تبدیلی کیوں ناگزیر ہے ؟

ہفتہ 20 ستمبر 2014

Shahid Iqbal

شاہد اقبال

ابھی ہم پی آئی اے کے طیارے سے رحمان ملک اور رمیش کمار کے بے آبرو ہو کر نکلنے کی خوشی میں بغلیں بجا ہی رہے تھے اور ایک دوسرے کو تبدیلی کی نویدیں سنا سنا کرلوٹ پوٹ ہو رہے تھے کہ نئے پاکستان کے اس خوش کن منظر کو پرانے پاکستان کے ایک کریہہ نظارے نے دھندلا کر رکھ دیا۔ مظفر گڑھ کے ایک گاؤں مبارک آباد میں ایک پیر صابر علی نے اپنے مریدنیاز علی کو حیات بعد از مرگ کی کرامت دکھانے کے لیے اپنے آستانے پر بلا کر ذبح کر دیا اور یاعلی کے نعرے لگاتے ہوئے اس کی لاش پر دیوانہ وار بھنگڑے ڈال کر ایٹمی پاکستان کی تہذیب و ترقی کے راز طشت از بام کرتا رہا ۔

اس کی اس ’کرامت ‘ کو گاؤں والوں نے اردگر د کے مکانوں کی چھتوں اور دیواروں پر چڑھ کرلائیودیکھا اور منتظر رہے کہ کب مردے کو پیر صاحب زندہ کریں گے لیکن جب پیر صاحب اپنی کرامت مکمل کیے بغیر وہاں سے کھسکنے لگے تو کھلبلی مچی ۔

(جاری ہے)

پیر ِ صاحب کی کرامت کے اس ناکام مظاہرے پر اگرچہ اسے گرفتار کر لیا گیا ہے لیکن یہ واقعہ ہمارے نام نہاد مہذب معاشرے کے مونہہ پر ،جسے اسلامی معاشرہ ہونے کا بھی دعویٰ ہے ، ایک نہایت ہی زوردار طمانچہ ہے۔

ہم چونکہ ازل سے طمانچے کھانے کے عادی ہیں اس لیے اس واقعے کا بھی ہماری صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور ہم حسب ِ معمول باقی دنیا کو جاہل ، جنگلی اور بد تہذیب جبکہ خود کو درخشاں اسلامی روایا ت کا واحد وارث، امین اور ٹھیکیدار سمجھتے رہیں گے۔
یہ اور اسی قبیل کے دوسرے واقعات آئے روز ہمارے دیس کی گلیوں گاؤں اور گوٹھوں میں اپنا بھیانک روپ دکھا کر ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ تبدیلی اس ملک کے لیے ناگزیر ہو چکی ہے لیکن ہم بے عملی کی چادر اوڑھے کسی کرامت کے منتظر ہیں ۔

ہمیں یقین ہے کہ ایک دن آسمان سے ہمارے لیے تبدیلی اترے گی اور ہم اسے گلے لگا کر جھومنے لگیں گے۔ ایک دن بیٹھے بٹھائے ہماری کایا پلٹ جائے گی اور ہم ککھ پتی سے لکھ پتی بن جائیں گے، ایک دن ہماری آنکھ کھلے گی تو دنیا بدل چکی ہو گی اور ہم ترقی کے جھولے جھول رہے ہوں گے۔ ہم انہونیوں پر اپنی ذات سے زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے گاؤں دیہات کے صابر علی جیسے پیروں سے لے کر قومی سطح کے سیاسی و مذہبی لیڈروں تک میں سے ہر ایک کے ہاتھوں الو بننے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔

ہم ہر موڑ پر بے وقوف بننے کے لیے دل و جان سے راضی ہوتے ہیں بسہمیں کسی ایسے سیانے کی تلاش رہتی ہے جو کسی نئی تیکنیک سے کسی نئے ڈھنگ یا ڈھونگ سیہمیں بے وقوف بنا سکے ۔
مبینہ طور پر نیاز علی کی بیٹی پر آسیب کا سایہ تھا۔ پیر صاحب نے اس کا یہ مسئلہ حل کر کے نیاز علی کو اتنا گرویدہ کر لیا تھا کہ جب فائنل کرامت کے موقع پر اسے ذبح ہونے کے لیے زمین پر لیٹنے کے لیے کہا گیا تو وہ بخوشی سر زمین پر رکھ اپنے پیر کی کرامت کا ایک کردار بن گیا۔

ہمارے سیاسی راہنما بھی صابر علی کے طریقہ واردات کے پیر و ہیں۔ یہ پہلے کسی چھوٹی موٹی ’کرامت‘ سے ہمیں اپنا گرویدہ بناتے ہیں پھر ہماری کھال تک اتار کر لے جاتے ہیں اور ہم بخوشی نئی کھال ملنے کی آس میں ان کی اس کرامت کے ہونق کردار بن کر رہ جاتے ہیں۔ یہ ہمیں محلوں کے سبز باغ دکھا کر ہم سے ہمارے جھونپڑے تک چھین کر لے جاتے ہیں اور ہم بخوشی احمقوں کی جنت میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہ جاتے ہیں۔

یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ پلک جھپکنے میں ہمارے سارے مسائل حل کر دیں گے، ہماری ساری پریشانیاں دور کر دیں، ساری مصیبتیں بھگا دیں گے اور ازل سے چمٹے ہوئے ہمارے سارے دکھوں کو سکھوں میں بدل دیں گے ۔یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ان کے پاس الہٰ دین کا ایسا چراغ ہے کہ بس ان کے اقتدار میں آتے ہی سب کچھ بدل جائے گا اور ہم آنکھیں بند کر کے ان کے ان تمام دعووں پر ایمان لاتے ہیں اور نتیجے کے طور پر ان جعلی مسیحاؤں کے ہاتھوں روز ذبح ہوکر دنیا کے لیے نشانِ عبرت بنتے ہیں ۔


تجربے نے ثابت کیا ہے کہ قومیں اسلحوں کے انبار لگانے سے مہذب اور ترقی یافتہ نہیں ہو جایا کرتیں ۔ایٹم بم کسی قوم کے ترقی یافتہ ہونے کی گارنٹی ہوتا تو آج ہمارے دیس میں صابر علی جیسوں کے آستانے آباد نہ ہوتے ۔ ایٹم بم سے قومیں سلیقہ شعار اور تہذیب یافتہ ہونے لگتیں تو انڈیا میں سات سو دیہاتی ایک بندر کے مرنے پر گنجے ہو کر نہ بیٹھے ہوتے۔

سماج کی سوچ میں ترقی ہی اصل ترقی ہے۔ افرادِ معاشرہ کی شعوری سطح جب تک پیروں کی کرامتوں کے چکر سے بلندنہیں ہوتی ترقی کے زینے پر قدم نہیں رکھا جا سکتا۔ فضول رسومات اور لایعنی توہمات کی زنجیریں توڑے بغیر مہذب ہونے کا خواب تو دیکھا جاسکتا ہے لیکن اسے عملی تعبیر نہیں دی جا سکتی۔ ہم مغرب کو گالیاں دیتے اور اس سے مقابلہ کرنے کی بھڑکیں مارتے ہیں جبکہ حالت ہماری یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ہم بیماریوں سے شفا پانے کے لیے مزاروں کی مٹی اور چوکھٹوں کے محتاج ہیں، بچے پیدا کرنے کے لیے ہماری عورتیں ابھی تک تعویذوں گنڈوں اور پیروں کے آسرے پر بیٹھی ہیں اور دشمنوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے کے ہم ابھی تک جادو ٹونے کے چکر میں خوار رہے ہیں۔


ہمیں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے ایک ایسی تبدیلی کی جو ہمیں زمانہ جاہلیت میں بھٹکنے والی روحوں کی بجائے قرنِ نو کے جیتے جاگتے مہذب انسان بنا دے ۔ لیکن یہ تبدیلی صرف اقتدار کے ایوانوں میں نہیں بلکہ ہر فرد کے دل کے نہاں خانوں میں بپا ہونے سے آئے گی ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ساری قوم جاہل رہے لیکن ہمارے حکمراں عالم فاضل ہو ں ، ہم چاہتے ہیں کہ ساری قوم فراڈاور دغابازی سے کام لیتی رہے لیکن ہمارے حکمراں ایماندار ہو ں ، ہمارا خیال ہے کہ ہم سب جھوٹ بولتے رہیں اور ہمارے حکمراں صادق اور امیں سے کمتر نہ ہوں ، ہم سب کرپشن کو اپنے لیے حلال سمجھتے ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ ہمارے لیڈر اس عارضے میں بالکل مبتلا نہ ہوں، ہم میں سے ہر فرد محلوں میں رہنے کے خواب دیکھتا ہے لیکن لیڈر ایسے چاہتا ہے جو عمر کی طرح پیوند لگے کپڑے پہنے اور سڑکوں پر سوئے۔

تبدیلی کا عمل ہر فرد کو خود سے شروع کرنا ہو گا۔ کنٹینروں سے حکومتیں بدلی جا سکتی ہیں دل کی دنیا بدلنے کے لیے ہمیں خود کو بدلنا ہو گا ۔اگر ہم نے خود کو نہ بدلا تو نیاز علی کی طرف جھوٹی تبدیلیوں اور لایعنی کرامات کے لالچ میںآ ئندہ بھی اسی طرح ذبح ہوتے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :