انقلاب آزادی مارچ …سیاسی انتہاپسندی کا طوفان

پیر 8 ستمبر 2014

Zubair Ahmad Zaheer

زبیر احمد ظہیر

بچپن میں ہم عمران سیریز پڑھا کرتے تھے ۔یہ کہانیوں کا سلسلہ تھا ۔اور ہر نئی کہانی کا بچوں کوانتظار رہتا تھا ۔آج بھی اسلام آبادمیں عمران سیریز قسط وار کہانیوں کی طرح شروع ہے ۔کہانی اتنی دلچسپ اور مزیدار ہے کہ 20کروڑ عوام کی نظریں اسلام آباد کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال پر مرکوز ہیں ۔سولہ دن تک مظاہرین پرامن رہے۔ اس کے بعد عمران خان اور طاہرالقادری کوپتا نہیں کیا سوجھی (پیغام آیا )کہ انہوں نے فوج کی طرح پارلیمنٹ اور وزیراعظم ہاوس کی جانب پیش قدمی کا اعلان کردیا ۔

یہ اعلان کرنا تھا کہ کارکنوں نے آگے بڑھنا شروع کردیا ۔پولیس روکتی رہی ،اور کارکن آگے بڑھتے رہے پولیس نے آنسو گیس استعمال کی ۔جس کی وجہ سے بھگڈر مچی اور جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔

(جاری ہے)

اور مظاہرین نے پولیس پر حملے شروع کردیے ۔عمران خان کے اس پیغام اور اقتدار کے اندھے شوق میں اب تک 3قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں ۔اور زخمیوں کی تعداد 560 سے زیادہ ہے ۔

ان زخمیوں کا کوئی اندازہ نہیں جو ہسپتال میں اس ڈر سے نہیں گئے کہ کہیں دھر نہ کر لیے جائیں ۔یوں تمام میڈیا چینلز کی رپورٹوں کے مطابق زخمیوں کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے ۔تمام تر شہادتوں ،بیانات کے سیاق وسباق اور تحریک انصاف کے دوراندیش دانشوروں کے مشوروں کے برخلاف عمران خان کی پیش قدمی کے فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کی طرح اپنی ایک ایف آئی آر نواز شریف کے خلاف درج کروانا چاہتے ہیں ابھی تک تین افرادکی جان گئی ہے جب تک یہ جانی نقصان پندرہ افراد تک نہیں پہنچ پاتاتب تک عمران خان مزید پیش قدمی پر کارکنوں کو اکساتے رہیں گے اور جب دھرنے پرتشدد بن جائیں گے اور ان پر پولیس گردی بھی واضح ہوجائے گی۔

تب عمران خان مزید التی پالتی مارکر دھرنے پر بیٹھ جائیں گے اور پھر حکومت کے خلاف اسلام آباد سانحہ کی ایف آئی آر درج کرانے کا مطالبہ داغ دیں گے۔عمران خان کا یہ انداز سیاست لاشوں کی سیاست کے سوا کچھ نہیں ۔اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہونے کے لیے خون کی بلی دینی پڑتی ہے ۔شاید عمران خان یہ بلی چڑھانے ہی اسلام دھرنے پر التی پالتی مار ے بیٹھے ہیں ۔

جاوید ہاشمی اس بارے میں برملا کہہ گئے ہیں کہ عمران خان کو ایک پیغام آیا اور انہوں نے کہا کہ اب مجبوری ہے آگے جانا ہوگا ۔یہ پیغام شیخ رشید لائے اور یہ پیغام کس کی جانب سے تھا ۔شیخ رشید اب وضاحتوں پے وضاحتیں کیے جارہے ہیں ۔ان کے حوالے سے اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ یہ پیغام ان ذرائع کا ہوسکتا ہے جو شیخ رشید کو دھماکے دار قسم کی خبریں دیا کرتے ہیں ۔

اور پھر شیخ رشید ان پر مر چ مصالہ لگا کر انہیں میڈیا پر لے آتے ہیں ۔وہ پیغام کیا تھا یہ جواب عمران خان کے ذمہ ادھار ہے ۔مظاہرین کی جانب سے پی ٹی وی پرقبضے کا کیا مطلب اخذ کیا جائے پاکستان میں جب بھی جمہوریت پر شب خون مارا جاتا ہے تو سب سے پہلے پی ٹی وی پر قبضہ جمایا جاتا ہے ۔پی ٹی وی پر قبضہ سرکاری اعلانات کے لیے کیا جاتا ہے ۔اس بار بھی مظاہرین کی بدقسمتی ملاحظہ فرمائیے 1999میں فوج نے پی ٹی وی پر قبضہ کیا تھا وہ بھی نواز شریف کا دور تھا اور آج بھی نواز شریف کا دور ہے اور فوج ہی نے پی ٹی وی مظاہرین سے چھڑا کر حکومت کو واپس دلایا ۔

وزیراعظم بننے کے لیے انتہائی ٹھنڈے دماغ کی ضرورت ہے ۔عمران خان نے خود کو ایسے دماغ سے خالی باور کروادیا ہے ۔دنیا کی کوئی انٹیلی جنس ایجنسی کبھی بھی کسی اشتعال انگیز شخصیت کو بطور وزیراعظم کلیر نہیں کرتی ۔یوں لگتا ہے کہ تحریک انصاف میں کوئی ہے جو عمران خان سے ایسے اقدامات کروارہا ہے جو دن بدن عمران خان کو وزیراعظم کی کرسی سے دور کرتے جارہے ہیں ۔

سیاست کی ابجد سے واقف عام ادنی سا شخص بھی جانتا ہے کہ ووٹ بینک کے لحاظ سے تحریک انصاف نے خود کوبطور تیسری بڑی پارلیمانی جماعت منوالیا تھا ۔مگریہ سارا ووٹ بینک آزادی مارچ کی نذر ہوگیا ۔سیاست بڑی بے رحم ہے جس کے سینے میں دل سرے سے موجود ہی نہیں ۔تحریک انصاف نے تیس سالوں کی ستم رسیدہ لولی لنگڑی جمہوریت کا جس طرح جنازہ نکالا ہے ۔اور عوام کی امانت ووٹ کی جس طرح استعفوں کا ڈراما رچا کر تذلیل کی ہے اس غلطی کے بعد تو ہمیں نہیں لگتا کہ آیندہ الیکشن میں یہ جماعت اتنے ووٹوں کا عشر عشیر بھی حاصل کرسکے۔

کیا لوگ ووٹ اس لیے دیتے ہیں کہ جب کام کرنا کا وقت آئے آپ استعفے دے کر حکمران جماعت کو مکمل آمریت چلانے کا موقع دے دیں اور خود ہاتھ پے ہاتھ دھر کر بیٹھ جائیں۔جتنے روپے پیسے تحریک انصاف نے اسلام آباد دھرنوں پر لٹائے ہیں کیا ان پیسوں سے خیبرپختوں خواہ کی حکومت مثالی اور نمونہ نہ بن سکتی تھی کون اس حقیقت کو نہیں جانتا کہ نواز شریف کے موجودہ اقتدار کی وجہ شہباز شریف کی کارکردگی ہے جو انہوں نے پچھلے پنج سالے میں کردکھلائی۔

نواز شریف کی حکومت پنجاب حکومت کی کارکرگی پر بنی ۔خیبرپختون خواہ میں اللہ نے تحریک انصاف کو پورا پورا موقع دیا تھا مگر عمران خان کی وزیراعظم بننے کی حد سے بڑھی ہوئی خواہش نے یہ نایاب موقع بھی ضائع کردیا ۔کو اچلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا کے مصداق اب عمران خان خیبرپختوں خواہ سے بھی گئے ۔پاکستان کی سیاست میں عمران خان نے رواداری اوربرداشت کی بجائے سیاسی انتہاپسندی کا نیا رجحان متعارف کروایا ہے سیاسی بلیک میلنگ کایہ انداز سیاست پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں بالکل نیا ہے ۔

پاکستان پہلے ہی مذہبی انتہاپسندی کے باعث مسائل کا شکار ہے۔ اب عمران خان کی سیاسی انتہاپسندی نے پاکستان کو مزید مسائل سے دوچار کردیا ہے ۔تحریک انصاف نے پاکستان کے دوسیاسی جماعتی نظام میں شگاف ڈالنے کی کوشش میں اپنی جماعت میں پھوٹ ڈال دی ہے ۔جاوید ہاشمی گئے اور کئی منحرف ارکان بھی نکال باہر کیے ۔جاوید ہاشمی اصولوں کے پکے آزمودہ وجہاندیدہ پارلیمنٹرین ہیں ۔

وہ بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان میں فوجی آمریت کا عرصہ مجموعی جمہوریت کے عرصے سے کہیں زیادہ ہے ۔جن سیاست دانوں نے آمریت کا ساتھ دیا ان کی سیاست ختم ہوگئی ۔آپ شیخ رشید ،چوہدری برادران اور اعجاز الحق کو دیکھ سکتے ہیں ۔جماعت اسلامی ضیاء کابینہ میں شمولیت کا داغ آج تک نہیں دھو سکی۔بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے کی تحریک نے امریکا کے مفادات پورے کیے ۔

یہ حقیقت بعد میں سب نے تسلیم کرلی ۔نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعد چائنہ سے تعلقات میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ اب پاکستان کو امریکا کی ضرورت نہیں رہی ۔پاکستان میں چائنہ کے جاری منصوبوں ،کاشغر تاگوادر ائرپورٹ راہداری منصوبے تک چین نے سچی دوستی نبھائی اور امریکاہمیں جنگ میں تنہا چھوڑکر خودفرار ہونے کے راستے تلاش کررہا ہے ۔چین نے پاکستان کو خودکفالت کے ایسے مقام پر لاکھڑا کردیا ہے جہاں پاکستان کو امریکا کی ضرورت نہیں رہی ۔

بلکہ پاکستان سے تعلقات بناکر رکھنا امریکا کی ضرورت ہے ۔ذوالفقارر علی بھٹو کو بھی امریکا نے پاکستان اور عالم اسلام کو خودکفیل بنانے کے جرم میں اقتدار سے بے دخل کروایا۔ شہباز شریف سخت حالات میں چائنہ گئے ۔اب بھی چائنہ کے وزیراعظم نے آنا تھا اور ان کے آنے سے پہلے ہی سیاسی انتہاپسندی کاسونامی طوفان اسلام آبادمیں آگیا ۔لگتا ہے کہ عمران سیریز کے ہیرو کے دماغ پر کسی مخالف ایجنٹ نے ٹیلی پیتھی کے ذریعے کنڑول حاصل کرلیا ہے ورنہ یہ سازش کبھی کامیاب نہ ہوتی ۔اگر عمران ہوش میں ہوتا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :