آزادی مارچ یا آخری جلسہ!!!

جمعرات 21 اگست 2014

Kashif Hussain Aakash

کاشف حسین آکاش

کچھ بھی لکھنے سے پہلے میں مالکِ کائنات، خدائے برحق و لائق ِعبادت اللہ عزوجل کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردُود سے جو ازل سے ابد تک میرے جدِّ امجد اور میرا کھلادشمن ٹھہرا۔
آئے دن شوروغوغا سننے کو مل رہا ہے، آئے دن آزادی مارچ اور انقلاب کی باتیں بڑھ چڑھ کر سنائی دے رہی ہیں، روزانہ ٹیلی ویژن پر بے تحاشہ تقاریر سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں اور ساتھ ساتھ ملاقاتوں کا تانتا بندھتا چلاجا رہا ہے اور تو اور ہمارے رہنما پاکستان کے رعایا کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔


( لیکن ہمارے عوام بہت بڑی طاقت ہونے کے باوجود ہمیشہ کی طرح بیوقوفی کا مظاہرہ کرنے میں سر گرم ہیں۔ اس بات پہ تبصرہ پھر کبھی وگرنہ مجھے اپنے اصل مدعا سے ہٹنا ہو گا)
حکومتی ارکان کو اپنی بادشاہت چھنتی نظر آ رہی ہے اور پاکستان تحریکِ انصاف کے قائد تقریباً20 سال کی تگ و دو کے بعد اپنی کامیابی کا خواب دیکھ رہے ہیں اور خواب دکھائی دے بھی کیوں نہ ؟؟؟
کیونکہ حکومتِ پاکستان کی بے بسی کا اندازہ تو اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حال ہی میں جناب میاں محمد شہباز شریف صاحب پاکستان تحریکِ انصاف کے قائد عمران خان صاحب سے ملاقات کرنے میں کامیاب ہو گئے ( واضع رہے صرف ملاقات کرنے میں کامیابی کا کہہ رہا ہوں) اور ظاہر ہے کہ شہباز شریف صاحب کی ملاقات اپنے بڑے بھائی کی مرضی کے بغیرتو واقع نہیں ہوئی ہو گی۔

(جاری ہے)


البتہ اس ملاقات نے بہت سوالات کو جنم دیا ہے لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ( ن) اب کسی سیاسی چال کا سہارا لے رہی ہے یا پھر واقعی گٹھنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی ہے؟؟؟
کیونکہ اگر چار حلقوں کی گنتی دوبارہ کروائی جائے یا نیا الیکشن کمیشن تشکیل دے کر ووٹ دوبارہ ڈالے جائیں تو اس میں شک کی بلکل گنجائش نہیں کہ یہ معاملات پارلیمان کے ذریعے ہی حل ہونگے اور پارلیمان کے اندر تو بات چیت اور بحث کی گنجائش باقی ہوتی ہی ہے لہذا اگر تو یہ سیاسی چال ہو گی تو اس میں مسلم لیگ (ن) کو دو سے تین مہینے کا وقت نئی حکمتِ عملی طے کرنے کے لیئے مل جائے گااور اگر عمران خان صاحب جو ظاہری طور پرکامیابیوں سے ہمکنار نظر آ رہے ہیں باہمی رضا مندی کے ساتھ آزادی مارچ کو معطل کر دیتے ہیں تو ان کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا ؟؟؟
یہاں اس بات کی یوں وضاحت کرنا چاہوں گا کہ اگر تو جناب عمران خان صاحب آزادی مارچ کو کسی معاہدے کے تحت معطل کر دیتے ہیں یا پھرایک جلسہ کی حیثیت سے چند گھنٹوں کے لیئے اسلام آباد میں رونق لگائے رکھتے ہیں تو انہیں اس بات کا یقینِ کامل ہونا چاہیئے کہ یہ ان کی زندگی کا آخری جلسہ ہو گا اور وہ اپنے حامیوں کا اعتبار کھو بیٹھیں گے البتہ اگر خان صاحب اپنے اسی جوش و جزبے کے ساتھ پاکستان کے رعایا کو لیکراسلام آباد روانہ ہو جاتے ہیں تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ملکِ پاکستان کے بادشاہ کو ایک بار پھر اپنی بادشاہت کھونا ہو گی۔


اب اس تحریک کے منطقی انجام کا فیصلہ عمران خان صاحب کو خودی کرنا ہو گاکہ وہ تخت پہ بیٹھنا پسند کریں گے یا پھر در در کی ٹھوکریں کھانا چاہتے ہیں؟؟؟
یہاں یہ کہنا بلکل غیر ضروری نہ ہو گا کہ گڑھا تو ایک ہے اور بندے دو لہذا صرف دیکھنا یہ ہے کہ اب کی بار گڑھے میں گرنے والی ہستی کا نام کیا ہے
”باقی اللہ رب العزت کی مرضی“

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :