انقلاب کیوں نہیں آتے

منگل 19 اگست 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

پچھلے کئی دنوں سے انقلاب کی باتیں زبان زدعام ہیں‘ جسے اپنی خبر نہیں وہ بھی انقلاب کی باتیں کررہا ہے ۔ایک سوچ باربارذہن میں درآتی ہے کہ آخر اتنا کچھ ہونے کے باوجود انقلاب اس دھرتی کامقدر کیوں نہ بنے؟بہت سوچا بہت ذہن لڑایا لیکن سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہ آسکاشاید ابھی ذہن اس انقلاب کی چاپ کو محسوس نہیں کررہا۔
فی زمانہ انسان خصوصاً غریب آدمی جن مسائل میں گھر اہوا ہے اور جس انداز میں اس کے اردگرد مکڑی کا ساجالابن دیا گیا ہے وہ بذات خود ایک افسوسناک امر ہے۔

ہم نے دیکھا ہے کہ یہ جالا کوئی اور نہیں سرمایہ دارانہ ،ظالمانہ نظام کے پروردہ لوگ ہی بنتے ہیں ۔مجبور اور محکوم لوگ خود سے کچھ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے البتہ دل ہی دل میں برا ضرور جانتے ہیں ۔

(جاری ہے)

ہاں بعض مقامات سے یہ آوازے بھی اٹھتے سنائی دیتے ہیں کہ فلاں فلاں مقام سے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی گئی یہ الگ بات کہ آواز اٹھانے والی زبان کو بعض اوقات خاموش کر دیا جاتا ہے اوربعض جگہوں پر وہ سر ہی نہیں رہنے دیاجاتاجو زبان سے جسم و روح کا تعلق برقرار رکھے ہوتا ہے۔

ہم بچپن سے ہی یہی سنتے آئے ہیں کہ جس سر کو سرِ دار چڑھنے کا خوف نہ ہو وہ یا تو انقلاب کا باعث بنتا ہے یا وہ حاکمیت کرتا ہے۔ لیکن فی زمانہ حاکمیت کیلئے جن اوصاف کی ضرورت ہے وہ ناپید ہوتے جارہے ہیں جب زمانہ وہ نہیں رہا تو ظاہر ہے انداز حکمرانی بھی بدل گئے ۔ موجودہ دور میں بزدل لوگ حاکمیت کرتے ہیں اورقوم کا بہادر سرمایہ گلیوں محلوں میں خاک چھانتا نظرآتاہے۔

ہم اکثرکہتے رہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں” سب کچھ“ الٹاکردیاگیا ہے۔ جنہیں اپنے عقائد ، زبان کلچراور اخلاق و کردار کے اعتبار سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہئے تھا وہ حکمران بن بیٹھے اورجو واقعی اس لائق تھے کہ انہیں حاکمیت سونپی جاتی وہ دُر نایاب گلیوں کی خاک بن گئے یہ وہ بنیادی نقطہ ہے جو معاشرتی ناانصافی کو جنم دیتا ہے آگے چلئے،رزق کی تقسیم اس خالق کُل کے ہاتھوں میں ہے لیکن زمین پر رزق روزی کی تقسیم کا ذمہ جب سے انسان نے اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اس کے بعد سے حالات مزید دگرگوں ہوتے چلے گئے۔

اب دیکھئے کہ جس کے پاس دو وقت کی روٹی تھی لیکن وہ شاطر تھا اسے دو وقت کی روٹی سے بچاکر رکھنے کا ڈھنگ بھی معلوم تھا وہ آج کئی لوگوں کی روزی روٹی کا باعث بناہوا ہے۔ یہیں سے ایک اور نقطہ بھی سامنے آتا ہے کہ جب انسان کے ذہن میں یہ ”خناس “ سماجائے کہ وہ دو چار دس بیس پچاس سو دو سو افراد کی روزی روٹی کا ”وسیلہ “ بناہوا ہے تو پھر وہ اپنے آپ میں نہیں رہتا ۔

اس کے ذہن میں فرق کی ایک باریک سی لائن کھنچتی چلی جاتی ہے اوربعد میں یہ لائن ایک خلیج کی شکل اختیارکرلیتی ہے۔ وہ انسان خود کو عام انسانوں سے ماورا خیال کرتا ہے ۔ آگے چلئے جب وسائل کی تقسیم کے وقت اہلیت اور معیار کو مدنظر نہ رکھاجائے اور مستحق لوگ تو وسائل سے محروم کردئیے جائیں اور غیر مستحق افرا د وسائل سے مالامال کردئیے جائیں تو پھر
صاحبو! ان تمام عوامل کابنظر غائر جائزہ لیاجائے تو یہ وہ بنیادی امور ہیں جو کسی بھی معاشرے میں انقلاب کا باعث بنتے ہیں۔

پھر سوچنے کامقام یہ ہے کہ آخر ان تمام تر ناانصافیوں کے باوجود ہمارے معاشرہ اب تک انقلاب سے کیوں محروم ہے؟ یہ وہ اہم ترین سوال ہے کہ جس کاجواب ہم تلاش کرتے رہے ۔ لیکن اس سے قبل یہ بھی اگر دیکھاجائے کہ ان مقامات پر کہ جہاں تاریخ ساز انقلاب آئے اس معاشرے میں کیا یہ تمام تر کمزوریاں موجود تھیں ؟ یقینا وہاں بھی یہ کمزوریاں موجود ہونگی توآخروہ کونسا خاص نقطہ ہوتاہے جو انقلاب کی راہ ہموار کرتاہے ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․کیا وہ نقطہ اور وہ سبب ہمارے معاشرے میں موجود نہیں․․․․․․․․․․․․․․ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہم واقعی بزدل واقع ہوئے ہیں انقلاب کا خواب ہم کیونکر دیکھ سکتے ہیں کہ ہمیں اپنی ہی فکر ہوتی ہے جبکہ انقلاب اس بات کا متقاضی ہوتاہے کہ اپنی نہیں پورے معاشرے اور پوری ریاست کی فکر کی جائے۔

کیونکہ انقلاب کیلئے ” میں “ نہیں”ہم “ جیسے لفظ استعمال ہوتے ہیں۔ انقلاب اس بات کا بھی خواہش مندہوتا ہے کہ کوئی خاص فرد نہیں بلکہ ”افراد “ اس میں اپنا حصہ شامل کریں۔ انقلاب کی راہ پر چلنے والے کسی بھی فرد کے ذہن میں منزل کے حوالے سے شکوک وشبہات ہوں تو وہ انقلاب ادھورا ہی رہ جاتاہے۔ اب دیکھئے ہمارے معاشرے میں ہر شخص کو اپنی ہی فکر پڑی ہے۔

ریڑھی بان مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کا رونا تو روتا ہے، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا شکوہ بھی کرتاہے ، رزق کی تنگی بھی اس کی راہ میں حائل ہے لیکن جب اسے کہاجائے کہ اس نظام سے بغاوت کردو تو وہ یہ کہہ کر جان چھڑالے گاکہ ” میں اپنے بیوی بچوں کی کروں یا دوسروں کی فکر “سوچئے جب بحیثیت مجموعی ہرشخص کی یہی کیفیت ہوتو پھر انقلاب کیونکرآسکتاہے؟ یہاں یہ سوال بھی پیداہوتاہے کہ آخر قوم لفظ ”میں“ کا شکار کیوں بنی اور اس میں اجتماعیت کا مسلسل فقدان کیوں چلاآرہا ہے ؟ تاریخ بتاتی ہے کہ انگریز نے برصغیر پر حکمرانی کیلئے جس انداز میں عوام کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا اس کا اثر اس کے کاسہ لیسوں پر بھی موجود ہے ۔

تاریخ پاکستان بتاتی ہے کہ حضرت قائد  کی وفات کے بعد اس ملک پر تقریباً وہی خاندان اور وہی لوگ ہی حکمرانی کرتے رہے جن کے آباء نے انگریز کے تلوے چاٹ کر زمین جائیدادیں حاصل کیں انگریز کی صحبت میں رہنے کے باوصف ان میں بھی وہ تمام خصوصیات بدرجہ اتم موجود تھیں اور اس کاعملی نمونہ بھی انہوں نے خوب پیش کیا یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے وفاقی وزیروں کو یہ کہناپڑاہے کہ پاکستانی قوم نہیں ایک بھیڑ کی مانند ہیں۔

خود سوچئے کہ جب قوم کے اندر قومیت کاجذبہ ہی موجود نہ ہو تو پھر اس سے انقلاب کی کیسے امید رکھی جاسکتی ہے ۔ہوسکتاہے کہ چیف جسٹس کی جاری تحریک انقلاب کا باعث بن جاتی لیکن انگریز کے نظام کے پرورہ حاکموں نے شاید اس امر کو بھانپتے ہوئے ”درمیانی راستہ “ نکالنے کا سوچناشروع کردیا انہیں فکر اس بات کی نہیں کہ کہیں چیف جسٹس آف پاکستان کامیاب نہ ہوجائیں بلکہ انہیں فکر اس امر کی ہے کہ کہیں قوم بیدار نہ ہوجائے اور اس راستہ پر چل نکلے جو ”انقلاب “ کی طرف جاتاہے۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں تھا بلکہ آج بھی جب کبھی قوم میں جاگنے کے آثار نظرآنے لگتے تو ہیں کہیں نہ کہیں سے راستے روکنے والے بھی میدان میں اترآتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :