داعش آ نہیں رہی داعش آ چکی ہے

ہفتہ 4 اکتوبر 2014

Jahid Ahmad

جاہد احمد

بات یقینا اتنی سیدھی نہیں کہ موجودہ نظام کو گول کر کے نیا نظام اور نیا پاکستان تخلیق کرنا ہے۔بات اتنی سادہ بھی نہیں کہ’ مصورِ نیا پاکستان‘ کے برسرِاقتدار آتے ہی قومی مسائل چھو منتر ہو جائیں گے کیونکہ بات اگر اتنی ہی آسان ہوتی تو خیبر پختونخوا آج نئے پاکستان کے ماڈل کے طور پر باقی ماندہ صوبوں کے عوام کی آنکھیں چکا چوند کر رہا ہوتا پر حقیقت اس کے عین برعکس ہے!زمینی حقائق یہ ہیں کہ تحریکِ انصاف کے چیئرمین الہ دین چراغ کے جن نہیں جو چٹکی بجاتے ہی تمام مسائل حل کر دیں گے۔

پاکستان تیسری دنیا کا پچھڑا ہو ا ملک ہے۔ ایسا ملک جوبنیادی قسم کے مسائل میں گھرا ہے۔ ایسے مسائل جو پاکستان کو خانہ جنگی اور پر تشدد کاروائیوں کے پروان چڑھنے کے لئے انتہائی سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں!
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
اڑھائی فیصد سالانہ کے حساب سے بے قابوہوتی آبادی، آبادی کے تناسب سے وسائل کی کمیابی،ملکی بنیادی ڈھانچوں میں سرمایہ کاری کا فقدان، معیاری تعلیم کی غیرمناسب و ناکافی سہولیات، بے روزگاری،نوجوانوں کی پرتشدد نظریاتی تربیت، فرسودہ تعلیمی نصاب، بدحال معیشت، دہشتگردی، فرقہ واریت، تاریخی اعتبار سے متنوع اقوام کی موجودگی، نسلی تعصب، صحت کی ناقص سہولیات، خوراک و پانی کی کمی، وبائی امراض کا پھیلاؤ، عالمی سیاست و تعلقات میں کمترمقام اور محدود سوچ کی حامل شخصیت پرست و تماش بین بکھری قوم اس سازگار ماحول کے خاص خاص عوامل ہیں!ایسے ماحول میں تبدیلی، نظام، حقوق اور آزادی کے نام پر ذاتی مفادات کی سیاست،شخصی نفرت کا ابھار، جوشِ خطابت، انارکی ، انتشار، تشدد اور خانہ جنگی کی سی صورتحال پیدا کرنا شعور و عقل کے منافی اصولوں پر دلیل ہے۔

(جاری ہے)

اس طریقِ سیاست کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں کہ یا تو عمران خان پاکستان کے بنیادی حقائق سے مکمل نابلد جبکہ اس طرزِ سیاست کے نتائج کو سمجھنے سے بالکل پیدل ہیں اور تمام اقدامات محض احمقانہ دنیک نیتی کے زمرے میں اٹھاتے چلے جا رہے ہیں یا پھر سفاکانہ حد تک جانتے بوجھتے ہوئے انہی بنیادی حقائق و عوامل کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے بھرپور طریقہ سے استعمال کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔

حالات و واقعات کا بغور تجزیہ کیا جائے تو موخرالذکر وجہ ازحد درست معلوم ہوتی ہے۔ انتخابات کے بعد تحریکِ انصاف کی سیاسی کارکردگی پر نگاہ دوڑائیں تو اس جماعت نے پوری شدت سے طالبان بھائیوں کے سیاسی بازو ہونے کا پورا پورا حق ادا کیا ہے۔ اسلام آباد میں ریاست پر چڑھ دوڑنے کا مظاہرہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ عوام کو تشدد پر اکسا کر، حق و باطل کے نعرے مار کر ریاستی اداروں کے سامنے کھڑا کر دینا، متشدد حکمتِ عملی اپنا کر حکومت اور ریاست کو کمزور ثابت کرنا، غیر آئینی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے ذاتی نوعیت کے مطالبات پربدمعاشی کی حد تک ہٹ دھرمی دکھانا انتہائی سنگین حالات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

غیر آئینی طریقہ سے حکومت کا واقعتا کمزور ہونا یا کمزوری کا تاثر ابھارا جانا بھی کسی صورت باعثِ افتخار فعل نہیں۔ پاکستان کے معروضی و معاشرتی حقائق کے پیش نظر ایسے حالات پاکستان کودھیرے دھیرے تصادم کی جانب لے جانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسا ماحول گرم ہونے میں دیر نہیں لگے گی جہاں مخالف سیاسی جماعتیں برداشت ترک کر کے تصادم کی راہ پر چل نکلیں۔

تب غیر سیاسی، غیر جمہوری ،علیحدگی پسند، مذہبی و انتہا پسند اور فرقہ پرست قوتوں کو اپنے مقاصد کے حصول کا سنہری موقع نظر آنے لگے گا۔ملک بھر میں ایسے گروہ کثرت سے موجود ہیں جو پاکستان کی اپنے نظریے اور سوچ کی بنیاد پرازسرنو تعمیر کرنے کی خواہش دل میں رکھتے ہیں اور جمہوری نظام کو مذہب سے متصادم قرار دیتے ہیں۔ ہر ایسے گروہ کی جیب میں ایک نئے پاکستان کا نقشہ اور اپنے نظریے کی تکمیل کی خاطرمن میں کچھ کر گزرنے کی تمنا دیے کی مانند جل رہی ہے۔

شدت پسندی سے جڑے بین الاقوامی معاملات اور عراق و شام کی صورتحال ہر ذی شعور پاکستانی کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ عراق اور شام میں فرقہ واریت اور سیاسی عمل کی ناپختگی اور حکومت کی کمزوری نے خانہ جنگی کو ہوا دی اور فرقہ پرست گروہ داعش کو موقع فراہم کیا کہ یہ عراق اور شام کے علاقوں میں قبضہ کر کے اپنے نظریہ پر اسلامی خلافت کا قیام کرے۔ خانہ جنگی کی صورتحال میں فرقہ پرستی اس حد تک بڑھی کہ عراق کی قریباٌ ڈھائی لاکھ فوج ضروری کیل کانٹے سے لیس ہونے کے باوجود حالات کو قابو کرنے میں ناکام ہوئی اور بنیاد پرست جماعت داعش بیس سے تیس ہزار لڑاکوں کے ہمراہ تیل کی دولت سے مالا مال علاقوں پر قابض ہو کر اپنی علیحدہ ریاست قائم کرنے میں کامیاب بھی ہوئی اور اس کا دفاع کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔

فوج چاہے کتنی بھی مضبوط ہو صرف ایک حد تک حالات قابو میں رکھ سکتی ہے۔ معاملات خرابی کی طرف مائل ہوں تو مذہبی و فرقہ پرست عناصر افواج میں بھی شکست و ریخت کا سبب بنتے ہیں۔ عراقی افواج بھی اسی ہیجان کا شکار ہوئیں جہاں فرقہ پرستی عراقی قومیت پر حاوی ہوئی اور کئی محاذ پرعراقی افواج چند سو لڑاکوں کا مقابلہ کرنے سے بھی قاصر رہیں یا محاذ سے پیچھے ہٹ گئیں۔

اس معاملے پر بھی پاکستان کے حالات قدرے مختلف نہیں۔ ماضی قریب و بعید میں سیکیورٹی اداروں پر داغی گئی متعدد دہشت گرد کاروائیوں میں اندرونی ہاتھوں کے ملوث ہونے کے اشارے ملتے رہے ہیں۔
گزشتہ کئی ہفتوں سے خیبر پختونخوا میں داعش کی موجودگی کی خبریں سامنے آ رہی ہیں جو کہ کسی بھی ذمہ دار حکومت اور جماعت کے سربراہ کو ہلا دینے کے لئے کافی ہے ۔

تو خان صاحب توجہ فرمائیے۔ داعش آ نہیں رہی، داعش آ چکی ہے!! لیکن زیادہ گھمبیر صورت یہ ہو سکتی ہے کہ’ مصورِ نیا پاکستان‘ آنے والے دنوں میں طالبان کی طرح خیبرپختونخوا میں داعش کے بھی باقاعدہ دفاتر کھولنے کا مطالبہ پیش کر دیں! یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس مرتبہ مطالبہ منوانے کی خاطر دھرنا ورنا بھی دیا جائے۔
پاکستان کو کسی نئے نظریے کی آڑ میں خانہ جنگی، قتل و غارت گری، ملک کی مزید تقسیم و شکست و ریخت اور شخصی آمریت کی نہیں بلکہ نظام میں بہتری لاتے ہوئے جمہوری نظام کے تسلسل سے چلتے رہنے کی ضرورت ہے۔

تیسری دنیا کے ممالک کے لئے بھی جمہوریت بہترین انتظام ثابت ہو سکتی ہے جس کی بڑی مثال ہمارا ہمسایہ بھارت ہے۔ برٹ رینڈ رسل نے کہا تھا:
In democracy fools have the right to vote and in dictatorship fools have the right to rule.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :