لاپتہ افراد اور تحفظ پاکستان بل

جمعرات 4 ستمبر 2014

Badshah Khan

بادشاہ خان

ہفتے کا دن پوری دنیا میں لاپتہ افراد کے حوالے سے منایا گیا ،مگر پاکستان میں اس کو وہ اہمیت نہ مل سکی جس کی ضرورت تھی ،کشمیری رہنما کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق نے گذشتہ پچیس برسوں کے دوران ہزاروں افراد کی گمشدگی اور ہزاروں گمنام قبروں میں مدفون لوگوں سے متعلق حقائق اور کوائف کو منظر عام پر نہ لانے کے معاملے کو پوری کشمیری قوم سے ظلم اور نا انصافی پر مبنی قرار دیااور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے اپیل کی کہ انڈیا پر دباو ڈالے تاکہ لاپتہ افراد کے بارے معلومات ہوسکے دوسری طرف ایک آواز پاکستان میں آمنہ مسعود جنجوعہ کی ابھری مگر اسلام آباد کے سانحے میں دب گئی ،تاہم اس موقع ہرانٹرنیشنل کمیشن آف جیورستس، ایمنسٹی انٹر نیشنل اور ہومن رائٹس واچ پاکستان نے پاکستانی حکومت سے استدعا کی کہ وہ ملک بھر میں ریاستی اداروں کے ذریعے اغوا ہونے والے افراد کے ٹھکانوں کے بارے میں معلومات فراہم نہ کرنے کے ناپسندیدہ عمل کو روکنے کے اقدامات کرے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے پاکستانی حکومت فوری طور پر جبری گمشدگیوں سے تحفظ کے عالمی کنونشن کی توثیق کرے،پاکستان میں جبری طور لاپتہ ہونے والے اکثر افراد کو مار دیا جائے اور ان کے جسموں پر تشدد اور گولیوں کے نشانات پائے جاتے ہیں،گمشدہ افراد کے رشتے دار اور انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے ان افراد کی رہائی کے لئے وسیع پیمانے پر کئے جانے والے احتجاج اور اپیلوں کے باوجودحکام ان کے شفاف تحقیقات کرنے اور ان جرائم کے ذ مہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں ناکام رہے ہیں،،اقوام متحدہ کے ورکنگ برائے جبری گمشدگیوں کی ۲۰۰۱۲ میں کی جانے والی سفارشت کے باوجود پاکستان کی حکومت نے بین الاقوامی قانون اور آئین پاکستان کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں بہت کم کام کیا ہے،جبکہ اس مسئلے کے حوالے سے پاکستان کی سپریم کورٹ نے ۲۰۱۳ میں جبری طورلاپتہ ہونے والے افراد سے انصاف کرنے کے بارے میں دی جانے والی واضح ہدایات پر کم کام کیا،بلکہ پاکستان نے تحفظ پاکستان بل ۲۰۱۴ پاس کیا جو جبری طور لاپتہ کئے جانے والے افراد کی نامعلوم مقامات پر حراست کو درست اور اس میں ملوث سرکاری ایجنٹوں کو استثنئی فراہم کرتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ وہ رپورٹ ہے کہ جس میں پاکستان کی صورت حال کو فوکس کیا گیاہے۔اسی طرح گذشتہ دنوں سکھر کے لاپتہ عالم دین مولانا عطاء اللہ کی والدہ کی اپیل نظر سے گذری جس میں انھوں نے حکومت سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ دس ماہ سے میرا بیٹا جو عالم دین ہے اسے لاپتہ کیا ہوا ہے اگر اس پر کوئی الزام یا مقدمہ ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ اس کے بارے میں مجھے اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ،معلوم ہو اور ہماری اس سے ملاقات ہو خدرا حکومت ،سپریم کورٹ اس انسانی مسئلے پر نوٹس لے۔


دنیا کے مذہب معاشروں اسے انتہائی کمزور حرکت سمجھتے ہیں، پاکستان میں بڑی تعداد میں لوگوں کو اُٹھا کر غائب کر دینے کا مکروہ عمل رسوائے پرویز مشرف دور حکومت میں شروع ہوا ، اور تب سے لیکر آج تک یہ مکرہ عمل جاری ہے 2005-06 ء میں جب لوگ غائب ہونا شروع ہوئے تو اسلام آباد کے قلب میں واقع لال مسجد اور شہید جامعہ حفصہ کے شلٹر میں … لاپتہ افراد کی ماؤں ‘ بہنوں نے اپنا احتجاج منظم کرنا شروع کیا اور پھر یہ احتجاج پریس کانفرنسوں سے نکل کر پارلیمنٹ ہاؤس کے دروازے سے ہوتا ہوا … سپریم کورٹ کے دروازے تک جاپہنچا … لاپتہ افراد کی مائیں اور بچے جب اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے … سپریم کورٹ کے گیٹ سے سر ٹکراتے ہوئے … نعرے بلند کرتیں … تو بڑے بڑے پتھر دل بھی اُن کی بے بسی اورلاچارگی دیکھ کر آنسو بہانے پر مجبور ہو جاتے … بالآخر بے بس ماؤں ‘ بہنوں کی پکار آسمانوں پر سن لی گئی … اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے … لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے مقدمے کی سماعت شروع کر دی … مقدمہ کی سماعت کے دوران … عدالت میں جب بے گناہ لوگوں کو لاپتہ کرنے والے خفیہ چہرے بے نقاب ہونا شروع ہوئے تو 9 مارچ 2007 ء کو ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدی کو آرمی ہاؤس میں بلا کر استعفیٰ طلب کیا ء چیف جسٹس کے انکار کے بعد انہیں گھر میں نظربندکر دیا گیا ۔


مطلب یہ کہ لاپتہ افراد کے ورثاء کی حمایت کرنا لاپتہ افراد کی بازیابی کی کوششیں کرنا جیتے جاگتے لوگوں کو اُٹھا کر غائب کرنے کے خلاف آواز اُٹھانا … دہکتی ہوئی آگ میں کودے کے مترادف سمجھا جاتا تھا اور ہے ، تحفظ پاکستان بل کی منظوری کی بعد اب تو کسی کے بارے میں لکھتے ہوئے بھی صحافی ڈرتے ہیں، لیکن اب تک پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر گیا ہے تمام تر لغزشوں اور کمزوریوں کے باوجود میڈیا اس معاملے پر بھرپور جدوجہد کر رہا ہے ،اور وقتا فوقتا آواز بلند ہوتی ہے۔


سب سے پاکستان میں محترمہ آمنہ جنجوعہ نے اپنے گمشدہ خاوند مسعود جنجوعہ اور دوسرے لاپتہ افراد کیلئے جدوجہد کا آغاز کیا تھا … تب پاکستان پر پرویز مشرف کا ظالمانہ راج قائم تھا … اُن میں سے سو سے زائد لاپتہ لوگوں کو … سپریم کورٹ کے حکم پر … بازیاب کروا کر … عدالت کے کٹہرے میں پیش کیا گیا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اگر لاپتہ افراد میں سے کوئی ایسا شخص ہے کہ … جو اس قسم کے کسی گھناؤے جرم میں ملو ث ہے تو … اُسے عدالت میں کیوں پیش نہیں کیا جاتا؟
اگر کسی کے ذہن میں یہ خیالات ہیں کہ اگر کسی دہشت گرد کو عدالت میں پیش کیا جائے گا تو عدالت ثبوت ہونے کے باوجود اُسے رہا کر دے گی؟ تو یہ عدلیہ پر اعتماد نہی ہے ، سپریم کورٹ نے درجنوں لاپتہ افراد کو بازیاب کروایا تھا نہ تو وہ کسی اور ملک سے برآمد ہوئے اور نہ ہی ان کا کوئی جرم تھا وہ کہاں کہاں سے بازیاب ہوئے تھے اُس کی تفصیلات ریکارڈ کا حصہ ہیں۔

چیف جسٹس افتحار محمد چوہدر ی کے رئٹا ئر منٹ کے بعد اس کیس کی سماعت میں کمی آئی اور تحفظ پاکستان بل کے منظوری نے اسے بالکل سست کر دیا جس سے لاپتہ افراد کے رشتے دار مایوسی سے دوچار ہیں۔
امریکہ نے سینکڑوں بے گناہ پاکستانیوں ‘ افغانیوں اور دنیا کے دیگر ممالک کے مسلمان نوجوانوں کو سال ہا سال تک غائب رکھا بالاآخر اُسے اُن میں بہت سے افراد یہ کہہ کر رہا کرنا پڑے کہ یہ بے گناہ لوگ تھے اگر امریکہ خریدے اور غائب کیے گئے افراد کو بے گناہ قرار دیکر رہا کرنا پڑا، اور یہی توقع لاپتہ افراد کے گھر والوں کو ہے کہ ان کے بیٹے بھائی ایک دن گھر آجائیں گے
اللہ کرے کہ لاپتہ افراد کا معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو جائے،آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :