سیاست کے بھوت

منگل 2 ستمبر 2014

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

”آج پھر تم سر تھامے بیٹھے ہو، لگتا ہے پھر تم پر ٹینشن کا دورہ پڑا ہے“
”سچ کہتے ہو، مجھے ان سیاست دانوں کی سمجھ نہیں، آئی یہ کیا چاہتے ہیں ، کیوں چاہتے ہیں“
”تمھارے ساتھ آخر مسئلہ کیاہے ،تم جو سر تھامے سوچ میں پڑے رہتے ہو، سیاست کی گتھیاں سلجھانے کا کام کس نے تمھارے ذمے لگایا ہے“
”بھئی ہم ان کو ووٹ دیتے ہیں، ہمیں حق پہنچتا ہے کہ سوچیں ، غور کریں اور ان سے پوچھیں“
”اس کا تو آسان علاج ہے آیندہ تم ووٹ ہی مت دو،رہے بانس نہ بجے بانسری“
”تم میرے سر کے درد میں اضافہ کرکے رہو گے پلیز یہاں سے چلے جاہو یا مجھے بتاؤ یہ کیا مسئلہ ہوا، کیا چکر ہے ، حکومت نے فوج سے کیوں کہا کہ مسئلہ حل کرے ، اور فوج سے بھی مسئلہ کیوں حل نہیں ہوا؟“
”حکومت نے فوج سے کیوں کہا اس پر بعد میں بات کر لیں گے ، لیکن فوج سے مسئلہ حل اس لیے نہیں ہوا ، شاید فوج ابھی مسئلے کے حل کے موڈ میں نہیں، ورنہ حل ہوجاتا “
”فوج اس موڈ میں کیوں نہیں؟“
”شاید فوج اپنے سر الزام لینا نہیں چاہ رہی، وہ شاید حکومت کو تھوڑا ور رلانا چاہتی ہے، دھرنے والوں کو آرمی چیف سے ملاقات میں یہ تاثر ملا کہ فوج ان کی مدد نہیں کر سکتی اور حکومت کی کرنا نہیں چاہتی“
”یہ کیا بات ہوئی ؟دھرنے والوں کی مدد کیوں کر نہیں سکتی اور حکومت کی کرنا کیوں نہیں چاہتی؟“
”تقریبا ساے سیاست دان ایک طرف کھڑے ہیں، ان کے جمہوری موقف کو عدالت عظمی کی بھی تائید حاصل ہے، سول سوسائٹی کی بھی، اس لیے فوج دو دھرنوں کو بنیاد بنا کر حکومت کے خلاف جانے کی پوزیشن میں نہیں،اور حکومت کی مدد کرنا نہیں چاہتی اس لیے کہ اس کے اور حکومت کے درمیان جو بال ہے ابھی وہ نکلا نہیں“
”بات واضح نہیں ہوئی ،اور الجھا دیا تم نے مجھے “
”ساری قوم ہی الجھی ہوئی ہے اکیلے تم تو نہیں، اچھا ہے الجھنوں میں جینا سیکھ رہے ہیں سب۔

(جاری ہے)

بات صرف یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں دوبارہ انتخابات کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتیں، حکومت بھی اس موڈ میں نہیں، اس لیے یہ سب تو اسی طرح مزید چار سال نکالنا چاہ رہے ہیں، خان صاحب اتنا انتظار نہیں کر سکتے ، حکومت فوج سے مدد لینا چاہتی ہے لیکن اس کو طریقہ سمجھ نہیں آرہا ، دھرنے والے بھی فوج کی مدد چاہتے ہیں لیکن فوج مجبور ہے، حکومت کے علاوہ دوسری پارٹیاں اس لیے فوج سے مدد لینے کے خلاف ہیں کہ ان کی حکومت نہیں،ورنہ اگر بھٹو صاحب سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے مارشل لاء لگا سکتے ہیں اور زردای صاحبٍ میاں نواز شریف کے لانگ مارچ سے نمٹنے کے لیے جنرل کیانی کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں تو آج ان کی پارٹی کو اس پر غصہ نہیں آنا چاہیے تھا کہ حکومت نے فوج کو سہولت کار بنایا، حکومت نے بھی غلطی کی اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیابحران حل کرنے کا کریڈٹ خود لینے کے چکر میں بہترین آپشن بدترین بن گیا ، اپوزیشن کا موڈ اس لیے آف ہوگیا کہ میاں صاحب نے بند گلی میں دروازہ کیوں نکال لیا یہ دروازہ خورشید شاہ اور دوسرے لیڈروں کی مشاورت سے کھولا جاتاتو یہ سب حکومت کا ساتھ دیتے ،کیوں حل تو یہی ہے لیکن میاں صاحب نیک نیت تو شاید ضرورت سے بھی زیادہ ہوں مگر سیاست ان کو ضرورت کے مطابق بھی نہیں آتی، حکومتیں جذبات سے نہیں حکمت عملی سے چلتی ہیں، صرف نیک نیتی کافی نہیں سیاست کے بھوت شرافت کو نہیں مانتے، عمران خان اور طاہرالقادری کے پیچھے شیخ رشید اور چودھری برادران ہیں جو میاں صاحب کی کمزوریوں سے واقف ہیں اور خوب جی بھر کے استعمال کر رہے ہیں“
”تو مطلب دھرنوں کا جھنجھٹ یوں ہی رہے گا؟“
”بھئی حل تو فوج نے ہی کرنا ہے اسی سے ہوگا ،لیکن میاں صاحب اپنے ساتھیوں کے خول سے باہر آئیں اپوزیشن کو اعتماد میں لیں اور پھر اس کے لیے بھی تیار رہیں کہ فوج ان سے بھی کافی کچھ ڈیمانڈ کرے گی ، میاں صاحب نے بھرم تو پہلے ہی دے دیا ہے مزید کیا کچھ دے سکتے ہیں اس کا فیصلہ کر لیں، فوج کو صرف چٹکی ہی بجانی ہے، اگر حکومت اپوزیشن نے فوج کی چٹکی لینے کی کوشش کی تو وہ مجبور چٹکی کی جگہ سیٹی بھی بجاسکتی ہے، پھر سب تمھاری طرح سر پکڑے بیٹھے ہوں گے، اور یہ جو چودھری نثار اور دوسرے وزراء کہتے ہیں نا کہ دھرنوں کے پیچھے فوج نہیں تو یہ بے چارے ایک تو خود کو تسلی دیتے ہیں ،دوسرے اس طرح درخواست گزار ہوتے ہیں کہ پلیز اگر ہمارا ساتھ نہیں دے رہے توان کا بھی نہ دیجیے!“
”تم نے تو سردرد بڑھا دیا ،تم بھی درد سر سے کم نہیں“
”صبح شام خمیرہ مقوی دماغ کھایا کرو ، اخبار اورٹی وی سے دور رہو، کبھی درد نہیں ہوگا،آزما کے دیکھ لو“

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :