باغ تو سارا جانے ہے

منگل 30 ستمبر 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

میں چند دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ہماری گپ شپ کے ساتھ ساتھ ٹی۔وی پر ایک ٹالک شو بھی چل رہا تھا ، جس کے مہمانو ں میں دو سرکاری محکموں کے سر براہ اور دو پروفیسرز تھے اور چاروں مہمان عمران خان کے دھرنے کی مخالفت پر ادھار کھائے بیٹھے تھے۔کوئی ان کے دھرنے کو دھرنی کہہ کر اپنے مزاج کی شگفتگی کا مظاہرہ کر رہا تھا، کسی کو شکایت تھی کہ عمران خان عورتوں اور بچوں کو اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور کسی کو شکوہ تھا کہ عمران خان خود تو بنی گالہ چلے جاتے ہیں۔

الغرض چار و ں مہمان عمران خان کی مخالفت میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی دوڑ میں لگے ہوئے تھے۔ صاحب خانہ آفتاب نے یہ کہتے ہوئے چینل تبدیل کرنا چاہا کہ مجھے اپنے پڑھے لکھے لوگوں کی سوچ پر افسوس ہوتا ہے،جو میاں برادران کی لوٹ کھسوٹ کا رونا بھی روتے ہیں اور عمران خان کی مخالفت کسی دلیل کے ساتھ کرنے کے بجائے اُن کے دھرنے کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔

(جاری ہے)


میں نے اُن سے کہا۔”بھئی ! یہ بھی تو دیکھیں۔عمران خان کا مذاق اڑانے والے کون لوگ ہیں؟چاروں پنجاب گورنمنٹ کے ملازم ہیں اورخادم اعلیٰ جناب شہباز شریف کی اصلیت دیکھنی ہو تو عاصم ملک کی کہانی4 ستمبر کے ’کھرا سچ‘ میں دیکھ لیں۔“سعد رفیق، پرویز رشید ، رانا ثنا اللہ ، یا خواجہ آ صف ،عمران خان کے خلاف اپنی زبان دانی کے جو جوہر دکھاتے اور لوگوں سے گالیاں کھاتے رہتے ہیں۔

کسی نے کبھی ان کی مجبوریوں پر بھی غور کیا ہے ؟
خوشامد اُس بت سفاک کی کِس کو خوش آتی ہے
کوئی کیا شوق سے کرتا ہے مجبوری کراتی ہے
جھوٹ تو ہمارے معاشرے کی نس نس میں دوڑ رہا ہے، وزیر اعلیٰ پنجاب نے 18 ستمبر کے دن لاہور کے جلسے میں دور دور تک لوگوں کے سر ہی سر دیکھ کر کہا ہے۔ ”دھرنے والے اٹھارہ کروڑ عوام پر رحم کھائیں ۔

“ خادم اعلیٰ کو یہ کہتے ہوئے ذرا بھر جھجک محسوس نہیں ہوئی کہ خود اُن کے خاندان نے گزشتہ 30۔35 برسوں میں پاکستان کے عوام پر کتنا رحم کیا ہے ؟سب جانتے ہیں ۔ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ خادم اعلیٰ تو ہمیشہ سوچے سمجھے بغیر ہی جو مُنہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں۔ انہوں نے زرداری کے لئے کیا کچھ نہیں کہا تھا۔پھر اُس کھانے میں بھی یقیناً شریک ہوئے ہوں گے،جو بڑے میاں صاحب نے زرداری کے اعزاز میں دیا تھا اور جس کی تفصیل بڑی شاہانہ بتائی جاتی ہے۔

ایسے تضاد ات پر ہی کسی نے کہا ہو گا۔” اندھا کتا ہوا کو بھونکے “
اُن صحافیوں پر بھی حیرت ہوتی ہے۔ جو عوام کی بیداری کو،پاکستان سے لے کر بیرون ملک تک ’گو نواز گو ‘ جیسے حق کے امین نعروں کو خا طر میں نہ لاتے ہوئے بڑی ڈھٹائی سے تحریک انصاف کی کی تحریک کو ”لندن پلان“ کا نام دے کر، اسے کسی بیرونی سازش سے منسوب کرنے کی کوشش میں ننگے ہوئے جا رہئے ہیں۔

جنرل بیگ تو عمر کے اُس حصے میں ہیں کہ انہیں یہ کہہ کر معاف کیا جا سکتاہے کہ بے چارے سٹھیا گئے ہیں۔ لیکن میاں برادران کے ان حاشیہ پردار و ں کے لئے کہا جائے جو خادم اعلیٰ کے، تباہ حال بھوک سے بے تاب سیلا ب زدگان کے لئے خالی دیگوں کے ساتھ ، فوٹو سیشن کرانے پر تحسین کا اظہار ہی نہیں کرتے ، سیلا ب زدگان کے لئے خادم اعلیٰ کی مسلسل بھاگ دوڑ کا اپنی گواہی کے ساتھ ذکر کرتے ہیں کہ جب سے سیلاب آیا ہے، چھوٹے میاں صاحب کو انہوں نے انہوں نے آرام فرماتے نہیں دیکھا۔

اورچاہتے ہیں کہ لوگ بھی خادم اعلیٰ کے نا کردہ کار ناموں کے مداحین بن جائیں اور اُن کی عوام دوستی پرواہ واہ کریں۔لیکن لوگ ہیں کہ وہ اس بات کو بھولتے ہی نہیں کہ یہ سیلاب اچانک نہیں آ گئے ، گزشتہ کئی سالوں سے غریب عوام کو تباہ و برباد کر رہے ہیں اور خادمِ اعلیٰ نے اپنے صوبے کو سیلاب سے بچانے کے لئے عملی طور پرکیا کچھ کیا ہے ؟ غریب ملکوں میں قومی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ترجیحات کو پیمانہ بنایا جاتا ہے۔

جب کہ ہمارے وزیر اعلیٰ صاحب کے شوق ہی نرالے ہیں۔انہوں نے اربوں روپئے سستی روٹی کے منصوبے پر ،اربوں روپئے لیب ٹاپس پر، ایک سو ارب سے زیادہ مریم نواز صاحبہ کو بے نظیر بھٹو بنا نے کی کوشش ناکام پر اور جنگلہ بس کے منصوبے پر خرچ کر دئے ہیں۔ لوگ بجا طور پر اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اتنے سرمائے سے چند چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کر غریب عوام کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ لیکن کیا مجال ہے کہ کوئی حاشیہ بردار صحافی اپنے کسی کالم میں حکومت کی ان بد نظمیوں کا ذکر بھی کر جائے۔

کچھ لوگ ایک سوال یہ بھی اٹھا رہے ہیں کہ سارے منصوبے ایسے ہی کیوں بنائے جاتے ہیں جن میں سریا استعمال ہوتا ہے ؟ اس راز کوسب جانتے ہیں۔لیکن بات وہی کرتے ہیں جو لفافے کی گرفت سے آزاد ہیں۔
بڑا شور ہے کہ عمران خان کے دھرنے سے پاکستان کو بہت نقصان ہوا ہے۔ ہمیں تو کوئی نقصان نظر نہیں آرہا سوائے اس کے کہ لوگ اپنے حق کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور”گو نواز گو “ کا نعرہ کسی آسیب کی طرح میاں خاندان کا پیچھا کرنے لگا ہے۔

دو دن پہلے جو کچھ حمزہ شریف کے ساتھ الحمرہ میں ہوا ہے ؟ وہ باعث عبرت ہے۔اس کے علاوہ ان دھرنوں کے دُور رَس قومی مفادات اور مثبت تبدیلیوں کی طرف صرف وہی لوگ دیکھ رہے ہیں جو پاکستان کے موجودہ نظام کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔ جو ایک عام پاکستانی کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں تو ان دو خاندانوں کی ملی بھگت نے درمیانہ طبقہ ہی ختم کر دیا ہوا ہے۔


میاں نواز شریف نے جنرل اسمبلی میں کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے جو تقریر کی ہے،اُس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔جب کوئی اچھا کام کرے تو نیشنل ازم کا تقاضہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کی تعریف کی جائے، ورنہ کیا یہ وہی میاں نواز شریف نہیں ہیں جن پر الزام ہے کہ انہوں نے نریندر مودی سے کہا ہے کہ ہم کشمیر پر بات نہیں کریں گے۔جن پر یہ الزام بھی ہے کہ انہو ں نے اندر گجرال کو فون کر کے ، کشمیری مجاہدین کی لسٹ فراہم کی تھی۔

جن کے بارے میں بالی ووڈ کی غیر معروف اداکارہ دلشاد بیگم ( فیروز خان کی بہن جو خوبصورت یقیناً تھی ،ہو سکتا ہے اس میں کچھ اثر آ فریں نسوانی خوبیاں بھی رہی ہوں۔ ) نے ایک انڈین اخبار کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا تھا۔ ”میں نے پاکستان کی ایک اہم شخصیت سے کہہ کر کشمیر پر پاکستان کی پالیسی تبدیل کروا دی ہے “ وہ اہم شخصیت میاں نوا شریف تھے جو دلشاد کی مہنان نوازی سٹیٹ گیسٹ کے طور پر کر چکے ہوئے تھے۔

اب اچانک ہی انہیں امریکہ اور انڈیا کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کا راستہ کس نے دکھایا ہے ؟ اس سوال کا جواب میں نہیں دوٴں گا۔آپ خود سوچیں کہ میاں صاحب کو یہ راستہ کن حالات نے دکھایا ہے ؟
بظاہر تو میاں صاحب کندھے اچکاتے ہوئے یہ بیان بھی داغ چکے ہوئے ہیں کہ سمجھ نہیں آتی کہ میرے خلاف یہ دھرنے کیوں دئے جا رہے ہیں۔آ خر میرا قصور کیا ہے ؟ چند دن پہلے نیوز ایڈیٹر اُردو پوائنٹ نے میاں صاحب کے اس بیان کے حوالے سے جو خبر لگائی تھی،اُس میں میاں صاحب کے اس سوال کے جواب میں ایک بہت ہی خوبصورت جملہ لکھا تھا، مجھے وہ جملہ بہت پسند آیا تھا۔

بیڑا غرق ہو ”کیمو“( کینسر کے لئے ٹریٹ منٹ) کا ،جو میری یاداشت پر بری طرح حملہ آور ہے۔رات کا کھایا صبح یاد نہیں رہتا۔بہر کیف میں نیوز ایڈیٹر اُردو پوائنٹ کے اس جملے کی کمی کو میر کے ایک شعر سے پُر کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
پتّا پتّا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
اب بھی موصوف انگلینڈسے امریکہ کے لئے روانہ ہوتے ہوئے حالات سے بلا کی چشم پوشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک یہ بیان بھی دے گئے ہیں۔

” لندن پلان بری طرح ناکام ہو گیا ہے “ سوال ہے اگر کوئی لندن پلان ہے ؟ تو میاں صاحب نے اُس کی ناکامی کہاں دیکھ لی ہے ؟میں کسی بحث میں پڑنے کے بجائے صرف یہ کہوں گا۔غریب قوم کے ہمارے لیڈران شرو ع ہی سے ہر حکومت کے خلاف اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لئے لندن میں اکٹھے ہوتے رہے ہیں۔بقول ڈا کٹر طاہر القادری کے وہ پاکستان آتے ہوئے انگلینڈ میں رکے۔

عمران خان بھی اتفاق سے لندن میں تھے۔ان کی ملاقات ہو گئی۔ ہو سکتا ہے کہ اپنی اپنی تحریک کے بارے میں ان کی گفتگو بھی ہوئی ہو اور کوئی پروگرام بھی طے پایا ہو۔عمران خان تو ایک مدت سے کہتے چلے آ رہے تھے کہ اگر میرے مطالبات حکومت نے یا متعلقہ اداروں نے نہ مانے تو ہم سڑکوں پر نکلیں گے۔ رہے ڈاکٹر طاہر القادری تو وہ اس سے پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران بھی موجودہ نظام ِ حکومت کے خلاف دھرنا دے چکے تھے۔

جو پیپلز پارٹی کی شاطرانہ حکمتِ عملی کا شکار ہو کر ناکام ہو چکا تھا۔ظاہر ہے انہوں نے بھی نظام حکومت کے خلاف ایک کوشش اور کرنی تھی۔ ایسے حالات میں ”لندن پلان “ کا پروپیگنڈہ کھسیانی بلی کھمے نوچے والی بات ہے۔
لندن ہی میں پاکستانی قوم کے خلاف ”این۔آر ۔او“ کے نام سے سازش بھی ہوئی تھی۔جس سازش سے قوم کو ہزاروں ارب روپئے کا نقصا ن ہوا تھا۔

اب آپ ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے سوچیں اور فیصلہ کریں۔مسلم لیگ (ن)کے ڈھولچیوں کے مطابق ”لندن پلان“ سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔یا ”این آر۔او “ سے ؟ جس کا نقصان ہنوز ہو رہا ہے۔” این۔آر۔او“ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں ایک دوسرے کی اپوزیشن نہیں کریں گے۔ایک دوسرے کی لوٹ کھسوٹ پر انگلی نہیں اٹھائیں گی۔

ظاہر ہے، اگر پاکستانی قوم اپنے حقوق کے لئے بیدار نہ ہوئی تو اس لوٹ کھسوٹ کا احتسا ب کون کرے گا اور اگر منصفانہ احتساب نہیں ہو گا تو کرپشن کا یہ ظالم پہیہ کیسے رکے گا ؟ یقین کریں پاکستان اسی طرح ہمیشہ لٹتا رہے گا،غریب غر یب تر اور بے ایمان امیر امیر تر ہوتا رہے گا َ ۔پاکستان پر قابض لوگوں کے غریبوں کے خلاف اسی ظلم کو دیکھتے ہوئے ، گریبوں کے مسیحا فیض # صاحب نے ”صبح آزادی“ کے نام سے چند آنسو بہائے تھے۔


یہ داغ داغ اجالا ،یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا،یہ وہ سحر تو نہیں اس نظم کا آ خری بند ہے۔
ابھی چراغ سرِ راہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیِ شب میں کمی نہیں آئی
نَجات ِدیدئہ ودل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ گھڑی ابھی نہیں آئی پاکستان ہر دور میں لٹتا رہا اور مفلسی و بے بسی کے شکار لوگوں کا مسیحا، ’تخت اچھالے جائیں گے‘ کی آواز بلند لرتے کرتے نومبر ۸۴ ۱۹ ء ء میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملا۔

ان کے بعد بھی سچائی کے امین ادبا اور شعرائے کرام مفلسی کے شکار لوگوں کی وکالت کرتے رہے ہیں۔لیکن نظام حکومت پر قابض درندوں اور ان کے منشیوں نے کسی کی نہیں چلنے دی۔میں کسی خبیث ظالم کا حا شیہ بردار نہیں ہوں کہ اپنی گواہی دے دے کر لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کروں کہ میاں برادران عوام کے بڑے ہمدرد ہیں۔جنہوں نے پاکستان کو لوٹ لوٹ کر اپنے خاندان کی بزنس ایمپائر آدھی دنیا میں پھیلا دی ہے۔

میری پارٹی میرا پاکستان اور پاکستان کے غریب لوگ ہیں۔میرا لیڈر وہی ہے جو غریبوں کے بارے میں بات کرتا ہے۔جو عدل و انصاف کی بات کرتا ہے۔
”عمران خان کو الزام لگانے کے لئے ثبوت کی نہیں مائیک کی ضرورت ہوتی ہے۔“( وزیر اطلاعات ) میاں برادران حکومت میں ہیں اور جس طرح قانون کے سینے پر مونگ دل رہے ہیں۔وہ سب کے سامنے ہے،ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود سانحہ ماڈل ٹاوٴن کی انہوں نے ایف۔

آئی۔آر نہیں کٹنے دی تھی۔بعد میں جب میاں صاحب نے جنرل راحیل شریف کو اس معا ملے کو نپٹانے کے لئے درخواست کی تو جناب راحیل شریف کے حکم پر ایف۔آئی۔آر کٹ گئی ہے۔الغرض میاں صاحب جس بیدردی کے ساتھ ملک میں عدل و انصاف کا مُنہ کالا کر رہے ہیں۔اُس کی داستان طویل ہے۔میرا پرویز رشید صاحب سے ایک سوال ہے کہ وہ عمران خان کو الزامات کے ثبوت دینے کے لئے ، اپنے آقاوٴں کی کسی طابعدار عدلت کے حوالے کیوں نہیں کر دیتے ۔

لیکن پرویز رشید کے آقا بڑے سمارٹ لوگ ہیں۔اپنے خلاف کسی بھی کرپشن کے الزام کو وہ عدالت میں لے کر نہیں جاتے۔ ان کو بس ایک ہی بات کا خوف اپنے خلاف کرپشن کے الزامات کے سامنے اونچی سانس لینے کی اجازت نہیں دیتا ،وہ یہ کہ اگر کرپشن کی گٹھڑی کھل گئی تو پھر۔۔۔ بات بہت دُووور تلک جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :