باہمت انسان ثناء اللہ مری

جمعرات 21 اگست 2014

Shabbir Rakhshani

شبیر رخشانی

یہ ہے ثناء اللہ مری میرے دوست محمد حنیف کاکڑ نے بندے کا تعارف کرتے ہوئے کہا۔ ہاتھ ملانے کے بعد معلوم ہوا کہ ثناء اللہ آنکھوں کی بینائی سے محروم ہیں۔ مختصر ملاقات میں ثناء اللہ کے بارے میں بہت کچھ جاننے کو ملا۔ کوہلو کے علاقے سے تعلق رکھنے والے جعفر خان مری کے بیٹے ثناء اللہ پیدائشی طور پر نابینا ہیں۔ایک دن ایک بوڑھی عورت نے انکے گھر والوں کو یہ خبر سنا دی کہ بچہ آنکھوں سے معذور ہے۔

یہ خبر سن کر انکے گھر والوں پر بجلی سی گر گئی۔ گھر والوں نے بہت کوشش کی۔ ڈاکٹروں کو دکھایا۔ لیکن وہ ثناء اللہ کے آنکھوں کی روشنی بحال کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تھک ہار کر بیٹھ گئے۔وہ کہتے ہیں کہ ابتدائی طور پر انہیں مدرسے میں داخلہ دلایا گیا۔ گو کہ اسکے آنکھوں کی روشنی ختم ہو گئی تھی لیکن اسکے دل میں روشنی باقی تھا اسی وجہ سے انہیں تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا۔

(جاری ہے)

1984ء کووہ تعلیم حاصل کرنے پاکستان ایسوسی ایشن آف بلائنڈملتان میں ایک ادارہ ہے وہاں گئے۔ اور وہاں سے ایف کی تعلیم حاصل کی۔ 1996ء کو وہ ایک کورس کرنے انڈیا چلے گئے جہاں ایک ادارہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ ویژیول فار دی ہینڈی کیپ سے آفس منیجمنٹ ٹریننگ کا 3مہینے کا کورس کر لیا۔ انڈیا سے واپس بلوچستان آکر ملازمت کے لئے پاپڑ بیلنے پڑے۔ 1997ء کو محکمہ ایجوکیشن میں ٹیچنگ کی ملازمت مل گئی مگر علاقے کے لوگوں نے یہ شور مچا کر انہیں محکمہ ایجوکیشن اسے فارغ کروادیا کہ وہ ایک معذور شخص ہے بھلا ایک نابینا شخص بچوں کو کیسے پڑھا سکتا ہے۔

حالانکہ وہ معذوروں کے کوٹے سے منتخب ہوا تھا۔ جسکے لئے انہوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکٹایا۔ سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ سے داد رسی نہیں ملی تو سپریم کورٹ میں اپنا کیس اٹھایا جہاں ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا گیا اور سروس ٹریبیونل نے دوبارہ اسی پوزیشن پر بحال کیا۔ اسکے دل میں انسانیت کے خدمت کا بے حد جذبہ تھا۔ اسی جذبے کو بنیاد بنا کر انہوں نے3دسمبر2001ء کوہلو کے علاقے میں معذور افراد کے لئے ایک ادارہ آل ڈس ایبل آرگنائزیشن (ADO)کا قیام عمل میں لایا۔

اور اسکے رجسٹریشن کے لئے انہیں بے حد جتن کرنے پڑے۔ اور 2005ء کو اس ادارے کو رجسٹرڈ کرایا گیا۔ جسکے بعد بڑا مسئلہ ادارے کے لئے فنڈ ریذنگ کرنا تھی کیونکہ ایک ایسے علاقے میں جہاں لوگوں کی معیشت اچھی نہ ہو تو وہاں ادارے کو چلانا مشکل تھا۔ لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ اور بہت سے فلاحی اداروں سے رابطہ ہوا۔ اور ابتدائی طور پرانہوں نے علاقے کی سطح پر چندہ مہم کرکے اپنے ادارے کے ایک معذور فرد کے لئے ویل چیئر خریدا جو انکے کام کا آغاز تھا۔

لیکن اسکے اس کام سے گھر والے ناخوش تھے لیکن انہوں نے اس کام کو ہر حال میں پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا اسلئے پیچھے نہ ہٹنے کا فیصلہ کیا۔ اسے ایک رشتہ دار کے ذریعے ایک دن یہ طعنہ بھی سننا پڑاکہ سنا ہے کہ ثناء اللہ مری نے آجکل بھیک مانگنا شروع کیا ہے تو اسکے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہاں اپنے لئے نہیں دوسروں کے لئے مانگتا ہوں اس سے اجر بھی ملتاہے اور اللہ کی رضابھی۔

اس دوران انکا رابطہ الخدمت فاوٴنڈیشن اور ہیلپنگ ہینڈ جیسے فلاحی اداروں کے ساتھ ہوئی ۔ الخدمت فاوٴنڈیشن نے اسکی صلاحیتوں کو دیکھ کر اسے کوہلو میں الخدمت کا زمہ دار بنا لیا اوراسکے ذریعے سے الخدمت فاوٴنڈیشن اور ہیلپنگ ہینڈ، کارساز ٹرسٹ کراچی نے علاقے کے لوگوں اور بالخصوص معذوروں پر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ معذوروں کے لئے ویل چئیر، راشن، لحاف وغیرہ کی صورت میں امداد کی فراہمی عمل میں لائی گئی ہے۔

الخدمت فاوٴنڈیشن نے انکے ذریعے سے کوہلو کے معذوروں کے لئے 6 کمرے بھی تعمیر کروائے۔ اسکے علاوہ ہر رمضان میں انکے لئے رقوم کی مد میں امداد فراہم کی جاتی ہے۔ 24ستمبر2013ء کو ادارے کی جانب سے ایک سیمینار بعنوان ” معذور افراد کے حقوق اور معاشرے کی زمہ داریاں‘ ‘ بھی منعقد کیا گیا۔ انکے ادارے کو ضلعی انتظامیہ کی جانب سے 5کمروں پر مشتعمل ایک مکان فراہم کیا گیا۔

جس سے اس ادارے کو ایک بنیاد فراہم کرنے میں اہم موقع ملا۔ ادارے کے سربراہی انکے والد کرتے ہیں اور انکو گائیڈ لائن بھی فراہم کرتے ہیں۔ انکے ادارے کے افرادی قوت 10افراد پر مشتعمل ہے۔ انکی شادی 1997ء کو ہوئی ہے اور اسکے 3بچے ہیں اور وہ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ ثناء اللہ مری مزید کہتے ہیں کہ اگراْنکے چچا ڈاکٹر شاہ محمد مری کا انکی زندگی میں کردار شامل نہ ہوتا تو وہ شاید اپنے اس مقصد کے حصول میں کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔

اور شاید وہ بھی دوسرے معذوروں کی طرح دوسروں کے مدد کے مستحق ہوتے۔ ثناء اللہ آج بھی کسی شخص یا معذور کو ہاتھ پھیلائے انکے بھیک مانگنے کی صدا سنتے ہیں تو انہیں بہت دکھ پہنچتا ہے۔ اور وہ انہیں سمجھاتے ہیں کہ ہمت ہی سب کچھ ہے بجائے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے وہ دوسروں کے لئے سہارا بننے کی کوشش کریں۔ انکی کوشش ہے کہ وہ اپنے ادارے کو مزید فعال کریں اور دوسرے اداروں کے ساتھ ملکر علاقے میں انسانیت کی خدمت اور معذوروں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کریں۔

وہ مزید کہتا ہے کہ انسان کوشش کرے تو بہت کچھ کر سکتا ہے۔ اور احساسات ہی ہیں جو انسان کے اندر پیدا ہو کر ایک اسے ایک ڈائریکشن فراہم کرتے ہیں شاید اگر اسکے احساسات جاگ نہیں جاتے توآج ثناء اللہ نہ اپنے لئے کچھ کر پاتا اور نہ ہی اپنے سوسائٹی کے لئے۔
ثناء اللہ کی کہانی ان نوجوانوں کے لئے ایک سبق ہے جنکے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا سب کچھ ہے۔

ثناء اللہ نے آنکھوں کی بینائی کے بغیر ہمت کرکے اپنے منزل کو پالی ہے اگر ہمارے نوجوان کوشش اور ہمت سے کام لیں تو وہ یقینا اس سے بڑا کام کر سکتے ہیں ۔اور ثناء اللہ مری کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے جو آج بھی ان کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ انہوں نے جن حالت سے گزر کر ایک مقام حاصل کیا ہے انکی طرح اور بھی معذور ہمت کرکے اپنے لئے، خاندان ، سوسائٹی کے لئے کارگر ثابت ہوں ثناء اللہ مری نے معذوری کی حالت میں یہ ثابت کیا ہے کہ اگر حوصلے بلند ہوں تو انسان کے لئے کچھ بھی کر دکھانا ناممکن نہیں ۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :