ضد اور لاڈ پیار

منگل 21 اکتوبر 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

یہ بات زبانِ زدِ عام ہے کہ بچے کی بات نہ مانی جائے تو وہ ضدی بن جاتا ہے لیکن معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔جب والدین بچے کی محبت میں اس کی ہر جائز و ناجائز خواہش کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو بچہ ضدی بن جاتا ہے۔جب والدین بچے کی ہر جائز و ناجائز خواہش پوری کرتے جاتے ہیں تو بچے انوکھی انوکھی اور نئی نئی خواہشیں کرنے لگتے ہیں۔ یہ عمر بادشاہ عمر ہوتی ہے۔

انہیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم یہ خواہش کر کے اپنے محبت کرنے والے والدین کو کس امتحان میں ڈال رہے ہیں۔مثلاَ بچے کہتے ہیں دہی میں چینی ملاؤ پھر کہنے لگتے ہیں اس چینی کو اب نکالو۔ رات کو چاند دیکھتے ہیں تو زِد کرنے لگتے ہیں میں نے یہ چاند لینا ہے اسے نیچے اتارو۔والدین اس طرح کی خواہشات سے الجھن میں پڑ جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس وقت والدین کو سختی کا خیال آتا ہے لیکن بچہ اب اتنا ضدی ہو چکا ہوتا ہے کہ کسی سختی کا اثر ہی نہیں لیتا۔

اب بچہ ملنے جلنے والوں کے سامنے بھی اپنی کسی خواہش کے پورانہ ہونے پر رونے دھونے سے باز نہیں آتا۔تنگ آمد بجنگ آمد والا محاورہ یہاں صادق آتا ہے۔بچے کور ڈانٹ ڈپٹ کا سلسلہ گھر میں آنے والے مہمانوں کے سامنے بھی شروع ہو جاتاہے۔ اس طرح بچے کی شخصیت میں کئی طرح کی پیچیدگیاں پید ا ہونے لگتی ہیں۔
حدسے زیادہ لاڈ پیار اور حد سے زیادہ سختی مسائل پیدا کرتے ہیں جو اٹھارہ سے بیس سال کی عمر میں شدت کے ساتھ سامنے آنے لگتے ہیں۔

بعض اوقات تو یہ مسلے اتنے سنگین ہو جاتے ہیں کہ بچے کی پوری شخصیت ہی بگاڑ کا شکار ہو جاتی ہے اور یہ بگاڑ تاحیات اُن کی ذات کا حصہ بن جاتا ہے ۔ اُنکی شخصیت میں اعتدال نہیں رہتا۔وہ خواہشوں اور ضرورتوں کے درمیان فرق نہیں کر پاتے۔اس لئے وہ اپنی ضرورتوں کے لئے جدوجہدکرنا نہیں سیکھتے بلکہ خواہشوں کے لئے خیالی پلاؤ پکاتے پھرتے ہیں۔وہ عملی نہیں بلکہ خیالی انسان بن جاتے ہیں۔


بچوں کے معاملے میں مناسب طرز عمل اور اعتدال کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔بچوں کی ہر بات ماننے کی صورت میں اُن میں ضد اور بغاوت جنم لیتی ہے۔ اگر شخصیت متواز ن اور مضبوط نہ ہو تو نوجوان عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد مختلف انفرادی اور معاشرتی مسائل کا سامنا کرتے ہیں ۔ عملی زندگی میں انسان کو کئی طرح کے سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں۔جس کو چاہا جائے وہ جب نہیں ملتا تو صبر کرنا پڑتا ہے لیکن ضدی ہر قیمت پر حاصل کرنے کی دھن میں لڑنے مارنے پر تل جاتے ہیں اگر پھر بھی نہیں ملتا تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔


بچوں کی کسی بھی نقصان دہ خواہش کے جواب میں انہیں قائل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔بچے کے مزاج کی ناہمواری دور کرنے کے لئے تشدد کا راستہ اختیار کرنا تباہ کن ثابت ہوتاہے۔بچے کو غلطی کا احساس دلانے کے لئے حکمت کا راستہ اپنانا چاہیے۔مثلاَبچے کوایک جگہ بٹھا دیں اور اُس سے بات نہ کریں۔ بچے بائیکاٹ کا گہرا اثر لیتے ہیں۔ وہ اپنے والدین کی ناراضگی برداشت نہیں کرپاتے۔

اس ناراضگی کے خوف سے دوسری باروہ غلطی سے اجتناب کرتے ہیں۔
والدین کو اپنے بچے کی ہر شرارت کو بدتمیزی یا اپنے لئے پریشانی تصور نہیں کرنا چاہیے۔ بچے کی معصوم شرارتیں کو تاہیاں نظر انداز کرتے جانا چاہیے۔ غصے میں آنے کی بجائے ان کی معصوم شرارتوں سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔ عادت کے طور پر بچوں کو والدین کی روک ٹوک کچھ دیر کے بعد اپنا اثر ہی کھو دیتی ہے۔

جب بھی والدین بچے کو روک ٹوک کریں تو ایک لمحے کے لئے ٹھہر کر یہ سوچ لیں کہ میں یہ روک ٹوک محض اپنی عادت سے مجبور ہو کر تو نہیں کر رہا اگر ایسا کر رہا ہو تو رُک جانا چاہیے۔بچے کو دوسروں کے سامنے یعنی باہر کے کسی فرد یا عزیز و اقارب کے سامنے برا بھلا نہیں کہناچایئے بلکہ تنہائی میں نرمی سے سمجھا نا چاہیے۔ یہ رویہ بچے میں آہستہ آہستہ مثبت تبدیلی لائے گا اور اُس کی انا بھی مجروح نہیں ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :