نواز شریف فوبیا

جمعرات 21 اگست 2014

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

چھ روزقبل شروع ہونے والے آزادی مارچ کے ہر گزرتے لمحے میں جس رفتارسے کپتان کی انا کی تسکین ہورہی ہے اسی رفتار سے ان کا سیاسی کیریئر بھی اختتام کی جانب گامزن ہے۔
وہ جوش جنوں میں بلندیوں پر پرواز کررہاہے اور نقصان کا ادراک اس وقت ہوتاہے جب آدمی کے پاؤں زمین پرہوں۔موصوف کے ساتھ مولوی صاحب بھی ”انقلاب “ برپا کرنے کے لیے قومی اسمبلی کے سامنے کنٹینر زن ہوچکے ہیں اورمولوی صاحب کے” نظام بدلو“ سے ”انقلاب مارچ“تک کا سفر،چودہ معصوم شہریوں کی شہادت کی تلخ حقیقت اپنے اندر کئی سچائیاں لیے ہوئے ہے۔

لیکن کپتان کا معاملہ الگ ہے۔ اندرون وبیرون ممالک لاکھوں پاکستانیوں (جن میں شریف براداران بھی شامل ہیں) کے تعاون سے شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تکمیل کے کارنامے کے بعد ملک میں تیسری سیاسی قوت کو پروان چڑھانے کے خواہش مندوں کی نظرا لتفات کپتان پر پڑگئی۔

(جاری ہے)

کپتان پر نظر کرم کرنے والوں کا مقصد ملک میں تیسری سیاسی قوت کی آبیاری سے کہیں زیادہ اپنے لیے سائباں تعمیر کرناتھا۔

اس چند رکنی دستے میں اول اول وہ صحافی اور کالم نگار تھے جو مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سے ”مایوس “ہوچکے تھے۔ یوں ”انصاف “کے حصول کے لیے توانائیاں صرف ہونا شروع ہوئیں۔ لیکن برسوں تحریک انصاف کی حالت ایک فین کلب کی سی رہی۔پھر اچانک چمن میں دیدہ ور پیداہوگیا اور1979سے کسی خمینی اور خونی انقلاب کے منتظر پاکستانی چمن تحریک انصاف میں جمع ہوناشروع ہوئے۔

کپتان نے انصاف،مساوات کا نعرہ پھر بلند کیا۔نرگس کی بے نوری پر ترس کھانے والوں نے آواز کو”دلوں“ میں اتار دیا۔
بہار آئی تو کھِل اٹھے ہیں
وہ خواب سارے عذاب سارے
خواب کپتان کے اور عذاب ان معصوم پاکستانیوں کے جن کے ساتھ خوش کن وعدوں کے ساتھ ایک بار پھر ہاتھ ہونے جارہاتھا۔ خونی انقلاب کی آڑ میں ہوس اقتدار کی تکمیل کا اہتمام کیا جانے لگا۔

تحریک انصاف چند سال قبل بڑی تیزی سے ابھری ہے اور پھر انصاف و مساوات اور کرپشن سے پاک پاکستان کی تعمیر کے”جنونی“ کپتان کے ہم رکاب ہونے لگے۔کسی نے اعتراض کیا تو جواب دیا کہ اب پاک دامن لوگ کہاں سے لاؤں۔ یہی وہ لمحہ تھا جب کپتان کے المیوں کا آغاز ہوا اور اب صورت حال یہ ہے کہ وہ کہتے کچھ اور حقیقت میں کچھ اور ہوتاہے۔
عمران خان کا سب سے بڑا نعرہ “طبقاتی امتیاز“ کا خاتمہ تھا اور آج ان کے آزادی مارچ میں جاگیردار،سرمایہ دار،لینڈ مافیا ،بھانت بھانت کے ”فنکار“ شامل ہیں لیکن ایک بھی بندہ ایسا شامل نہیں جو طبقاتی امتیاز اور شفاف سیاسی حوالہ کا ہو۔

تحریک انصاف نے انتخابی عمل میں بھرپور حصہ گزشتہ سال ہونے والے انتخابات میں لیاہے۔ان انتخابی سرگرمیوں کے دوران کپتان کی نفسیات پاکستانیوں پر عیاں ہوئی جو نواز شریف فوبیا ہے۔ ان کی ساری انتخابی مہم مسلم لیگ ن پر الزامات (جن کے ثبوت انہوں نے کسی بھی مرحلے پر عوام کو نہیں دکھائے) اور نواز شریف کی ذات پر بے جواز تنقید پر مبنی رہے۔ وہ انتخابی حلقوں میں”بلا“لہرالہراکر نواز شریف کی چیخ پکار کرتے رہے۔

یوں انہوں نے اپنی سیاسی جدوجہد کو ذاتی انتقام میں بدل لیا۔انہوں نے ا نتخابی مہم میں نواز شریف کے لیے جو لب و لہجہ اختیار کیا تھا اس آزادی مارچ (جس کا نام انہوں نے سونامی رکھا تھا تباہی اور بربادی کی علامت) مولانا طارق جمیل کی درخواست پر اسے آزادی مارچ کا نام تو دے دیا گیا،لیکن مقصد وہی رہا ،نواز شریف کی تباہی ہے۔
جب سے نواز شریف وطن لوٹے ہیں ان کی سیاسی سرگرمیاں ہمارے سامنے ہیں۔

اس عرصے میں تو عمران خان سے ان کی کوئی زیادتی کا ثبوت نہیں ملا۔ممکن ہے کپتان کسی پچھلی زیادتی کا انتقام لینا چاہتا ہو۔اس خیال کو کپتان کے اس طرز عمل سے بھی تقویت ملتی ہے کہ انتخابی مہم کے دوران میں انہوں نے پاکستان کے کسی سیاستدان اور سیاسی جماعت کے” نامہ اعمال“ کا تذکرہ نہیں کیا اور صرف نواز شریف اور مسلم لیگ ن ہی ان کا ہدف رہاہے۔

اب آزادی مارچ کے دوران بھی ان کا لب و لہجہ کسی بھی طرح ایک سنجیدہ اور شائستہ سیاستدان کا نہیں ہے۔ماہرین نفسیات کے مطابق زندگی میں پیش آنے والے دردناک واقعات انسانی نفسیات پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں اور آدمی فوبیا کا شکارہوجاتاہے۔ برادرم حامد میرنے اپنے کالم میں نواز شریف سے کپتان کی ناراضی کی وجوہات بیان کی ہیں لیکن معاملہ اس سے کہیں گہرا اور پیچیدہ ہے۔

نواز شریف نے کپتان کو کوئی ایسا گاؤ لگایاہے جس کا نہ درد کم ہورہا ہے نہ ہی زخم بھراہے۔ شاید اسی لیے وہ جوش و جنوں میں آزادی مارچ کے شرکاء جس میں خواتین،بچے اور نوجوان نسل شامل ہے سے خطاب کے دوران اوئے نواز شریف،بے شرم،بے غیرت،بزدل،گیدڑ،لٹیرے کے الفاظ استعمال کرنے پر مجبورہوگئے حتی کہ ایک مرحلے پر انہوں نے نواز شریف کو روبرو لڑائی کے لیے بھی للکارا تو یہ عیاں ہوگیا کہ یہ سیاسی نہیں ذاتی معاملہ ہے۔

سیاسی لڑائی میں لوگ نظریات اقدمات اور احکامات پر تنقید کرتے ہیں جب کہ ذاتی انتقام میں محض الزام تراشی اور یہی کچھ گذشتہ چھ روز سے کپتان کررہاہے جس سے نواز شریف کا کوئی نقصان نہیں ہوا کپتان نے خود کو ایک کنفیوژڈاورذاتی انتقام میں مبتلا شخص کے طور پر متعارف کروایا۔حکومت متنازعہ حلقوں کی پڑتال کے لیے سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان پر مبنی کمیٹی بنانے تیار ہوچکی ہے۔

لیکن کپتان ہزاروں لوگوں کو ”آزادی“ کا خواب دکھاکر نواز شریف سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں اور جب ان سے سوال کیا جاتاہے کہ کیا نوازشریف کے استعفیٰ سے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کا مداوا ہوجائے گا تو اس کا وہ معقول جواب دینے کی بجائے کنفیوژن کا شکار ہوجاتے ہیں۔اس سارے ہنگامے میں کپتان دو مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، ایک نواز شریف سے کسی پچھلی زیادتی کا انتقام اور دوسرا ملک کا وزیر اعظم بننے کی خواہش کی تکمیل۔

نواز شریف سے انتقام میں ناشائستہ اور بازاری زبان کے استعمال تک کے مظاہرے تو وہ کر ہی چکے ہیں اسی طرح اپنی خواہش کا بھی کئی انداز سے اظہار کرچکے ہیں۔ الیکشن سے پہلے ایک ٹی وی انٹر ویو میں انہوں نے اینکرز کو لکھ کر دے دیا تھا کہ میں وزیر اعظم ضرور بنوں گا۔انہی دنوں لندن میں مقیم اپنے بیٹوں سے رخصت ہوتے ہوئے کہا کہ تمہارا باپ جلد پاکستان کا وزیراعظم بننے جارہاہے اب آج کا تماشا یہ ہے کہ ایک طرف منتخب وزیر اعظم ہے دوسری طرف کپتان کا انتقام او رخواہش سے لبریز جنوں ۔او ر اس سارے معاملے میں گھر بیٹھے اور آزادی مارچ میں شامل پاکستانیوں کا مستقبل داؤ پر لگاہواہے۔ اللہ اس ملک پر رحم کرے۔آمین!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :