رحمان ملک اورجمشید دستی پر دست درازیاں

جمعرات 18 ستمبر 2014

Farhan Ahmed Fani

فرحان احمد فانی

ابھی کچھ عرصہ ہوا بھارت میں ایک ٹی وی پروگرام کی اوپن ریکارڈنگ ہورہی تھی۔پروگرام میں ایک وزیر بھی مدعو تھے۔اسی دوران غصے میں بھرے ہوئے ایک عام آدمی نے خود کو آگ لگا دی اور جھٹ سے وزیر صاحب کے ساتھ لپٹ گیا۔ ایک دوسرے سے الگ کیے جانے ا ور آگ ببجھانے تک وہ دونوں بری طرح جھلس چکے تھے۔چند دن بعد اخبارات میں اس آتشیں معانقے کے نتیجے میں ان دونوں کی وفات کی خبر چھپی۔

اس وقت میں نے سوچا کہ تیسری دنیا کا عام آدمی اب بپھر چکا ہے۔اس طرح کے انتقامی حربے اس کی حد سے بڑھی ہوئی مایوسی کا مظہر ہیں۔اس واقعے سے پہلے دنیا کے کئی لیڈروں پر جوتے اچھالے جانے کے کئی واقعات بھی منظر عام پر آچکے تھے۔ انھیں سنجیدہ لیا گیااور نہ ہی عام آدمی کے بدلتے رویّوں پر غور کیا گیا۔

(جاری ہے)


ابھی حال ہی میں پنجاب کے علاقے مظفرگڑھ سے منتخب ممبر قومی اسمبلی جمشید دستی کی گاڑی پر سیلاب کے ستائے ہوئے افراد نے دھاوابول دیا۔

وہ اپنے قافلے کے ساتھ سیلاب زدہ علاقے کا دورہ کررہے تھے۔پولیس نے ردعمل میں جس انداز میں مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا وہ انتہائی شرمناک تھا۔ایک منظر میں پولیس کا جتھہ ایک کمزور سے بوڑھے شخص پر ڈنڈے برسا رہا تھا۔ایک بھاگتے ہوئے شخص کی کمرپر اتنے زور کا ڈنڈے برسایے گئے کہ اس کہ کمر دہری ہو گئی اوروہ زمین پر آ رہا۔جمشید دستی تو خیر موٹر سائیکل پر سوارہو کر جان بچانے میں کامیاب ہوگئے لیکن متاثرین کا غصہ ابھی تک برقرار ہے۔

ان کے دل میں اسٹیٹس کو کے خلاف نفرت کا پکتا لاوہ اب باہر نکلنے کو بے تاب ہے۔
دوسرا واقعہ کراچی ائیرپورٹ پرپیش آیا۔گذشتہ دور حکومت میں بے سر وپا بیانات سے شہرت پانے والے سابق وزیر داخلہ رحمن ملک کی وجہ سے جہازپی ۔کے370 کی روانگی میں دو گھنٹے تاخیر ہوئی۔مسافر پریشان تھے۔جونہی رحمان ملک جہاز میں داخل ہونے لگے تو غصے میں بھرے ہوئے مسافر ان پر ٹوٹ پڑے۔

رحمان ملک کو دھکوں اور مکوں کی بارش میں جہاز سے نکال باہر کیا۔کم وبیش یہی سلوک مسٹر ملک کے ساتھ موجودمسلم لیگ نون کے ایک ممبر اسمبلی رامیش کمار سے کیا گیا۔جہازکو ان دونوں وی وی آئی پیز کو اٹھائے بغیر اڑان بھرنی پڑی۔اس واقعے کی بہت سے سنجیدہ حلقوں نے تعریف بھی کی اور یہ بھی تسلیم کیا کہ عوام کی ذہنی کیفیت اب تبدیل ہو رہی ہے۔
ہمارے ہاں ہر شعبے میں رائج دہرے معیارات کا منظقی انجام یہی ہے ۔

یہاں یونیورسٹیوں کے داخلوں کی ایک ڈیڈ لائن دی جاتی ہے۔ملازمتوں کے لئے درخواستوں کی حتمی تاریخوں کا اعلان بھی ہوتاہے۔گاڑیوں ،جہازوں کی روانگی کے اوقات بھی طے ہوتے ہیں۔لیکن یہ سب ضابطے عام آدمی کے لئے ہیں۔قانون عام شخص کے خلاف حرکت میں آتا ہے۔سیاسی پشت پناہی اور ریفرنسز رکھنے والے لوگوں کے لئے کوئی ضابطہ نہیں۔ان کے بچوں کے حتمی تاریخوں کے بعدبھی داخلے ہو جاتے ہیں۔

اشتہار چھپنے سے پہلے ان کی ملازمتوں کے فیصلے بھی ہو جاتے ہیں۔جہاز وں کی روانگی کا شیڈول ان کی آمد رفت کے لئے بدل جاتا ہے۔یہاں کے جاگیر دار اپنی زمینوں کو بچانے کے لئے بند توڑ کر سیلاب کی قاتل موجوں کا رخ غریب عوام کی بستیوں کی جانب موڑ دیتے ہیں۔یہاں وی وی آئی پیز کو جائیدادیں بنانے اور کارخانے لگانے کے لئے بھاری قرضے بھی مل جاتے ہیں۔

پھر ملک کے ”وسیع تر مفاد“ میں معاف بھی کر دیے جاتے ہیں۔ٹیکس یہاں عام آدمی ادا کرتا ہے۔عام آدمی چند ہزار روپے قرض لے کے اگر وقت پر ادا نہ کر سکے تو اس کا جینا محال کر دیا جاتا ہے۔اس کی جمع پونجی قرقی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔یہاں طبقاتی تقسیم ہر گزرتے دن کے ساتھ بھیانک روپ دھارتی جارہی ہے۔
ان حالات میں مذکورہ بالا واقعات تازہ ہو اکے جھونکے کی طرح ہیں۔

تہذہب کے بھاشن دینے والے قانون کے اس دہرے معیار پر بات کیوں نہیں کرتے۔وہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ سماجی ضابطوں میں کوئی برتر نہیں ہوتا۔انسان سب برابر ہیں۔ان کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع کیوں نہیں ملتے۔جو لوگ درس دیتے پھرتے ہیں کہ تعلیم سے شعور پھیلے گا اور آہستہ آہستہ لوگ تہذیب کے دائرے ہیں آئیں گے۔وہ یہ حقیقت کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہاں تعلیم بھی صرف چند گھرانوں کی لونڈی ہے۔

عام آدمی کا بچہ مر کر بڑی مشکل سے انٹر میڈیٹ کر پاتا ہے۔ذرا معلوم تو کریں اس قوم کے کل نوجوانوں کا کتنے فی صد یونیورسٹی کی سطح تک پاتا ہے۔ترقی کے مواقع کی بات کریں تو کیا ایک کارخانے یا بھٹے کا مزدور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر یہ سوچ سکتا ہے کہ کل کبھی وہ اس قسم کے کارخانے کا شیئر ہولڈر یامالک بن سکتا ہے؟ہر گز نہیں ۔وہ بے چارہ جیسے دیہاڑی کامزدور پیدا ہو اہے اسی طرح مرتے دم تک دیہاڈی دار ہی رہے گا۔


لوگ دھرنوں پر مختلف انداز میں تبصرے کر رہے ہیں۔کچھ کا کہنا ہے احتجاجی زعماء زبان بیان کی باریکیوں اور لکھنوی نزاکتوں کو پامال کر رہے ہیں۔وہ بضد ہیں کہ ہر اونچے درجے کے خائن قوم کو بھی عزت مآب پکارا جائے۔کچھ وڈیرے احتجاجیوں کو ان ہی کے ٹیکسوں سے بنے ایوانوں میں کھڑے ہو کر خانہ بدوش کہتے ہیں۔کچھ کو کائنات کی ساری فحاشی ان دھرنوں میں دکھائی دیتی ہے۔

کچھ” جمہوریت“ کے تقدس کے راگ الاپ رہے ہیں۔ادھر دھرنوں میں ان کی یہ ”مقدس جمہوریت“ ہر شب بے لباس ہوتی ہے۔ان کی کارستانیاں قوم کے سامنے آ رہی ہیں۔جمہوریت کے پردے میں ہونے والی ایک ایک بدعنوانی کا جب عام آدمی کو پتہ چلتا ہے تواس کے ذہن میں سینکڑوں سوال جنم لیتے ہیں۔اوریہ سوال پھر جواب مانگتے ہیں۔جواب کی کھوج میں گاہے تصادم بھی ہو جاتا ہے۔


قوم اس وقت تاریخ کے اہم موڑ پر ہے۔یہ موڑ فیصلہ کن بھی ہو سکتا ہے۔اب عام آدمی چیزوں کے بارے میں متجسس ہو رہا ہے۔وہ حالات اور واقعات کا تنقیدی جائزہ لے رہا ہے۔عام لوگوں کی بیٹھکوں اور چوپالوں کے موضوعات اب بدل رہے ہیں۔اپنے حقوق کا شعور ان میں بیدار ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔وہ خود پر اعتماد بحال کرنے کی روش پرگامزن ہیں۔وہ اب گریبان پکڑ کر سوال پوچھنے لگے ہیں۔

وہ اب اپنے پیسے کا حساب مانگنے لگے ہیں۔ان کے دلوں میں موجود تلخی اب ظاہر ہو رہی ہے۔وہ اب ان شارٹ کٹس کے عادی نام نہاد وی وی آئی پیز کو خاک چٹوانے کے عمل کی ابتداء کر چکے ہیں۔
جمشید دستی،”ڈاکٹر“رحمان ملک اورڈاکٹررامیش کمارکے ساتھ جو ہوایہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اب لوگوں کی قوت برداشت جواب دے چکی ہے۔ اب عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھ کر ہانکنے والوں میں خوف اور سراسیمگی پھیل رہی ہے۔طبقاتی سماج کی چولیں ڈھیلی پڑنے عمل اب شروع ہو چکا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :