”بول“

جمعرات 23 اکتوبر 2014

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

سیاسی جماعتیں بڑے بڑے جلسے کر رہی ہیں، پہلے تو یہ جلسے بے موسمے لگتے تھے ، لیکن اب چوں کہ موسم بن گیا ہے تو انتظار سا ہونے لگا ہے کہ کون سی پارٹی کہاں جلسہ کر رہی ہے ، جلسہ کتنا بڑا ہو گا ، کامیابی اور ناکامی کا معیار کیا ہو گا، لوگ کتنے ہوں ، گے ، کس شہر میں پارٹی کیا موقف اختیار کرے گی ، دراصل جلسے تو خان صاحب کے استادوں نے شروع کروائے اور اس لیے کروائے کہ دھرنا سیاست ناکام ہو گئی تھی ، اس لیے لانگ روٹ سیاست شروع کر دی گئی ہے ، کراچی کے جلسے نے خان صاحب کے غبارے میں پھر سے ہوا بھر دی ، تو انہوں لاہور ، سرگودھا ،میاں والی میں بھی جلسے کر ڈالے، یہی نہیں پی پی کے گھر اور گڑھ لاڑکانہ شریف میں بھی جلسے کا اعلان کر دیا ہے ، پی پی نے بھی جلسہ بازی شروع کر دی ، طاہرالقادری بھی دو جلسے کر چکے ہیں، دوسری پارٹیاں بھی سوچ رہی ہیں ،جلسے کریں ،مگر بنیاد کیا ہو ، ،مشن کیا ہو ،جلسہ کہاں ہو، اس پر سوچ و بچار ہو رہی ہے ۔

(جاری ہے)


####
یہ جلسے اپنی طاقت دکھانے کے لیے بھی ہیں اور دوسروں کو آئینہ دکھانے کے لیے بھی ، گویا یہ موسم دراصل آئینہ دکھانے کا ہے ، فرد ہے تو پارٹی ہے تو ،شخص ہے تو شخصیت ہے تو ، لیڈر ہے تو کارکن ہے تو ،سبھی کے ہاتھ میں آئینہ ہے اور لب پہ یہ بول : ”آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے “ دل چسپ بات یہ ہے کہ ہم سب دوسروں کو آئینہ دکھاتے ہیں خود کوئی آئینہ دیکھنے پر تیار نہیں ،دوسروں کو آئینہ دکھاتے ہوئے تو مزا آتا ہے لیکن جب دوسرے آئینہ دکھائیں تو ہماری ہٹ جاتی ہے اور ہم تپ جاتے ہیں ،تپ کیا جاتے آگ بگولہ ہو جاتے ہیں، خصوصا لیڈر صاحبان ساری بہادری اور دلیری ،ہشیاری اور کامیابی اسی میں سمجھتے ہیں کہ دوسروں کو آئینہ دکھاتے رہیں ،کاش وہ یہ جانتے کہ آئینہ دکھانے سے زیادہ آئینہ دیکھنا بہادری ہے ،سچ بولنے سے زیادہ سچ سننا مردانگی ہے ۔


####
ہر طرف جمہوریت کا شور ہے ، ہر شخص جمہوریت کی محبت میں گھلا جا رہا ہے ،مرا جارہا ہے، آزادی مانگتا ہے ، آزادی رائے کا دعوے دار ہے ،لیکن یہی آزادی جب دوسرے استعمال کریں تو جامے سے بھی بہار ہونے لگتا ہے اور آپے سے بھی ، بڑے بڑے جمہوری رہ نماؤں کے دل چڑیا سے بھی چھوٹے ہیں اور ان کے کارکنوں کے دل چڑیا کے بچوں سے بھی چھوٹے ، کسی جماعت کا کوئی کارکن اپنے لیڈر کے خلاف کچھ سننے کو تیار نہیں لیکن دوسروں کو چور ،خائن، جھوٹا، دھوکے باز ، دغاباز، ایجنسیوں کا آلہ کار ، اسٹیبلیشمنٹ کا بندہ کہنے میں مزا آتا ہے ، دوسرے کی عوامی طاقت بھی اسٹیبلشمنٹ کا کرشمہ نظر آتی ہے ،اپنے ٹھاٹھ باٹھ بھی محنت کی کمائی دکھتے ہیں ۔

گویا جمہوریت کے تمام حقوق ہمارے لیے ہیں دوسرے ان حقوق سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔
####
کچھ لوگ بولنے سے پہلے سوچتے ہیں، ناپ تول کر بولتے ہیں، کچھ بولنے کے بعد سوچتے ہیں، بھر اس بولنے کی وضاحت کرتے پھرتے ہیں، چوں کہ اس کی تشریح بھی خود کرتے ہیں ،اس لیے تشریح بھی بے سوچے سمجھے کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر تشریح اپنی تشریح اور وضاحت کی محتاج ہوتی ہے ، یہ لوگ مشکل میں ضرور ہوتے ہیں ،لیکن اگر سمجھ دار ہوں ،اور چرب لسانی کا فن جانتے ہوں تو اپنے ہر بول کی وضاحت اور تشریح اس پیرایے میں کرتے ہیں کہ اپنے سر دھنتے ہیں اور مخالف سر پیٹتے ہیں ، کچھ ایسے بھولے بادشاہ بھی ہیں جو بول کر بھی نہیں سوچتے ، بلکہ آنکھیں بند کرکے منہ کھولنے کے عادی ہوتے ہیں،جو نکل جائے قوم کی قسمت۔

ان بھولے بادشاہوں کو اگر بتایا جائے کہ آپ کی فلاں مناسب نہیں تھی ، اس کا نتیجہ خود آپ کے حق میں اچھا نہیں نکلے گا ، توپھر یہ بھولے بادشاہ ضدی باد شاہ بھی بن جاتے ہیں ، اس بات اڑ جاتے ہیں ،لڑنے مرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
پہلے پہل سوچ کر بولنے والے زیادہ ہوتے تھے ،پھر بول کر سوچنے والوں کی اکثریت ہونے لگی ،اب آہستہ آہستہ ایسے لوگ چھانے لگے ہیں جو بول کر بھی نہیں سوچتے ، سوچ سے ان کا کوئی تعلق ہی نہیں بس سب کچھ بول ہی بول رہ گیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر بول ”بول“ بن جاتے ہیں جی ہاں وہ بول جن کے ساتھ ” ب ر ا ز “ کا بھی استعمال ہوتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :