مسئلہ کشمیراور اقوام متحدہ

بدھ 15 اکتوبر 2014

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

بھارتی حکومت نے اقوام متحدہ کی جانب سے پاکستان کے خط کا مثبت جواب نہ ملنے کو اپنے ملک کی بہت بڑی فتح سے تعبیر کرتے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر برائے خارجہ امور و قومی سلامتی سرتاج عزیز کے اُس مراسلے کو لغو قرار دیا جس میں انہوں نے عالمی ادارے کی توجہ کنٹرول لائن پر پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی طرف دلائی اور کہا کہ اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کیلئے اپنا کردارادا کرے۔

سرتاج عزیز نے خط میں بان کی مون کو لکھا تھاکہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باونڈری پر بھارت کی جانب سے جنگ بندی معاہد ے کی سوچی سمجھی خلاف ورزی کے باعث سلامتی کی مخدوش صورتحال کی جانب وہ فوری طور پر انکی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں۔
پاکستان نے طویل مدت کے بعد سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ پر زور دیا اور قراردادوں کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

(جاری ہے)

سلامتی کونسل کی کشمیر پر قراردوں کے مطابق جموں و کشمیر میں استصواب رائے کے ذریعہ وہاں کے عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کیا جانا تھا۔ لیکن افسو س ہے کہ ان قراردادوں پر آج تک عمل نہیں کرایا گیااور یہ قراردادیں اب تک اقوام متحدہ میں جوں کی توں ہیں۔ پاکستان تواتر کے ساتھ ان قراردادوں پر عمل در آمد کی یاد دہانی کراتا رہا تاکہ خطہ میں پائیدار امن کو یقینی بنایا جاسکے۔

لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ بھارت نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے سے روگردانی کرتا ہے بلکہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا کسی بھی لحاظ سے خواہاں بھی نہیں ہے۔ جب بھی مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کی بات ہوتی ہے تو بھارت ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کنٹرول لائن پر پاکستانی چک پوسٹوں اور آزاد کشمیر کی شہری آبادی پر گولہ باری شروع کرتا ہے یا اپنے ملک کے اندر کوئی بم دھماکہ کروانے کے بعد مذاکرات کی کوشش کو ناکام بناتا ہے۔

اس مرتبہ بھی دونوں ملکوں کے درمیان خارجہ سیکرٹری کی سطح پر مذاکرات طے تھے تو بھارت نے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا سلسلہ شروع کردیا جو اب تک جاری ہے اور فائرنگ میں پہل کرنے کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے کسی بھی قسم کے مذاکرات کو مسترد کردیا۔بھارت نے2014ء کے دوران اب تک لائن آف کنٹرول پر 174 اور ورکنگ باونڈری پر 60 بار سیز فائر کی خلاف ورزی کی۔

بھارت اقوام متحدہ کے ملٹری اوبزرور گروپ کو بھی لائن آف کنٹرول کے علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دے رہا تاکہ اُس کے چہرے سے نقاب نہ اُٹھ جائے۔
اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے تو اقوام متحدہ پھر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے اقدام کرے گا یا پھر بھی اُس کا یہی موقف ہوگا کہ دونوں ملک اِس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے مل بیٹھ کر حل کریں، اور جنگ جھڑنے پر جو تباہی آئے گی اُس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ اگر اقوام متحدہ کا یہ خیال ہے کہ اُسکی قراردادیں پرانی ہوچکی ہیں، لیکن مسئلہ کشمیر پرانا تو نہیں ، یہ مسئلہ کشمیر ہی ہے جسکی وجہ سے تقریباً ایک لاکھ کشمیری گزشتہ دو دہائیوں میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں، آئے روز لائن آف کنٹرول پر پاکستانی اور بھارتی فوجیوں کے درمیان گھمسان کی فائرنگ کا تبادلہ ہوتا ہے اور خطے میں کشیدگی کا سبب بھی مسئلہ کشمیر ہی ہے۔

اِس لئے اگر اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر پر خاموش تماشائی بنا ہے تو یہ ایک المیہ ہے۔ اقوام متحدہ کو نہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض افواج کی بربریت نظر آرہی ہے اور نہ ہی بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر آزاد کشمیر کی شہری آبادیوں پر مسلسل فائرنگ، اس کے باوجود وہ امن قائم کرنے والا چمپین بنا بیٹھا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کے سیاسی مشیر پروفیسر ہری اوم نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے سرتاج عزیز کے خط کا نوٹس نہ لینا مسئلہ کشمیر پر مداخلت سے کُھلا انکار ہی نہیں بلکہ پاکستان کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔

ہری اوم کو اِس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کشمیریوں کا خون ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا ہے، اگر کشمیری نوجوانوں نے نوے کی دھائی میں بندوق اٹھائی تھی تو وہ اب بھی اٹھا سکتے ہیں اور بھارت کو ایک مرتبہ پھر ناخوں چنے چبوانے کا گُر جانتے ہیں۔ اگر بھارتی حکمرانوں کے مطابق کشمیر کا مسئلہ نام نہاد ہے اور وہاں پرامن صورتحال ہے تو پھر وہاں سات لاکھ فوج تعینات رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ کشمیر ایک مسئلہ تھا ہے اور اُس وقت تک رہے گا جب تک اِس مسلئے کو کشمیریوں کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق حل نہیں کیا جاتا۔

بھارت کچھ بھی کرے اُس کو یہ مسئلہ حل کرنا ہوگا وگرنہ آگ بجھی نہیں ، کشمیر میں سلگنے والی آگ نہ صرف بھارت کی تمام ریاستوں بلکہ جنوبی ایشیا کے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ اُس کے بعد اقوام متحدہ کو بھی ہوش آجائے گی ور مسئلہ کشمیر کو ایک سنگین مسئلہ سمجھتے ہوئے اپنا کردارادا کرنے کیلئے آگے آئے گا۔ اگر اقوام متحدہ جنوبی ایشیا کے خطے اور دنیا بھر میں واقعی امن کا خواہاں ہے تو اُسے مسئلہ کشمیر کی سنگینی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اِسے حل کرنے کیلئے فوری اقدام کرنا ہونگے، کہیں یہ نہ کہنا پڑے ، بہت دیر کردی مہرباں آتے آتے!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :