ہرالیکشن میں دھاندلی

بدھ 27 اگست 2014

Prof.Mazhar

پروفیسر مظہر

پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایک الیکشن بھی ایسا نہیں گزرا جس پر دھاندلی کا شور نہ مچا ہو سوائے 1970ء کے انتخابات کے۔ بھٹوصاحب نے الیکشن کروائے اورپی این اے دھاندلی کاشورمچاتے ہوئے سڑکوں پرنکل آئی۔نتیجہ ضیاء الحق کے مارشل لاء کی صورت میں سامنے آیا۔ضیاء الحق کی حادثاتی موت کے بعد1988ء سے 1996ء تک چارالیکشن ہوئے اورچاروں میں دھاندلی کاشور مچااورایک دوسرے کو سکیورٹی رسک قرار دیا جاتا رہا ۔

”جمہوری“سیاست دانوں کی انہی” حرکتوں“کی بنا پر مقتدر حلقوں کی ڈوریاں ہلتی رہیں، وزرائے اعظم گھربھیجے جاتے رہے اوربالآخراکتوبر1999ء میں پرویز مشرف نے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی اور میاں برادران جلاوطن کر دیئے گئے ۔یہ سب کیا دھرا سیاست دانوں کا اپنا ہی تھا ۔

(جاری ہے)

مجھے یہاں ایک مشہور کہاوت یاد آ رہی ہے ۔ ایک شخص نے ایک بولنے والا طوطا پالا اور اُسے متواتر یہ جملہ رٹاتا رہا کہ ”پوست کے ڈوڈے پر مَت بیٹھو، اگر بیٹھو گے تو پھنس جاوٴ گے“۔

ایک دن طوطا اُڑا اور گھر سے باہر پوست کے کھیت میں جا کر ایک پودے پر بیٹھ گیا ۔اُس کے دونوں پاوٴں پوست کے لیس دار مادے میں پھنس گئے ۔اُس نے اُڑنے کی بہت کوشش کی لیکن بے سود۔اب طوطا پوست کے ڈوڈے پر بیٹھا چلا رہا تھا ”پوست کے ڈوڈے پر مَت بیٹھو، اگر بیٹھو گے تو پھنس جاوٴ گے“۔یہی حال ہمارے جمہوریت نواز رہنماوٴں کا رہا ۔وہ بلند آہنگ سے جمہوریت کے گیت تو گاتے رہے لیکن اعمال و افعال سارے غیر جمہوری۔


بار بار کی ٹھوکروں کے بعدبا الآخر میاں نواز شریف صاحب اور محترمہ بینظیر شہید کو ہوش آہی گیا اورمیثاقِ جمہوریت کی شکل میں یہ طے ہوا کہ اب ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا کام بند کر دینا چاہیے ۔2008ء کے الیکشن میں حقِ حکمرانی پیپلز پارٹی کے حصے میں آیا اور نواز لیگ اپوزیشن بینچوں پر بیٹھی ۔پیپلز پارٹی کے اِس دور میں جہاں نواز لیگ نے مختلف اوقات میں پیپلز پارٹی پر بھرپور تنقید کی،وہیں برملا یہ بھی کہا کہ وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو گرنے نہیں دے گی۔

پیپلز پارٹی کی بد ترین دورِ حکومت کے دوران تجزیہ نگار حکومت کے خاتمے کی تاریخ پہ تاریخ دیتے رہے لیکن حکومت ڈٹی رہی جس کی واحد وجہ یہ تھی کہ نواز لیگ حکومت کے خاتمے کی کسی سازش میں شریک ہونے کو تیار نہیں تھی۔نواز لیگ نے ”فرینڈلی اپوزیشن“ کے طعنے تو سہے لیکن وقت نے ثابت کیا کہ اگر نواز لیگ ایسا نہ کرتی تو ہم آج بھی آمر یت کی کڑی دھوپ میں یہی دہرا رہے ہوتے کہ ”پوست کے ڈوڈے پر مَت بیٹھو، اگر بیٹھو گے تو پھنس جاوٴ گے“ ۔

صحرائے سیاست کی عشروں تک خاک چھاننے والوں کو تو ہوش آ گیا لیکن سیاسی نو وارد اب بھی ملک کو مارشل لاء کی طرف دھکیلنے کی تگ و دو کر رہے ہیں اور نعرہ یہ کہ ”نیا پاکستان “بنانے جا رہے ہیں ۔ایک نیا پاکستان بھٹو اور مجیب نے بنایا تھا اب نیا پاکستان ایک ایسا کرکٹر بنانے جا رہا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ چونکہ اُس نے 1992ء کا ورلڈ کپ جتوایا تھا اور وہ شوکت خانم جیسے عظیم ہسپتال کا بانی ہے اِس لیے وزارتِ عظمیٰ پر پہلا حق اُسی کا ہے ۔

دست بستہ عرض ہے کہ اگر کرکٹ کی بنیاد پر کسی کا حقِ حکمرانی تسلیم کیا جانا ہی ٹھہرا تو پھر جاوید میاں داد ، انضمام الحق اور محمد یوسف اُس سے کہیں بڑے بلّے باز اور وسیم اکرم اوروقار یونس کہیں بڑے بالر تھے تو پھر کیوں نہ انہی میں سے کسی ایک کو وزیرِ اعظم بنا لیا جائے ۔اگر خدمتِ خلق کو مدِ نظر رکھا جائے تو کپتان صاحب عبدالستار ایدھی کی خاکِ پا کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔

اِس لحاظ سے تو سوائے عبدالستار ایدھی کے خاندان کے کوئی اور حقِ حکمرانی کے قابل ٹھہرتا ہی نہیں ۔پاکستان کو اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بنانے والے محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خاں بھی وزارتِ عظمیٰ کی اِس دوڑ میں شامل کیے جا سکتے ہیں کیونکہ اگر ورلڈ کپ جیتنے کی بنا پر کپتان صاحب وزارتِ عظمیٰ کے دعوے دار ہو سکتے ہیں تو ایٹمی پاکستان کے خالق محسنِ پاکستان کیوں نہیں؟۔


انتخابات میں حصہ لینا ہر پاکستان کا جمہوری حق ہے اور خاں صاحب نے اِس جمہوری حق کو خوب خوب استعمال بھی کیا ۔اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ خاں صاحب کو بھرپور پذیرائی بھی ملی ۔بہت سے تجزیہ نگاروں کے نزدیک 2013ء کے انتخابات میں جتنی پذیرائی تحریکِ انصاف کو ملی وہ بھی حیران کُن ہے لیکن خاں صاحب کہتے ہیں کہ وہ فاسٹ بالر ہیں اِس لیے اُن سے صبر نہیں ہوتا ۔

خاں صاحب کو یاد رکھنا ہو گا کہ قومی سلامتی کرکٹ کی مانندکوئی کھیل نہیں کہ جب چاہا بال ٹمپرنگ کر لی ۔یہ مجبور و مقہور عوام کی تقدیرکا مسٴلہ ہے جسے خاں صاحب محض ایک کھیل قرار دے رہے ہیں ۔اُن کے موجودہ احتجاج نے لگ بھگ چھ سو ارب کا نقصان کر لیا اِس لیے اِس سے پہلے کہ قوم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے اور خاں صاحب کو کہیں جائے اماں نہ ملے ، وہ اُسی پر اکتفا کر لیں جو پاکستان کی تمام جمہوری قوتیں اُنہیں دینے کی کوشش کر رہی ہیں ۔

اگر خاں صاحب نہیں تو اُن کی جماعت کے معتدل سیاستدانوں کو تو یہ پتہ ہی ہو گا کہ وزیرِ اعظم صاحب سے تیس دِن تک کا استعفیٰ طلب کرنا انتہائی مضحکہ خیز ہے ۔یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کسی ملزم کو سزا پہلے سنا دی جائے اورمقدمے کی کارروائی بعد میں شروع کی جائے۔اگر خاں صاحب کو سپریم کورٹ پر اعتماد ہے تو پھر اُس کے فیصلے کا انتظار کیا جائے اور اگر دھاندلی ثابت ہو جائے تو پھر پوری قوم یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہو گی کہ نواز لیگ پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پابندی لگا دی جائے لیکن اگر دھاندلی ثابت نہ ہو یا صرف اتنی ہی دھاندلی ہوئی ہو جتنی ہر الیکشن میں امیدوار انفرادی سطح پر کرتے رہتے ہیں تو پھر خاں صاحب اپنی سزا خود ہی تجویز کر لیں۔


اب تحریکِ انصاف سے وابستہ سابق ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان افضل خاں عدلیہ کو بدنام کرنے کے لیے میدان میں ہیں ۔اُنہوں نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ،سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی اور جسٹس(ر)ریاض کیانی کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے وہی الزام تراشیاں کی ہیں جنہیں محترم عمران خاں سُن سُن کر کان پَک گئے ہیں۔یہ تمام الزامات اِس لیے بھی مضحکہ خیز ہیں کہ افضل خاں صاحب نے الزامات کی بارش کرنے کے بعد کہا ” یہ سب کچھ سچ ہے لیکن میرے پاس اِس کا کوئی ثبوت نہیں“۔اِس لیے ایسے بے تکے الزامات پربات کرنا محض وقت کا زیاں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :