پاکستان بھارت مذاکرات کی منسوخی

جمعرات 21 اگست 2014

Syed Farzand Ali

سید فرزند علی

بھارت نے25اگست سے شروع ہونے والے پاکستان اور بھارت کے درمیان سیکرٹری خارجہ کی سطح پرمذاکرات کو منسوخ کردیابھارتی حکومت کے اس اقدام سے امن کے خواہشمندوں کو شدید دھچکا لگاہے کیونکہ جنگ کے بعد بھی مذاکرات ہی کے ذریعے دوطرفہ مسائل کو حل کیاجاتاہے اس لئے جنگ کی بجائے پہلے ہی مذاکرات کا راستہ اختیار کرلیاجائے تو اس سے امن کے فروغ کے ساتھ ساتھ لمبے عرصے کیلئے دوطرفہ مسائل کے خاتمے میں بھی مدد ملتی سکتی ہے ۔


بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھارت کے یوم آزادی 15اگست کو لال قلعہ دہلی میں اپنی تقریر کے دوران زور دیاتھاکہ وقت آگیاہے کہ پڑوسی ممالک اپنے باہمی اختلافات پیچھے چھوڑ کر اپنی توجہ غریبی کے خاتمے پر مرکوز کریں ان کاکہناتھاکہ جنوبی ایشیا کے تمام ممالک خطے سے غریبی کے خاتمے کیلئے مل جل کر کام کریں انہوں نے مثال دی کہ اگر بغیر ہتھیار برطانیہ جیسی عظیم سلطنت سے آزادی حاصل کی جاسکتی ہے تو متحد ہوکر خطے سے غریبی کو بھی مٹایا جاسکتاہے لیکن بدقسمتی سے بھارتی وزیر اعظم نے تین روز بعد اپنی خواہش سے یوٹرن لے کرامن کے ہاتھ کو جھٹک دیا۔

(جاری ہے)


پاکستان نے بھارت کے ساتھ امن کے قیام کیلئے ہمیشہ سنجیدہ کوششیں کی ہے موجودہ حکومت نے بھی بھارت کے ساتھ امن کے فروغ کیلئے ہرسطح پر آوازاٹھائی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد جب پاکستانی وزیر اعظم کو اپنی حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی تو پاکستان نے فوری اس دعوت کو قبول کرکے نومنتخب بھارتی وزیر اعظم کو خیرسگالی کا پیغام دیا حالانکہ پاکستان میں کچھ حلقے اس دورے کی سخت ترین مخالفت کررہے تھے لیکن پاکستانی وزیراعظم نے بھارت کو مثبت پیغام دیاجبکہ دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم نے حلف برداری کے بعد پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات میں چارج شیٹ تھمادی کہ پاکستان سے دراندازی کی کاروائیاں جاری ہیں پاکستان بھارت کو بمبئی حملوں کے ملزمان تک رسائی دے وغیرہ وغیرہ .........لیکن اس کے جواب میں پاکستان نے کوئی سخت ردعمل ظاہر نہیں کیا حالانکہ بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور پاکستانی دریاوٴں پر بھارتی ڈیمز کی تعمیرسمیت بہت سے ایسے ایشوز ہیں جن پر بھارت کے ساتھ احتجاج کیاجاسکتاتھالیکن ایسا نہیں کیاگیا بلکہ پاکستان کی طرف سے اس امید کا اظہارکیاکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ مذاکرات کے دور کا جلد آغاز کیاجائے گااس کے بعد دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کے درمیان خطوط کا تبادلہ بھی ہوا اسے بھی نیک شگون قرار دیا جا رہا تھاپھر گذشتہ ماہ سیکرٹری خارجہ کی سطح پر بھی مذاکرات کا بھی اعلان کردیا گیاجسے امن کے قیام کیلئے بڑی پیش رفت قراردیاگیااور دونوں اطراف کے امن پسند25اگست 2014کا انتظار کرنے میں لگ گئے کہ جب دوطرفہ مذاکرات شروع ہونگے توایک دوسرے کے خلاف غلط فہمیوں کودور کیاجائے گا دونوں اطراف کی عوام کو قریب کرنے کیلئے ویزوں میں آسانی لائی جائے گی دریاوٴں کے پانی کی تقسیم ،سیاچن ،سرکریک سمیت پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے اہم مسئلہ کشمیر پربھی بات چیت کی جائے گی لیکن یہ دن دیکھنے سے ایک ہفتہ قبل بھارت نے سیکرٹری خارجہ کی سطح پر مذاکرات کو منسوخ کرکے امن کی کوششوں پرایک بار پھر پانی پھیردیاہے اس بار بھارت نے بہانہ بنایاکہ پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے مقبوضہ کشمیر کے حریت رہنماوٴں(علیحدگی پسندوں)سے ملاقات کیوں کی ہے ؟حالانکہ کشمیری رہنماوٴں سے کسی پاکستانی ہائی کمشنر نے پہلی بارملاقات نہیں کی بلکہ ماضی میں بھی اسطرح کی ملاقاتیں ہوتی رہی جس پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایاگیا2005 میں بھی سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف نے دورہ بھارت کے دوران کشمیری حریت رہنماوٴں سے ملاقاتیں کی تھی اسوقت بھارت کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں کیاگیابلکہ اسوقت کے سیکرٹری خارجہ شیام شرن کاکہناتھاکہ بھارت ایک جمہوری ملک ہے صدر پاکستان یہاں جس سے چاہیں ملاقات کرسکتے ہیں لیکن آج کشمیری رہنماوٴں سے ملاقات پر بھارتی اعتراض اور اسے اندرونی مداخلت قرار دینا حیران کن ہے ۔


اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ مسئلہ کشمیر میں پاکستان اور بھارت کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام بھی ایک فریق کی حیثیت رکھتی ہے جب بھی مسئلہ کشمیرپر پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کے دور کا آغاز ہوگا تو اس میں کشمیری عوام کی خواہشات کا مکمل احترام رکھناہوگا بلکہ ان کی شمولیت کے بغیر مسئلہ کشمیر کو حل ہی نہیں کیاجاسکتا اور نہ ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کو فروغ دیاجاسکتا ہے اس لئے بھارت کا پاکستان پر اعتراض بلاجواز اور سمجھ سے بالاتر ہے بھارتی حکومت کے رویے سے ایسا لگتاہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں وزیر اعظم بننے سے قبل لوگوں میں جوتحفظات پائے جاتے تھے وہ درست ہوتے جارہے ہیں کہ نریندر مودی ایک شدت پسند ہندوٴ لیڈر ہیں جو مسلمانوں اور پاکستانیوں کے خلاف خاص قسم کی سوچ رکھتے ہیں اور اسی سوچ کی بنا پر وہ پاکستان کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں ۔


اس کی ایک مثال گذشتہ دونوں 12اگست کو بھی دیکھنے میں ملی جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کے علاقہ لداخ میں جلسہ عام سے خطاب کے دوران پاکستان پر الزام عائد کیاکہ پاکستان کشمیری شدت پسندوں کی پشت پناہی کرکے ”پراکسی وار“کررہاہے جس کے جواب میں پاکستان نے بھارتی وزیر اعظم کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے اسے بے بنیاد قراردیااسی طرح آئے روز سیالکوٹ سیکٹر پر بھارت کی جانب سے پاکستانیوں پر گولہ باری ،شیلنگ معمول بن چکاہے اور چند دنوں میں ہی بھارتی گولہ باری کے نتیجے میں کئی پاکستانیوں کو شہید اور درجنوں کوزخمی کیا جا چکا ہے اس کے باوجود آج بھی پاکستان دوطرفہ مذاکرات کی خواہش رکھتاہے یہ پاکستان کی کمزوری نہیں بلکہ امن پسندہونے کی نشانی ہے ورنہ پاکستان ایٹمی ملک ہونے کے ناطے کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتاہے اس لئے بھارتی حکومت کوبھی چاہیے کہ وہ دوطرفہ کشیدگی کو فروغ دینے کی بجائے جلد ازجلد بامقصد مذاکرات کو شروع کرئے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان مسئلہ کشمیر سمیت اہم امور کو خوش اسلوبی سے حل کیاجاسکے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :