستان کا مضبوط ترین ادارہ ہے جس کے پاس ہر مسئلہ کا حل موجود ہے اورہر چیز کا متبادل موجود ہے۔

عمران خان سے تو ڈھنگ سے ایک صوبے کی حکومت نہیں چل پارہی،وفاقی حکومت گراکر اپنی چلا لینا آسان نہیں ۔حکومت خواہ غلط ہو یاصحیح جب یہ منتخب ہوجائے تو پانچ سال پورنے کرنا اس کا آئینی حق ہے۔پی پی اورن لیگ کی ماضی میں جتنی بار حکومتوں کو وسطی مدت میں ختم کیا گیا تواس خطرناک نتائج برآمد ہوئے ۔یہ تسلیم شدہ اور سامنے کا سچ ہے کہ آمریت نے پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو مضبوط نہ ہونے دیا جس کی وجہ سے پاکستان کا سیاسی نظام دوجماعتوں کی اجارہ داری تک محدود ہوگیا ۔

عمران خان نے اس اجارہ داری کے خاتمے کے لیے لانگ مارچ کا مشکل راستہ چن لیا ۔عمران خان نے لانگ مارچ کے قصے میں نواز شریف اور پنجاب کے وزیرا علی شہاز شریف جیسے مضبوط حکمران خانوادے کو للکار کر دراصل اپنے کارکنوں کی ڈھارس بندھوائی ہے کہ مایوسی مسائل کا حل نہیں ۔بلکہ تحریک انصاف یہ اجارہ داری ختم کرکے رہے گی ۔عمران خان نے اپنی حالیہ سیاست میں خاص طور پر شریف برادران کو اپنی بندوق کی نوک پر رکھ لیا ۔

عمران خان نواز شریف کا نام لے کر اپنے دل کی خوب بڑھاس نکالتے ہیں ۔جس سے کارکنوں کا حوصلہ بلند ہوتا رہا ۔تحریک انصاف کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کل تک چھوٹی جماعت تھی اور آج وہ خود کو کیسے منوائے کہ وہ بڑی پارلیمانی جماعت ہے ۔جس الیکشن کو عمران خان مکمل دھاندلی کہتے ہیں اس کے مجموعی نتائج کے مطابق تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی جماعت ہے ۔

چونکہ عمران خان نے اپنی زبان سے ان نتائج کو مسترد کردیا ہے لہذٰاہم کہہ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف تیسری بڑی پارلیمانی جماعت نہیں رہی ۔جب تحریک انصاف نے تسلیم نہیں کیا ہم اسے یہ کریڈٹ کیوں دیں ۔عمران خان نے لانگ مارچ سے پارٹی کی شیرازہ بندی کا سامان کیا ۔جب کوئی جماعت اقتدار کی غلام گردشوں میں گم ہونے لگے تو اسکے کارکنوں اور پارٹی عہدیداروں میں اختلافت جنم لیتے ہیں ۔

خیبربختوں خواہ میں حکومت سازی کے ادنی سے تجربے سے گزر کر کئی بار ایسا وقت بھی آیاکہ تحریک انصاف اختلافات کے صدموں میں شیرازہبکھیرنے کے قریب ہوتی گئی ۔اس خطرناک صورتحال سے بچناضروری تھا عمران خان نے اپنی سیاسی حکمت عملی سے کارکنوں کی آپس میں لڑائیوں کی بجائے توجہ دوسری جماعتوں پر مرکوز کروادی۔اختلافات سیاسی پارٹیوں میں اسوقت جنم لیتے ہیں جب سیاسی جماعتوں کے پاس سیاسی ایشونہ رہیں ۔

عموما جب سیاسی جماعتیں اقتدار کی لذت چکھ لیتی ہیں تو ان کے سیاسی ایشو ختم ہوجاتے ہیں اور پھر اس کے کارکن آپس میں لڑپڑتے ہیں ۔لانگ مارچ سے عمران خان نے تحریک انصاف کے کارکنوں کے وہ ہاتھ جو آپس میں ایک دوسرے کی گردنوں تک پہنچے چکے تھے ان کا رخ موڑ کر ن لیگ کے کارکنوں کی جانب کردیا ۔یہ وہ سیاسی چال ہے جو سیاسی پارٹیوں کو باہمی اختلافات سے بچاتی ہے ۔

طاہرالقادری کی عوامی تحریک چونکہ سیاسی اور پارلیمانی جماعت نہیں ۔اس لیے ان کے انقلاب مارچ کے سارے سیاسی فوائد عمران خان کو مفت میں ملیں گے ۔ طاہرالقادری سمیت ہر مذہبی جماعت کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ یہ اپنا پینتراخود بدلنے کے بجائے ہمیشہ دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے استعمال ہوجاتے ہیں ۔طاہرالقادری نے حقیقت میں عمران خان کے ہاتھ مضبوط کردیے ہیں ۔

طاہرالقادری زرداری دورکی طرح اب بھی سیاسی قد کاٹھ بڑھانے سے یکسر محروم ہیں ۔عمران خان نے نواز شریف سے استعفی طلب کر کے طاہرالقادری کی تاریخ دھرادی ہے ۔طاہرالقادری اور عمران خان میں فرق یہ ہے کہ طاہرالقادری اچانک اٹھ آئے تھے جبکہ عمران خان دھاندلی کا واویلا کرکے پہلے رائے عامہ ہموار کرتے رہے اور آج اس ہی دھاندلی کی بنیاد پر وہ نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔

اس لیے عمران خان کی بات دلیل سے خالی نہیں ۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ یہ مطالبہ غیر آئینی ہے ۔اور غیر جمہوری قراردیا جاسکتا ہے ۔جیسا کے سپریم کورٹ اور لاہورہائی کورٹ نے غیر آئینی اقدامات سے عمران خان کوروکاہے ۔فوج بھی حکومت پرہاتھ ڈالنے کے موڈ میں نہیں ۔عمران خان نواز شریف کی ساکھ ڈبونے کی بجائے شریف بردران کو مظلوم بنانے پر تلے ہیں ۔ یہ فائدے کے بجائے نقصان دہ ہے ۔عمران خان نے لانگ مارچ سے جو فوائد سمیٹ لیے ہیں وہ کم نہیں،مزید لالچ بری بات ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :