جمہوریت میں جمہور کا کردار اور خود احتسابی

ہفتہ 20 ستمبر 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

جمہوری نظام حکومت میں جہاں حکمران عوام کو جواب دہ ہوتے ہیں اور ان سے ان کے حاصل کردہ مینڈٹ کے حوالے سے سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں کہ انہوں نے جو وعدے عوام سے کئے ہیں وہ پورے کئے ہیں یا نہیں وہیں عوام بھی مادر پدرآزاد نہیں ہوتے ان کی بھی ذمہ داریاں ، حقوق اور فرائض ہوتے ہیں جنہیں ادا کرنے سے ہی جمہوری نظام کامیاب چلتا ہے ، ملک ہوں یا قومیں خود احتسابی ہی ایک ایسا عمل ہے جو انہیں اقوام عالم میں آبرومندانہ زندگی گزارنے کے سرٹیفکیٹ مہیا کرتا ہے آپ جمہوری ملکوں کی تارریخ اٹھا کر دیکھ لیں ان کا نظام حکوت دیکھ لیں جو بات آپ کو وہاں سر فہرست ملے گی وہ ہے خود احتسابی ہر انسان خواہ وہ وزیر اعظم ہو یا عام انسان اپنے قول فعل کے لئے جواب دہ ہوتا ہے جھوٹ صرف برائی ہی نہیں ہے بلکہ ایک سنگین جرم ہے جس کی پاداش میں کئی صدور، وزرا اور اعلی عہدے داران کو اپنے منصب کو خیر آباد کہنا پڑا مہذب جمہوری ملکوں میں جھوٹ بولنے والے کو معافی نہیں ملتی جبکہ وی آئی پی کلچر کا سرئے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے ”قطار“ ایک ایسا ڈسپلن کا مظاہرہ ہے جس کو کوئی وائلیٹ نہیں کرتا جبکہ ہمارے جیسے ملکوں میں قطار میں لگ کر کام کرانے کو توہین سمجھا جاتا ہے اور وی ائی پی کلچر کے بغیر ہمارے حکمران زندگی گزارنے کا تصور ہی نہیں کر سکتے ابھی چند روز ہوئے عوام نے دو وی آئی پی کو جہاز سے اس لئے اتار دیا کہ ا ن کی وجہ سے پرواز دو گھنٹے لیٹ ہو گئی تھی یعنی ان وی آئی پی کے نزدیک وقت کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے اسی طرح عوام کا حال ہے کسی بھی تقریب میں وقت پر نہیں پہنچیں گے ،ٹریفک سنگنلز کی پرواہ نہیں کریں گے جو لوگ اپنے محلے کی ایک گلی پکی کروانے پر اپنے”ان داتاوں“کی مدح سرائی میں اس گلی پر خرچ ہونے والے پیسے سے زیادہ مالیت کے خوشامدی بینر لگا دیتے ہوں انہیں تبدیلی کی نہیں زہنی امراض کے معالج کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

جن قوموں کے افراد اپنے بچوں کو ٹریفک سنگلز اور قوانین کی پابندی کرنا سکھاتے اور خود کرتے ہیں، وہاں اپاہجوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ جس جگہ ٹریفک سنگنلز نہیں ہوتے وہاں عوام خود کار نظام کے تحت ون بائے ون کے اصول کو اپنا کر ٹریفک کی روانی کو برقرا رکھتے ہیں،، جو قوم قطار میں لگنا اپنی توہین اور ٹریفک اشاروں کی پابندی کرنا خلاف عقل قرار دیتی ہو وہاں اگر ہر روز ٹریفک حادثات میں درجنوں کے حساب سے لوگ ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو جاتے ہوں اور کوئی بھی بندہ ”بہت تیزی “ کے باوجود اپنے کام کی جگہ گھر یا دفتر نہ پہنچ پاتا ہو وہاں کسی نظام کے ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔

جو قومیں صرف اپنے آج کے لئے زندہ اور مفاد عاجلہ کی اسیر ہوں مستقبل میں ان کا کسی چیز پر حق فائق نہیں رہتا ۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہر فرد اس ملک کو اپنا ملک سمجھ کر اسے سنوارنے کے لئے نکل پڑئے تو ہمیں کسی حکمران یا حکومت کی طرف دیکھنے کی ضرورت محسوس نہ ہو اب یہی دیکھ لیں یہ جو ہر محلے کی نکڑ ،چوک چوراہوں پر نوجوان لڑکوں کا ہجوم ہوتا ہے کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ ہماری نوجوان نسل ،بیکار ہوتی جارہی ہے،، نہ ان کے پاس کام کاج ہے اور نہ ہی یہ خود کچھ کرنا چاہتے ہیں ،،،ورنہ ان میں سے کتنے نوجوان پڑھے لکھے ہوں گے ،،،کیا یہ نوجوان اپنے ارد گرد ،گلی محلوں ،بازاروں میں ان بچوں کو زیور تعلم سے آرستہ نہیں کر سکتے جو وسائل کی کمی اور غربت کی بنا پر تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔

۔ اگر یہ ،،،نکڑ گروپ“ اپنے ”قیمتی“ وقت میں سے تھوڑا سا فضول وقت ان بچوں کو تعلیم دلانے میں خرچ کر سکیں تو یقین کیجیے جہالت اس ملک سے دم دبا کر بھاگ سکتی ہے اور مثبت انقلاب کی راہ ہموار ہو سکتی،،،پھر ہمیں کسی بھرے پیٹ والے کے انقلاب یا تبدیلی کی ضروت ہی نہیں رہے گی۔
انقلاب لانے کے لئے کسی ”خونخوار یا بڑھک باز مذہبی و سیاسی“ لیڈر یا مبلغ کی ضروت نہیں۔

کیونکہ ایک پر امن اور بہتر معاشرے کے قیام کے لئے چند ایسے مخلص انساں ہی کافی ہیں جو انسان ،انسانیت اور بنیادی قدروں سے محبت کرتے ہوں، پاکستان میں ایسا انقلاب ایک سلجھی ہوئی سول سوسائٹی لا سکتی ہے۔۔ ہمیں ایسے گروپوں اور گروہوں کی ضرورت ہے جو اپنے علاقے کے چھوٹے چھوٹے مسائل خود حل کرنے کے لیے اپنا تھوڑا سا وقت نکال سکیں۔۔کسی علاقے میں اگر کسی مین ہول پر ڈھکن نہیں ہے،،،بجلی کی تاریں ٹوٹی ہوئی ہیں،،کوئی سڑک خراب ہے، کہیں پانی کھڑے ہونے کی بناپر تعفن پھیل رہا ہے،،گلیاں گندی اور کوڑئے سے اٹی پڑیں ہیں۔

ان کاموں کو کرنے کے لئے کسی کی اجازت اور واعظ و نصیحت کی ضرورت نہیں۔ بس انقلاب یا تبدیلی کے جذبے کی ضرورت ہے ،،ان کاموں سے انقلاب کی مظبوط بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔۔
پاکستان میں اتنے زیادہ منظم گروہ ہیں سب مل کر اس ملک میں سے پلاسٹک بیگ جو آلودگی کی بنیادی وجہ ہیں کے خاتمے کا تہیہ کر کے ملک بھر میں صفائی مہم پر لگ جائیں تو کیا شہروں میں سیلابی پانی سے نقصان ہو سکتا ہے اور بیماریاں پھیل سکتی ہیں؟ بات صرف انسانی بھلائی کے کاموں میں خود کو شامل کرنے کی ہے ،ہم ہر کام حکومت پر چھوڑ دیتے ہیں جبکہ اپنے گھر کا کوڑا حکومت کی جانب سے جگہ جگہ رکھے گئے کوڑئے دانوں میں نہیں ڈالتے اور بات کرتے ہیں تبدیلی یا انقلاب کی، انقلاب سوچ میں تبدیلی سے آتا ہے جسے ہم تبدیل کرنے کے لئے تیار نہیں۔


پوری دنیا میں رائج اصولوں میں یہ بات سر فہرست ہے کہ ملکی قوانین کی پابندی ہر شہری پر نہ صرف لازم ہے بلکہ اگر کوئی خلاف ورزی کرے تو پورا معاشرہ خلاف ورزی کرنے والے کے اس عمل کو برا سمجھتا ہے ریاست کے سربراہ سے لیکر عام آدمی تک کو ملکی قانون کی خلاف ورزی کرنے کی جرات نہیں ہوتی،،قانون کی حکمرانی دیکھنی ہو تو ان ملکوں میں دیکھی جا سکتی ہے جبکہ ،مسلم ممالک میں قانون کی پاسداری کرنے کے لئے بھی فتووں کا سہارا لیا جاتا ہے۔

۔۔ پولیو کے قطرے پلانے ہوں تو فتوئے ،یہاں تک کے سعودی عرب کے مفتی اعظم عبدالعزیز الشیخ نے ٹریفک کے سگنلز کی خلاف ورزی کرنے والے ڈرائیوروں کے خلاف فتویٰ جاری کیا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ان ڈرائیوروں کی یہ حرکت گناہ کبیرہ میں داخل ہے اور شرعی طور پر حرام ہے۔ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم قوم کیسے بن سکتے ہیں؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :