”انڈ ر میٹرک وکیل “

پیر 22 ستمبر 2014

Muhammad Afzal Shaghif

محمد افضل شاغف

یوں تو پورا ملک ہی اس وقت کرپشن اور بد عنوانی کی لت میں مبتلا ہے۔ بڑے سے بڑا اور چھو ٹے سے چھوٹا دوکاندار یا کاروباری شخص اپنے کارو بار کو چمکانے اور عوام کی کھال ادھیڑنے کے ایک سو ایک طریقے اختیار کیے ہوئے ہے ۔ کریانہ سٹور کے ملازم سے لے کر کارخانہ کے مالک تک سب ہی دو نمبر دھندے سے خوب آشنائی رکھتے ہیں ۔ لیکن اس سے ذرا آگے بیوروکریٹس کی طرف نکلیں تو پتہ چلتا ہے کہ اقتدار کا نشہ حاصل کرنے کے لیے کتنے ہی لوگوں نے جعلی ڈگریوں میں اپنے آپ کو ”پڑھا لکھا “ ثابت کر کے حقیقی پڑھے لکھوں پر حکومت جمانی شروع کر دی ۔

بھلا ہو اس میڈیا کا جس نے ایسے کرپٹ اور دو نمبر سیاستدانوں اوروزیروں کی جعلی ڈگریوں کا بھانڈا پھوڑا اور عوام نے ان نام نہاد اور بد نام وزیروں کو روتے ہوئے ٹی -وی کی سکرین پر دیکھا ۔

(جاری ہے)

اس سے ذرا اور آگے اپنے نظام ِ عدلیہ کی جانب چلیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے ایسے ”وکیل “ بھی چیمبر کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں جن کو ”و“ اتار کر پڑھا جائے تو ان کے عہدے کا مطلب واضح ہوتا ہے ۔

کوئی پرائمری پاس تو کوئی مڈل پاس وکیل ۔
ایسے وکلاء جو کہ معاشرے کے لیے ناسور کا درجہ رکھتے ہیں ، احتساب کی آنکھ سے چھپ کر کئی کئی عشروں تک غریب عوام کا خون چوستے رہتے ہیں ۔اور آخرکار ” بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی “ ایک نہ ایک دن پکڑے ہی جاتے ہیں ۔
میں شکر گزار ہوں روزنامہ ”نئی بات لاہور “ کا جس نے کچھ ماہ قبل اپنی اشاعت میں ایسے ہی ایک وکیل کا تذکرہ کیا تھا ۔

اخبار میں اسکا نا م ”سلیم سندھو“ اور مقام ”ساہیوال “ لکھا ہوا تھا جبکہ یہی سلیم سندھو دراصل ”گلی نمبر36مکان نمبر7امین پارک سید پور ملتان روڑ لاہور “ کا رہائشی ہے ۔ اس نے شروع شروع میں لاہور ہال روڑ پر موبائل ریپئرنگ کی دوکان ڈالی اور پھر ”کمائی “ کا شارٹ کٹ طریقہ سوچنے لگا ۔ کچھ ہی عرصہ بعد اس کے پاس پنجاب کے مختلف اضلاع سے ”گاہک“ جعلی ڈگریاں بنوانے آنے لگے ۔

دیکھتے ہی دیکھتے اس کے”کاروبار“ کو چار چاند لگ گئے اور جیب پر جیب بھری جانے لگی ۔ ہر محکمے کی مہر اور جعلی تصدیق ،جعلی شناختی کارڈ ، جعلی ڈرائیونگ لائسنس ، یہا ں تک کہ جعلی پاسپورٹ اور جعلی ویزہ وغیرہ بناکر استعمال کرنا اسکی گھٹی میں پڑے ہوئے تھے ۔ چند سال یہ ”کاروبار“ چلا تو مخبری ہو گئی اور یہ صاحب جیل کی دال پینے چلے گئے ۔

واپس لوٹے تو سوچا کہ اب ”عزت “ نہیں رہی تو ملک سے باہر چلے گئے ۔ جعلی پاسپورٹ اور ویزہ کے بل بوتے پر چین کے سفر کا اراد ہ کیا۔ چائنہ جیسے خوشحال ملک کی آب و ہوا میں رہ کر بھی اس کے ہوس کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی ۔ وہاں ایک مالدار چائنی باشندے کو اپنے ہاتھ چڑھا لیا اور اسے تانبہ اور چاول کا کاروبار شروع کروانے کے لیے ڈیل کی ۔ اس سے تقریباً 2کروڑ روپے بٹور کر اُسے نشہ آور ادویات پلا کر فوراً جعلی شناختی کارڈ اور ویزہ تیار کیا اور کسی دوسرے نام سے بذریعہ بھارت پاکستان آپہنچا جبکہ وہاں کی حکومت اسے اپنے ہی ملک میں تلاش کر رہی ہے۔


علاوہ ازیں اس شخص نے جھوٹی NGOبھی تشکیل دے رکھی ہے جس کے ذریعے بھی خوب حرام کی کمائی ہاتھ لگ رہی ہے ۔ حرام کی کمائی سے اکاؤنٹ بھر کر اس نے اپنے عزیز رشتہ داروں ، اپنے پیاروں کو تنگ کرناشروع کر دیا ۔ جب جی چاہتا اپنے عزیزوں پر جھوٹے پرچے کٹوا دیتا ، یہاں تک کہ اپنی ماں کو بھی آئے دن تھانوں کے طواف کرواتا رہا ۔ ایک دن پتہ چلتا ہے کہ ”سلیم سندھو“ صاحب اب ”ایڈو
وکیٹ سلیم سندھو “ بن چکے ہیں ۔

اپنے گھر کے گیٹ کے ساتھ دیوار پر ایک خوبصور ت اجلی نیم پلیٹ لگوائی جس پر کنداں تھا ”چودھری محمد سلیم سندھو ایڈووکیٹ ہائی کورٹ “ ایک گاڑی خریدی اور اس پر بھی یہی پلیٹ لگوائی اور کالاکوٹ پہن کر ٹھاٹھ سے کچہریوں میں اپنے چیمبر میں بیٹھ کر مقدمات لڑنے لگا ۔
بنیادی طور پر ”دو دماغ والا بندر “ ہونے کی وجہ سے کیسوں میں چالبازی دکھانے میں طاق ثابت ہوا ۔

اپنی جھوٹی وکالت کے ذریعے غریبوں اور بیواؤں کی جائیدادیں ہڑپ کیں ، کتنے ہی بے گناہ لوگوں پر جھوٹے مقدمات درج کروائے اور نجانے کتنے ہی مجبور لوگوں کا خون پیا ۔لیکن قانون ِ قدرت ہے کہ ہر فرعون کے لیے ایک موسیٰ ہوتا ہے ، جعل سازی اور دو نمبر دھندا میں یدِ طولیٰ رکھنے والے اس ”وکیل “ کی مخبری بار ایسوسی ایشن کے چیئرمین کو کر دی جاتی ہے ۔

چیئر مین کی جانب سے یکے بعد دیگرے یاد دہانی اور ملاقات کے نوٹس ملنے کے باوجود جب یہ صاحب بار میں حاضر نہ ہوئے تو بقیہ اصل وکلاء کا پارہ بھی اوپر اٹھنے لگا ۔ کچھ عرصہ بعد جب یہ صاحب اپنے چیمبر میں تشریف فرما تھے تو اردگرد کے غیرت مند وکلا ء نے اس کی خوب دھنائی کی ۔ لاتوں ، ٹھڈوں اور مکوں کے ساتھ ا سے ” وکالت “ کا مزہ چکھایا ۔ قانون اور تحفظ قانون کی نمائندگی کرنے والا ”کوٹ “اور ” ٹائی “ اپنی باقیات کے ساتھ اصل وکلاء کے پاؤں تلے روندی گئیں ۔

مقدمہ ہوا جیل ہوگئی اور اب چند روز قبل وہی صاحب دوبارہ اپنی رہائش گاہ پر متمکن ہیں۔
اوپر کی تمام داستان اور مغز ماری سے جو نتیجہ اخذ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں احتساب نام کی کوئی چیز باقی نہیں ۔ یہاں جرم ہوتا ہے اور مجرم چند روز جیل کی ہوا خوری کر کے واپس آجا تا ہے لیکن اس کے ہاتھوں شکار ہونے والی عوام کی عزت و زر کا کون ذمہ دار ؟
ایک جعلی وکیل کی سزا بس اتنی سی ؟ قانون کو اپنے پاؤں تلے روند کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا منہ چڑانے والا شخص اگر بِلا احتساب ِ دیگر دندناتا پھرے گا تو ایسے لوگو ں سے لٹ جانے والے افراد انصاف کے لیے کس عدالت کا رخ کریں گے ؟
حکومت پاکستان کو چاہیئے کہ نہ صرف سلیم سندھو بلکہ اس جیسے جتنے بھی دیگر جعلی وکیل موجود ہیں ان سب کی تصدیق کی جائے اور اُن کے ہاتھوں سے لٹنے والے عوام کی پائی پائی واپس دلوائی جائے ۔

اور اِ ن ناسوروں کو سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ ان کی آنے والی نسلیں بھی ایسے سنگین جرائم سے باز رہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :