تبدیلی کے بغیر ترقی ممکن نہیں

جمعہ 17 اکتوبر 2014

Israr Ahmad Raja

اسرار احمد راجہ

پاکستان کے حالات کس نہج پر جا رہے ہیں؟ ان کا اختتام کیا ہوگا ؟ کیا کوئی خوشگوار تبدیلی متوقع ہے یا محض چند لیڈروں کی ذاتی لڑائیاں میں غربت افلاس اور مصیبت کی ماری عوام کے دکھوں میں اضافہ ہی ہونے والا ہے؟ حکومت رہے گی یا نہیں ؟ فوج آئے گی یا مڈ ٹرم الیکشن ہوں گے ؟ یہ وہ تمام سوالات ہیں جو پاکستان کا ہر فرد پوچھ رہا ہے ؟ چند روز سے اپنی پیشہ وارانہ سرگرمیوں کے سلسہ میں دینا پر حکمرانی کرنے والے اور خاص طور پر اسلامی دنیا کو اپنے اشاروں پر نچانے والے ملک امریکہ بہادر میں موجود ہوں۔

یہاں آ کر پاکستان،انڈیا اور دیگر اسلامی ممالک سے آئے ہوئے باشندوں سے ملاقات ہوئی جن کی زبان پربھی وہی سوالات تھے۔جس طرح پاکستان کے اندر بسنے والے ان سوالات کے جوابات اپنی اپنی مرضی اور پسند سے تلاش کرتے ہیں یہاں بھی پاکستانیوں سے ایسا ہی سننے کو ملا۔

(جاری ہے)

مگر دیگر ممالک کے لوگوں میں سے ایک بزرگ نے کہا کہ آپ کے ملک میں مسائل دائرہ اختیار سے تجاوز کی وجہ سے ہیں ۔

مجھے اس بزرگ کی بات حقیقت کے بہت قریب لگی۔ قدرت کا بھی یہی اصول ہے کہ تمام سیارے اپنے مقرر کردہ محور میں گھوم رہے ہیں۔ توازن بگڑنے سے قیامت برپا بھی اس حدود کی پامالی سے ہی ہو گی۔ خیر بات کسی اور طرف چل پڑی پاکستانی قوم کا ایک خاصہ ہے یہ جلد باز اور وقتی فائدے کو ترجیع دیتے ہیں۔ محض وقت گزانے کے لیے انتہائی اقدامات اٹھا لیتے ہیں۔

بنا یہ سوچے کہ مستقبل میں ان اقدامات کا کیا فائدہ یا نقصان ہونے والا ہے۔ پاکستانی قوم اس وقتی،جلدی اور فوراََ کے چکر میں 67 سالوں سے نقصان اٹھا رہے ہیں اور معلوم نہیں آگے اور کتنا مزیدنقصان اٹھاتے رہیں گے۔ یہ ہمارا بحثیت قوم المیہ ہے۔ ملک میں آنے والے ہر فوجی آمر نے سیدھی اور معصوم ( سیاسی شعور) قوم کو سبز باغ دکھائے عوام نے نعرے لگائے ،بلے بلے کی ۔

جب تک آمریت قائم رہی بیرونی دنیا اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہمیں استعمال کرتے رہے اور اس کا رینٹ دیتے رہے۔ پیسہ آتا رہا خواص عیاشیاں اور عوام کو بھہنگ پلا کے مدہوش کیے رکھا۔بظاہر پیسے کی ریل پیل اور ترقی نظر آتی رہی مگر حقیقت میں اندر سے کھوکھلا کرتے گے۔ بیرونی آقاوں کا ایجنڈا پورا ہونے کے بعد آمر کو جانا ہوتا ہے ۔ جس سے بیرونی کمک بھی رک جاتی ہے اور عوام پر غربت اور افلاس آشکار ہونے لگتی ہے۔

ایسے میں جمہوری حکومت کا ظہور ہو چکا ہوتا ہے لہٰذا سارا ملبہ جمہوریت اور سیاسی جماعتوں پر پڑھ جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ سیاسی جماعتیں یا جمہوریت پسند لیڈراس فعل میں حصہ دار نہیں یا معصوم ہیں ۔ ہمارے پڑوس میں ہم سے زیادہ کرپشن ، غنڈہ گردی، پولیس گیری وغیرہ وغیرہ موجود ہے مگر وہاں جمہوریت چل رہی ہے وہاں کوئی ایڈونچرازم نہیں ہو رہا اس لئے وہ ہمارے ساتھ آذاد ہو کر آج ہم سے ترقی میں کئیں گناہ آگے ہیں۔


آصف علی زرداری صاحب سے ہزار اختلاف سہی ،طرز حکمرانی میں ہزار خامیاں سہی ، مگر آمر کے جانے کے بعد حکومت سنبھالنا اور پھر پاکستان میں پانچ سال پورے کرنا واقعی ہی ایک کارنامہ ہے۔ بیشک عدالتوں کے چکروں میں دو وزرائے اعظم بدلے مگر پانچ سال پورے کر لئے۔ پاکستان میں ہونے والے انتخابات ہمیشہ سے ہی تنقید کا نشانہ بنتے رہے۔ اس بار ایک جمہوری حکومت نے نگران حکومت کو تشکیل کیا اور اعلیٰ عدلیہ کی نگرانی میں تمام جماعتوں کی مرضی سے الیکشن کمیشن تشکیل دیا گیا۔

ان انتخانات پر بھی تمام جماعتوں نے ہمیشہ کی طرح تحفظات کا اظہار کیا اور دھاندلی کے الزامات بھی لگاے گے ۔ اب اسمبلی میں بیٹھی سیاسی جماعتوں کا کام بنتا تھا کہ ہر بار دھاندلی کا الزام لگانے کی بجاے ایسے اقدامات کریں جن سے مستقبل میں ان قباحتوں سے بچا جا سکے۔ مگر ایسا نہ ہوا بلکہ علامہ طاہر القادری نے حسب سابق کینیڈا سے اعلان انقلاب کر دیا اور عمران خان صاحب نے لاہور کی سڑکوں پر آذادی مارچ شروع کر دیا۔

دھرنے ،احتجاج اور ریلیاں جمہوری حکومتوں میں ہوا کرتی ہیں۔ لہٰذا حکمرانوں کو پریشر میں رکھنے کے لیے یہ بھی ضروری ہوتے ہیں۔ یہ انقلابی اورآزادی مارچ ،دھرنے کس کے کہنے پر کیوں ، کب کیسے یہ وہ بحث ہے جس کا کوئی واضح جواب نہیں مل سکتا، چونکہ سیاست دانوں نے ماننا نہیں اور انوسٹر کبھی سامنے آتا نہیں۔ لہٰذا اس مسلے کے حل کی طرف جانا چاہیے۔


عمران خان اور علامہ کے مارچ اور دھرنوں میں لوگ کیوں نکلے؟ پھر لاہور،کراچی ،ملتان،فیصل آباد لوگ کیوں اتنی بڑی تعداد میں آئے؟ یہ وہ سوال ہیں جو میاں نواز شریف سے ہر با شعور شخص پوچھ رہا ہے ؟ اگر حکومت اپنے فرائض پوری طرح نبھا رہی ہوتی ، عوام کے مسائل حل ہو رہے ہوتے ، غریب کا چولہا جل رہا ہوتا تو عوام اتنی بڑی تعداد میں آپ کی مخالفت میں نہ نکلتے۔

مگر میاں صاحبان کی آنکھوں پرچھائے پردے جو اس سے قبل انھیں دو بار دو تہائی اکثریت ہونے کے باوجود حکومتوں سے نکال باہر کرتے رہے ابھی تک نہیں ہٹے۔ مسلم لیگ ن محض دس لوگوں کی جماعت کا نام ہے، جس میں میاں صاحب کے خاندان کے علاوہ وہ منظور نظر لوگ ہیں جو ہمیشہ خوش آمدی پروگرام میں مصروف رہتے ہیں۔ مرکز میں سارے اختیارات میاں نواز شریف اور صوبے میں میاں شہباز شریف کے پاس ہیں۔

مرکز میں وزارات ہونے کے باوجود وزیر بے اختیار ہیں۔ اسحاق ڈار، خواجہ سعد، خواجہ آصف، پرویز رشید ایک طرف اور چوہدری نثار دوسری طرف، ان احباب کی مرضی کے بنا عوام تو دور کسی وزیر یا ممبر اسمبلی کی بات بھی کوئی سیکریٹری نہیں سنتا۔ اس سے کہیں ابتر حالات پنجاب کے ہیں جہاں میاں شہباز شریف اور میاں حمزہ شہباز تمام سیاہ سفید کے مالک ہیں۔

پنجاب جو آدھا پاکستان ہے وہاں پر ایک فرد خواہ کتنا ہی محنتی کیوں نہ ہو کتنا ہی لائق کیوں نہ ہو کیسے تمام معاملات حکومت چلا سکتا ہے ؟مرکز اور صوبے میں میاں صاحبان تنہا ہوتے جا رہے ہیں مگر ان کے نو رتن انھیں خوش فہمیوں میں مبتلاکئے ہوئے ہیں۔ جو ان کے لیے دن بدن مشکلات بڑھا رہے ہیں۔ عمران خان کے الزامات اپنی جگہ درست یا غلط مگر ان کے جواب میں تیسرے دن پرویز رشید آ کے بولتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے مسلم لیگ اعوان میں اکثریتی جماعت ہے مگر چند ایک چہروں کے علاوہ باقی ممبران کسی ٹی وی شو میں کیوں نظر نہیں آتے؟ کیوں کہ میاں صاحبان کا رویہ تمام کو متنفر کیے ہوئے ہے۔

چوہدری نثار کو تو میاں شہباز آکر منا لیتے ہیں مگر دیگر ممبران پارلیمنٹ کو کیوں گھاس نہیں ڈالی جا رہی؟ میاں صاحبان یہ سمجھتے ہیں کہ ان تمام ارکان کو ووٹ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کی وجہ سے ملے ہیں۔ کسی رکن کی اپنی کوئی حثییت نہیں۔ یہی خام خیالیاں انھیں اس نہج پر لے آئی ہیں کہ ان کی حکومت شدید دباو کا شکار ہے اور نئے الیکشن کی باز گشت تیز ہوتی جا رہی ہے۔

گورنر پنجاب جیسے فرد کو بھی میاں شہباز شریف نے کھڈے لگائے رکھا ہے ۔وہ تعلیمی اور فلاحی کاموں کا تجربہ اور دلچسپی رکھنے کے باوجود کچھ نہیں کر سکتے ، کیونکہ شہباز شریف صاحب کو لگتا ہے کہ اگر چوہدری سرور کے نام کی تختیاں لگنا شروع ہو گئی تو ان کی شان میں کمی آ جاے گئی۔ ذرا سوچیے پنجاب اسمبلی کے 367ممبران میں سے 311 مسلم لیگ ن کے ہیں ، اتنی بڑھی تعداد میں ایم پی ایز ہونے کے باوجود شہباز شریف کو کیوں بیس وزاراتیں پاس رکھنی پڑھ رہی ہیں؟ محض چوہدراہٹ اور اجارہ داری کو قائم رکھنے کے لیے۔

یہ حالات ہیں لیڈرشپ کے عوام کا یا مسلم لیگ کے ووٹر کا کیا حال ہو گا اس کا اندازہ باخوبی لگایا جا سکتا ہے ؟ اور اس کا عملی مظاہرہ تحریک انصاف کے جلسوں میں نظر آ رہا ہے۔ میاں صاحبان جب تک دوسروں کو برداشت کرنا نہیں شروع کرتے ان کے لیے حالات مزید خراب ہوتے جائیں گے۔
دوسری طرف خان صاحب سیاست کی بجائے آمریت پر اتر آئے ہیں جو درست نہیں۔

عمران خان کے مطالبات سب درست بھی مان لیے جائیں تو ان کا حل وزیر اعظم کے استعفٰے میں نہیں ہے۔ میاں نواز شریف کے چلے جانے سے سسٹم درست نہیں ہو جائے گا، آئین نہیں بدلے گا قانون میں تبدیلی نہیں آ جائے گی۔ عمران کا بڑا مطالبہ الیکشن میں دھاندلی ہے ، اس دھاندلی کو اگلے انتخابات میں کیسے روکنا ممکن ہے ؟ اس کے لیے میاں نواز شریف کا جانا ضروری نہیں بلکہ آئینی اصلاحات ضروری ہیں۔

ملک میں کرپشن روکنے کے لیے بھی قانونی سقم دور کرنے ہوں گے نہ کہ وزیر اعظم کی چھٹی سے یہ معاملات حل ہونے والے ہیں۔ عمران خان اور طاہر القادری صاحب کے دھرنے کامیاب اور جلسے نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں اگر ان جلسوں اور دھرنوں کے زور سے حکومت کو آئینی ترامیم کرنے پر مجبور کر دیا جاتا۔ اگر عمران خان اور طاہر القادری واقعی ہی عوام کی جنگ لڑ رہے ہیں تو اس کا واحد حل یہی ہے۔

میں نہ مانوں والی رٹ لگانے کا مطلب پھر کچھ اورہی ایڈونچر ہو سکتا ہے، عوام کی فلاح اور بہبود نہیں۔
میاں صاحبان کو ان کے نو رتن یہ مشورہ کیوں نہیں دے رہے ، سو چھتر اور سو گنڈے ، والا حساب نہ ہو ! اس لیے حکومت کو چاہیے کہ سنبھل جائیں دوسروں کو برداشت کرنا سیکھیں۔ عوام کے ،جمہور کے نمائندہ بنیں نہ کہ انا ،ذاتیات ، اور خاندان کے۔عوامی تحریک، تحریک انصاف کے بعد جماعت اسلامی اور اب پیپلز پارٹی کے جلسوں سے محسوس ہو رہا ہے کہ الیکشن کا ماحول بنایا جا رہا ہے۔

اگر الیکشن ہو جاتے ہیں اورنئے الیکشن بھی اسی پرانے طریق پر ہوتے ہیں تو عمران خان کو قوم کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ملک میں تبدیلی نعروں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے آئے گئی اس کے لیے آئین میں تبدیلی ضروری ہے، پہلے الیکشن ریفارمز کیے جائیں اس کے بعد الیکشن کی طرف جایا جاے۔ تو ہی حقیقی تبدیلی آئے گی ورنہ خان صاحب کی تبدیلی محض کرسی کی اور اختیارات کی تبدیلی ہو گی۔آخر میں حکمرانوں اور عمران خان دونوں کی خدمت میں جارج برنارڈ شا کا یہ معروف قول ۔۔۔۔۔ تبدیلی کے بغیر ترقی نا ممکن ہے، اور جو لوگ خود اپنی سوچ تبدیل نہیں کرسکتے وہ کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :