حارث سلیمان ۔ستارہ امتیاز

جمعہ 12 ستمبر 2014

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

ہر سال چودہ اگست کو علم و ہنر،فن و ثقافت،تعلیم و تحقیق اورخدمت وطن کے حوالے سے اعلیٰ پیشہ ورانہ خدمات اور کارناموں پر مختلف صدارتی اعزازات حاصل کرنے والی شخصیات کے تعارف سے صحنِ دل میں معطرہوائیں چلنے لگتی ہیں اورشادیانے بجنے لگتے ہیں جن سے ایقان اور اطمینان کا نور ہر سو پھیل جاتاہے کہ مایوسی کے گہرے اندھیرے میں ابھی بھی چند لوگ باقی ہیں جو اپنے اپنے مقام پر جگنو بن کر چمک رہے ہیں ۔

معاشرے کو تخلیق،تعمیر اورتعبیرکی منزل کاراستہ دکھارہے ہیں۔مگر افسوس اس بار ہوس اقتدار کے ہنگام اور ہیجان سے مایوسی پھیلاتے حالات میں امید اور یقین کے مظہر ان پاکستانیوں کی قومی خدمات کاتذ کرہ آزادی اور انقلاب مارچ کے پاؤں تلے روندھا گیا۔اس بار ستارہ امتیاز پانے والوں میں پاکستان سے بارہ ہزار تین سو اکتیس کلو میٹردور امریکی ریاست انڈیانا(Indianapolis) کے پرسکون قصبے پلین فیلڈ(Plain Field)کا وہ سترہ سالہ نوجوان حارث سلیمان بھی شامل ہے جس کے دل میں وطن کی خدمت کا جذبہ نام نہادلیڈروں سے کہیں زیادہ تھا جس نے ارض پاکستان میں بلا امتیاز معیاری تعلیم کے فروغ اور دنیا کو پاکستان کا عکس جمال دکھانے کی آرزو میں اپنے والد کے ہمراہ سنگل انجن کے جہاز (Beech Bonanza)میں پوری دنیاکا چکر لگانے کا عزم کیا اور شہادت کارتبہ پالیا۔

(جاری ہے)

ایک ایسی شہادت جو کسی مولوی فرقے اورفتویٰ کی محتاج نہیں۔ ایک ایسی کوشش جسے پوری دنیامیں سراہا گیا۔ارض وطن کی خدمت کا جذبہ حارث سلیمان کی رگوں میں ایمان بن کر دوڑ رہاتھا جس کی جوت اس کے والد بابر نے بچپن میں ہی اس کے دل میں جگا دی تھی۔یہ اس جوت کا اعجاز تھا کہ سترہ سالہ حارث سلیمان نے اپنے خواب کی تعبیر کو قومی تعمیر کے ساتھ وابستہ کرلیا۔

وہ دنیاکے کم عمر ترین پائلٹ کی حیثیت سے تیس دنوں میں دنیا کا چکر لگانے کا ریکارڈ قائم کرنے کے ساتھ پاکستان میں پسماندہ گھرانوں کے بچوں کے لیے معیاری تعلیم کے سکول قائم کرنے والے فلاحی ادارے سٹیزن فاؤنڈیشن کے لیے دس کروڑ اکٹھے کرنا چاہتاتھا۔جس عمر میں خواب بننے کی خواہش دامن دل میں نموپاتی ہے اس عمر میں اس نے اپنے خواب کی تعبیر اور قومی تعمیر کی منزل کو پانے کے لیے اپنے سنگل انجن جہاز میں اڑان بھرنے کا فیصلہ کیا اس کے والد بابرسلیمان کا تعلق پاکستان کے ایک علم دوست گھرانے سے ہے۔

وہ پاکستان ائیر فورس کے سابق سربراہ راؤ قمر سلیمان کے چھوٹے بھائی ہیں۔
وہ گذشتہ آٹھ سال سے امریکی پاکستانیوں کی تنظیم سیڈز آف لرننگ (Seeds of Learning)کے فعال رکن کی حیثیت سے نہ صرف ذاتی عطیات دیتے رہے بلکہ فنڈ ریزنگ کی مہم میں بھرپور حصہ لیتے رہے۔
خدمت خلق اور جہاز اڑانے کا ذوق حارث سلیمان نے اپنے والد سے پایا۔وہ آٹھ سال کی عمر سے اپنے والد کے ساتھ فلاحی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگاتھا۔

بچپن ہی سے اس نے اپنے والد کے ساتھ فضائی سفر بھی شروع کردیاتھا۔روایتی تعلیم کے ساتھ اس نے پائلٹ بننے کی تربیت لینے کے لیے داخلہ لے رکھاتھا۔حارث سلیمان کو مئی2014میں جہاز اڑانے کا لائسنس ملا جس میں سمندر پر پرواز کرنے کی اجازت بھی شامل تھی۔حارث سلیمان نے فلائنگ لائسنس حاصل کرنے کے فوری بعد ایک انجن کے چھوٹے جہاز پرتیس دنوں میں دنیا کا چکر لگاکر ورلڈ ریکارڈ قائم کرناچاہتاتھا۔

اس سے پہلے انیس سالہ ایک امریکی نوجوان یہ ریکارڈ قائم کرچکاہے۔اپنے والد کے مشورے سے حارث سلیمان نے عالمی ریکارڈ قائم کرنے کی اس کوشش کو پاکستان میں فروغ تعلیم کے لیے فنڈ ریزنگ سے منسلک کردیا۔انہوں نے اپنے سفر کے بارے میں اس سال کے اوائل میں میڈیا کو آگاہ کیا تو پوری دنیا کی نظریں ان کے سفر پر لگ گئیں۔
حارث سلیمان اور بابر سلیمان نے پاکستانی فلاحی ادارے سیٹزن فاؤنڈیشن کے لیے کم از کم دس کروڑ روپے جمع کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

ان کے پیش نظر محض عالمی ریکارڈ بنانا اور دس کروڑ روپے جمع کرنا ہی نہیں تھا بلکہ وہ دنیا کی توجہ پاکستان میں فروغ تعلیم کے کام میں حصہ لینے کی طرف مبذول بھی کروانا چاہتے تھے۔ انہوں نے بیشمار دعاؤں کے ساتھ19جون 2014کو انڈیا نہ (Indiana)سے اپنے سفر کا آغازکیا ۔اس موقع پر فنڈریزنگ کی ایک تقریب بھی منعقد کی گئی جس میں پانچ ملین ڈالر(پانچ کروڑ روپے) جمع ہوگئے۔

یوں آدھا ہدف تو انہوں نے اڑان بھرنے سے پہلے ہی حاصل کرلیاتھا۔
بابر سلیمان نے یہ جہازجنوری2014میں ہی خریدا تھا اور روانگی سے قبل اس میں جی پی ایس سسٹم اور دیگر نئے آلات شامل کرلیے تھے۔دونوں نے اس پر خطر اور کٹھن فضائی سفر کے آغازسے قبل حادثاتی حالات سے نبرد آزما ہونے کی تربیت لی جہاز میں ایندھن کا اضافی ٹینک لگوایاگیا تاکہ لمبی پروازیں بآسانی کی جاسکیں اور ہر ممکن حد تک اپنے حفاظتی اقدامات کیے۔

انہوں نے 3040233کلو میٹر کے تقریباً ایک سو بیس گھنٹوں کے فضائی سفر میں ساٹھ فیصدپرواز سمندر کے اوپر کرنا تھی۔دنیا کے گرد کم ترین وقت میں چکر لگانے کے اس سفرک کے دوران انہوں کو اکیس شہروں میں ایندھن اور خوراک لینے کے لیے رکناتھا۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ اس فضائی سفر پر اٹھنے والے ستر لاکھ روپے کے اخراجات بھی سلیمان نے اپنی جیب سے ادا کیے۔


حارث سلیمان اس فضائی سفر کے دوران اپنے تاثرات،خیالات،جذبات اور مشکلات کے بارے میں ٹویٹر پیغامات باقاعدگی سے دیتارہا۔اس نے ٹویٹر پر فضائی اور زمینی تعارف بھی نشر کیں۔ اس کے ٹویٹر پیغامات اور تصاویر کو دنیا بھر کے انٹرنیٹ پر جاری کیاجاتارہا ہے اس سفر کے دوران وہ کینیڈا ،برطاینہ ،اٹلی،یونان ،مصر،متحدہ عرب امارات ،پاکستان ،سری لنکا،ملائیشیا ، انڈونیشیا اور آسٹریلیا کے جن شہروں میں ایندھن اور خوراک کے لیے رکے مقامی افراد اور میڈیا نے پرتپاک استقبال کیا۔

دنیا بھر کے ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا نے ان کے سفر کی لمحہ بہ لمحہ کوریج کی جس سے دنیا کے کروڑوں لوگوں سے پاکستان کا روشن چہرہ متعارف ہوا۔دونوں باپ بیٹا جس شہر میں رکے وہاں پاکستان میں فروغ تعلیم کے لیے مالی تعاون کی درخواست کرنے اورامریکی فلاحی ادارے سیڈزآف لرننگ اور سیٹزن فاؤنڈیشن سے لوگوں کو مطلع کرتے رہے تاکہ لوگ براہ راست عطیات جمع کروا سکیں اس سفر کے دوران فلاحی ادارے کو عطیات ملنے شروع ہوگئے جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔


20جولائی کو وہ امریکی جزیرے ساموآ(Samoa)کے دارلحکومت پاگو پاگو(Pago Pago) پہنچے۔ اس ساحلی شہر کی خوبصورتی کو بھی حارث نے سراہا۔انہوں نے پاگو پاگو سے اڑان بھر کرگیارہ گھنٹے کی مسافت کے بعد کرسمس آئی لینڈ(christmas island) رکنا تھااس کے بعد ہوائی(Hawii) اور پھر تیرہ گھنٹے کی پرواز سے امریکی ریاست کیلیفورنیا اور وہاں سے اپنے گھرپلین فیلڈ (Plainfield)پہنچناتھا۔

حارث سلیمان کو خواب کی تعبیر ملنے میں تقریباً چھتیس گھنٹے باقی رہ گئے تھے۔ اس کے جذبات اتھلیکٹس کے اس کھلاڑی جسے تھے جسے جیت کا مقام قریب آتا نظر آرہاہو۔پاگو پاگو سے انہوں نے مقامی وقت کے مطابق رات10.15بجے اڑان بھری اور چند کلو میٹر کے سفر کے بعد ان کا طیارہ فنی خرابی کا شکارہوگیا اور لمحوں میں امریکی ساموآ کے ساحلی حصہ میں گر گیا۔

فوری طور پر دونوں کی تلاش کا عمل شروع ہوا ۔آسمان کی بلندیوں کو چھونے کا عزم رکھنے والے حارث سلیمان کا جسد خاکی سمندر کی گہرائیوں سے مل گیا لیکن اس کے والد کانشان نہ مل سکا۔ بابر سلیمان کے اہل خانہ ان کے زندہ وسلامت ہونے کے بارے میں پُر امید اور دعاگوہیں۔ اس حادثے کی وجہ سے حارث سلیمان دنیا کا چکر لگانے والے کم عمر پائلٹ کا اعزاز حاصل نہ کرسکامگر اس نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر خدمت وطن کی وہ سعادت حاصل کرلی ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

آج دنیا کے کئی ممالک میں اس شہیدپاکستانی کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے فنڈریزنگ کی جارہی ہے۔ بابر سلیمان کے بچپن کے ایک دوست نے بابر سلیمان کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے اپنا نام ظاہر کیے بغیر پانچ کروڑ روپے کا عطیہ دے دیا ہے ۔باپ بیٹے کا کارنامہ یہ ہے کہ آج دنیا پاکستان کو دہشت گردی کی بجائے علم کی جستجو کرنے والے ملک کے طور پر دیکھ ر ہی ہے۔حکومت پاکستان نے حارث سلیمان کو ستارہ امتیا ز عطا کیا ہے لیکن اس نے جو خدمت سرانجام دی ہے وہ خود پاکستان کا ”ستارہ امتیاز“ بن گیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :