5 لاکھ سے 16لاکھ کا سفر

پیر 22 ستمبر 2014

Hussain Jan

حُسین جان

"مرنے والوں کو حکومت کی طرف سے فی کس پانچ لاکھ دینے کا اعلان"یہ وہ جملہ ہے جو اکثر اخبارات میں کسی وزیر مشیر کی بڑی سی تصویر کے ساتھ زینت بنتا ہے۔ مگر خوش قسمتی سے اب مرنے والوں کی قیمت فی کس 16لاکھ روپے مقرر کر دی گئی ہے جو کہ حکومت کا ترقی کی طرف ایک اور "احسن قدم"ہے۔ اس اقدام سے ایک بات تو عیاں ہے کہ حکومتی عہداداروں کی ملکی حالات پر پوری نظر ہے کیونکہ موجودہ دور میں پانچ لاکھ سے کسی کا کیا بنتا ہے لہذا موت کی قیمت بڑھا دی گئی ہے۔

بچ رہنے والے بھی اپنی قسمت کو کوستے ہوں گے کہ کاش وہ بھی مرجاتے کم ازکم پچھلوں کو کچھ رقم تو مل جاتی کیونکہ جیتے جی تو وہ اتنی رقم ساری زندگی نہیں بنا پاتے کہ یہاں بندہ مزدور کی اوقات ہی کتنی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امدادی رقم کا حکومت کو ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ میڈیا حکمرانوں کو شیرشاہ سوری سے لے کر امیرالمومینین تک بنا دیتاہے۔

(جاری ہے)


ہمارے ایک اُستادِ محترم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان میں زندہ سے زیادہ مردوں کی عزت کی جاتی ہے کہ چلو اس سے تو جان چھوٹی کیونکہ جب تک وہ زندہ رہتا ہے اپنے اور دوسروں کے لیے سردرد بنا رہتا ہے۔

مگر جیسے ہی سفر رحت باندھتا ہے پچھے سے اُس کے لیے ایسے ایسے اہتمام کیے جاتے ہیں کہ اگر صاحب زندہ ہوتے تو خوشی سے پھر مر جاتے۔ یہی حال ہماری حکومتوں کا ہے جب تک شہری زندہ رہتے ہیں یہ اُن کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھتے مگر جیسے ہی کسی ناگہانی آفت کے زریعے عدم سدھار جاتے ہیں تو اُں کے گھروں میں دوروں پر دورے ہوتے ہیں۔ سر پر ہاتھ پھیریں جاتے ہیں بچوں کوجھوٹی تسلیاں دی جاتی ہیں نوکریوں کے وعدے کیے جاتے ہیں بچیوں کی شادیوں کی قسمیں کھائی جاتی ہیں۔

نابالغوں کی پرورش کی زمہ داری لی جاتی ہے۔ اور اس سب میں فائدہ صرف اور صرف لیڈرز کا ہی ہوتا ہے کہ وقتی طور پر اُن کو میڈیا ہوا بنا کر رکھ دیتاہے مگر جیسے ہی کچھ وقت گزرتا ہے سب بھول جاتے ہیں اور پاکستانی عوام کی تو یادآشت ویسے بھی بہت کمزور ہے کہ آج مرئے کل بھول گئے پھر میڈیا بھی پلٹ کر خبر نہیں لیتا کہ حکومت کی طرف سے کیے گئے وعدوں کاکیا بنا کس کس پر عمل درآمد ہوا ۔


ہمارے ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی کرپشن ہے کہ رشوت دے کر جتنا مرضی بڑا کام کروالو کرپٹ عناصر اپنے چند ہزار کی خاطر کئی لوگوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیتے ہیں ۔ اپنے گھر روشنی کے چکر میں کئی گھروں میں صف ماتم بچھا دیتے ہیں ۔ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے دوسروں کے بچوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔ بڑئے بڑئے ٹھیکے رشوت لے کر بلیک لسٹ ٹھیکیداروں کو دے دیے جاتے ہیں۔

جس کا جیسے دل کرتا ہے اپنے مکانات تعمیر کر لیتا ہے جب نقشے کی باری آتی ہے تو احکام چند ہزار روپے لے کر اجازت دے دیتے ہیں،اور جب یہی مکان گرتے ہیں تو لیڈروں کو سیاست چمکانے کا موقع مل جاتا ہے۔ پاکستان میں بارشوں میں متعدد مکانات گرنے کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن آج تک کسی حکومت نے یہ نہیں کیا کہ ایک سروئے کروایا جائے جس میں خستہ حالت مکانات کا ریکارڈ جمع کیا جائے اور ان کے مالکان کی کچھ مدد کر دی جائے تاکہ یہ ازسر نو اپنے اپنے مکانات تعمیر کروا سکیں ۔

لیکن ایسا نہیں ہوگا کیونکہ اس پر حکومت کو بہت سا مال خرچ کرنا پڑئے گا اور پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اس کی حکومتیں عوام پر پیسہ خرچ نہیں کرتی یہ ضرور ہوتا ہے کہ حادثہ ہو جانے کے بعد چند لوگوں کے ہاتھوں میں کچھ نوٹ پکڑا دیے جاتے ہیں اور اگلے کسی حادثے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم دیکھیں تو پاکستان میں بہت سے غیر کانونی کام ہو رہے ہیں مثلا ایل پی جی کے سر عام فروخت ایل پی جی کے سیلنڈرچلتے پھرتے بم ہیں اور یہ بم پھٹنے کی خبریں بھی اکثر آتی رہتی ہیں پھر حکومت کچھ دن کے لیے پکڑ دھکڑ شروع کر دیتی ہے جیسے ہی لوگ حادثے کو بھول جاتے ہیں پرانا کاروبار پھر شروع ہو جاتا ہے۔

اسی طرح بہت سے ملحق کیمیکل بھی سرعام فروخت ہوتے ہیں اور متلقہ ادارئے کے افسران رشوت لے کر یہ کیمیکل بیچنے کی اجازت دے دیتے ہیں جن میں تیزاب سر فہرست ہے۔ دوسری طرف گاڑیوں میں ناکس سیلنڈر لگانے کا دھندہ بھی عروج پر ہے جب کوئی بڑا حادثہ ہوجاتا ہے تو وہی 5سے 16لاکھ تقسیم کر دیے جاتے ہیں اور کچھ دن کے لیے سختی کر دی جاتی ہے اور کچھ عرصے بعد پھر وہی مکروہ دھندہ شروع ہو جاتا ہے۔


آج کل ہر طرف دھرنوں کی مخالفت اور حق میں بیانات اور بحث و مباثہ ہو رہا ہے ہر کوئی عمران خان،قادری اور نوازشریف کے حق اور مخالفت پر دلائل دیتا نظر آتا ہے۔ لیکن بات عمران ،قادری یا نواز شریف کی نہیں ہے بات ہے نظام کی جو اس قدر خراب ہوچکا ہے کہ عام آدمی کا جینا محال ہوچکا ہے۔ اس فرسودہ نظام نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے،رشوت ،چور بازاری، اس قدر عام ہو چکی ہے کہ ہر ادارے کے اہل کار اپنے منہ سے سرعام رشوت مانگتے نظر آتے ہیں۔

سنتے ہیں کہ عدالتے آزاد ہو چکی ہیں یا کرپشن سے پاک ہو چکی ہیں ہوسکتا ہے سپریم کورٹ میں کچھ بہتری آگئی ہو مگر ماتحت عدالتوں میں آج بھی غریب کی کوئی سنوائی نہیں۔ گیٹ پر بیٹھے گارڈ سے لیکر ہر ہر میز پر بیٹھے کلرک اپنا اپنا حصہ وصولتے ہیں۔ جمہوریت کے ثمرات سے عوام نا آشنا ہے، عوام کے ساتھ آج بھی ہی ظلم ہو رہا ہے جو پچھلی حکومتیں کرتی رہی ہیں۔

کسی حکومت نے اس زنگ لگے نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اب عوام اس قدر تنگ آچکے ہیں کہ وہ مزید اس نظام میں رہنا نہیں چاہتے،مہنگائی ،بیروزگار، جاہلیت،لوڈشیڈنگ جیسے بیشمار مسائل نے عوام کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ لوگوں کو احساس ہونا شروع ہو گیا ہے کہ پاکستان میں اُن کے ساتھ کتنا ظلم ہو رہا ہے۔ ایک آدمی کی آمدنی دس ہزار ماہوار ہے مگر اُسے بجلی کا بل ہی آٹھ ہزار آجاتا ہے ایسے میں وہ اپنے بال بچوں کا پیٹ کیسے پالے گا وہ جرم کی طرف نا جائے تو کیا کرئے۔

پارلیمنٹ میں جمہوریت کو بچانے پر بہت لمبی لمبی تقریریں ہوئی مگر عوام کو بچانے کے لیے کسی ظالم نے آواز نہ اُٹھائی کسی نے نہیں کہا کہ نئے سرکاری ہسپتال بناؤ ،سکولوں کی حالت بہتر کرؤ مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرؤ،لوڈشیڈنگ ختم کرویا عوام کو سہولتیں مہیا کروسب اپنی اپنی بین بچا کر اپنے اپنے الاؤنس جیبو ں میں ٹھونس کر چلتے بنے۔ یہ پڑادو میں بیٹھنے والے غریب کا کیا سوچیں گے بلاول صاحب نے کہا ہم پنجاب کو حاصل کر کے رہیں گے مگر انہوں نے یہ نہیں کہا کے ہم پنجاب کے عوام کو حاصل کریں گے اُن کی مراد اقتدار تھی خدمت نہیں درجنوں گاڑیوں کے ساتھ غریب کی کٹیا میں جانا کتنا عجیب لگتا ہے۔

شلوار اُونچی کرکے پانی میں اُترنا تو ہمارے میاں صاحب کو بھی خوب آتا ہے مگر بات ہے عوام کی بھلائی کی جو کبھی نہیں ہوتی۔ یہ لوگ جس شہر میں جاتے ہیں ان کے سیکورٹی سکوارڈ پورے شہر کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ ہم نے تو کتابوں میں پڑھا تھا کہ جمہوریت ایک ایسا طرز حکومت ہے جو ملک کے تمام عوام کو ملکی وسائل میں حصہ دار بناتا ہے مگر ہمارے ہاں کیسی جمہوریت ہے کہ جس میں عوام کے حصے میں صرف مسائل ہی آتے ہیں اور صاحب اقتدار کے حصے میں وسائل۔ اللہ ہی بچائے ایسی جمہوریت سے،چلو اچھا ہے حادثاتی تور پر مرنے پر تو ہم نے ترقی کی 5سے 16لاکھ پر پہنچ گئے اس میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید اصافہ بھی ہوتا رہے گا بس عوام مرنے والے بنیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :