خیال رُکتا ہے سوچنے میں

جمعرات 23 اکتوبر 2014

Sajid Khan

ساجد خان

پاکستان کی سیاست میں ہیجان کی سی کیفیت ہے دھرنوں کے بعد جلسوں کا موسم شروع ہے۔ ہمارے سابق صدر صاحب اعلی آصف علی زرداری نے سیاست میں نئی حکمت عملی کے مطابق اپنے سپوت اور نومولود لیڈر بلاول زرداری کو میدانِ عمل میں اُتار دیا ہے۔ کراچی کا جلسہ باکس آفس کے مطابق خاصا کامیاب رہا ۔ چاروں صوبوں کی ذنجیر بے نظیر کے نام کو بار بار جاپا گیا۔

مگر نیا دور ہے۔ اسلئے پرانے نعرے اب متردک ہو رہے ہیں۔ بلاول زرداری سب پر بہت ہی گرجے اور برسے۔ سندھ میں اپنے سابق حنیف ایم کیو ایم پر نرم ہاتھ رکھا بلاول کی سیاست سے اندازہ نہیں ہو رہا کہ وہ واپس بازو کی سیاست کر رہے ہیں یا وہ ترقی پسندوں کی روش اختیار کرنا چاہتے ہیں۔نومولود لیڈر کے نعرے اوردعوئے کرام کو انتشار کا شکار کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

ان کی تقریر میں عومی رنگ کم تھا۔ وہ اپنے نانا اور اپنی اماں کے نعروں کو ری مکس کر کرے پارٹی کو پیغام دے رہے ہیں کہ یہ پارٹی اب بانی نوجوان کی پارٹی ہے۔ ایم کیو ایم والے نوجوان لیڈر برداشت تو کر رہے ہیں۔ مگر کراچی کی سیاست میں ان کو نظر انداز کرنا پیپلز پارٹی کے لئے آسان نہ ہو گا۔ اندرون خانہ ایم کیو ایم کسی حد تک کپتان کی پارٹی کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے کپتان اور الطاف بھائی نظریاتی طور پر ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔

اس ہی وجہ سے کراچی کی سیاست کو سندھ کی سیاست میں مکس کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی کی اشرافیہ میں پھوٹ پڑنے کا اندیشہ نظر آ رہا ہے۔
آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کی سرکار پر حملے کو اپنی فہم و فراست سے ناکام تو بنا دیا تھا۔ مگر ان کا اپنا کردار تسلی بخش نہیں ہے۔سابق صدر کے پیر اعجاز نے موصوف کو مشورہ دیا تھا کہ کچھ دن کے لئے سمندر سے دور جاہیں۔

تو سوچا گیا کہ اب پنجاب میں سیاست کا آغاز کیا جائے۔ پنجاب کی راج دھانی میں اب ان کا قلعہ ہی ہے۔ان کے دوست اور بحریہ ٹاوٴن کے چیف نے ان کے معاملات کو آسان بنانے میں میاں نواز شریف سرکار سے مشاورت بھی کی۔ مگر صوبے دار صاحب بہادر نے ان کو باور کرایا کہ آپ دونوں طرف کے لئے قابل احترام ہیں۔ اسلئے آپ کے لئے مناسب نہیں کہ آپ اس معاملہ میں فریق بنیں ۔

سابق صدر نے قیام لاھور کے دوران پیراعجاز کی خدمت بھی بہت کی اور پیر صاحب کی مشاورت کے بع ہی فیصلہ کیا کہ پہلے مرحلہ میں بلاول کو آزادی کے ساتھ بات کرنے کا موقعہ دیا جائے۔ ان کے جلسہ کی تاریخ بھی ان کے پیر نے ہی طے کی ۔ اب دوسرے مرحلہ میں نوجوان لیڈر پنجاب میں آنے کا فیصلہ کر چکے ہیں مگر پنجاب میں پارٹی شدید خلفشار کار شکار ہے۔ ملتان کا حالیہ انقاب اس کی منہ بولتی تصویر ہے۔

سابق وزیراعظم گیلانی نے کوشش تو بہت کی۔ مگر ملتان کے نوجوانوں کو ورغلانے میں ناکام رہے اور کپتان کا آسیب کامیاب رہا۔ نقصان صرف باغی کو ہوا داغی بھی ہوا اور ناکامی کا داغ بھی لگ گیا۔
اس وقت پاکستان کی سیاست گرگٹ کی طرح روپ بدل رہی ہے۔قادری صاحب اب سیاست کے کھلاڑی بننے جار ہے ہیں۔ مسلم لیگ قائداعظم کے چوہدریوں سے ان کی آشنائی بدلتی نظر آرہی ہے۔

مسلم لیگ نواز کے مہربان اس وقت قادری صاحب کے لوگوں سے ایک نیا جرگہ شروع کر چکے ہیں۔ میاں صاحب کے مشیروں کا خیال ہے کہ اس مرحلہ پر قادری صاحب کو یقین دھانی کرائی جائے کہ اگر وہ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو ان کو حیثیت دی جائے گی۔ اسطرح کپتان اور قائداعظم کے ووٹ تقسیم ہو جائیں گئے۔ مگر پیپلز پارٹ پنجاب کی سیاست سے ووٹ تقسیم ہونے کی بجائے مخالفوں کو مل جائے گے اور کچھ ایسا ہی ملتان کے حالیہ انتخابی دنگل میں ہوا۔

پنجاب کی نوکر شاہی بھی ناکام ہوئی۔ پھر اس نے بدلتی رت کا اندازہ کر لیا۔ اب وزیراعظم کو ہنگامی طورپر معاملات کو درست کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ پورے ملک میں بجلی کے بلوں معاملہ بدستور گرم ہے۔ اگرچہ یہ بات طے ہو چکی ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں عوام کے حقوق کو نظر انداز کیا گیا۔ اور جعلی طور پر بجلی کے بل گھڑ کر عوام کو بد ظم کیا گیا اور ابھی تک یہ معاملہ حل طلب ہے۔

بجلی کے بڑے وزیر اور چھوٹے وزیر صاحب سیاست میں اتنے سرگرم ہیں کہ ان کو عوام کے مزاج کا اندازہ نہیں۔ اور عوام کو کوئی بھی سہولت دینے کا معاملہ میں سنجیدہ نظر نہیں آئے ۔ اب وقت کی ضرورت ہے کہ وزیراعظم عوام کی درد رسائی کے لئے خود میدان عمل میں آ جائیں۔
اس وقت قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ بڑے سر گرم نظر آرہے ہیں۔ چند دن پہلے جوش جذبات میں ”مہاجر“ لفظ کو گالی کا متبادل کہہ دیا۔

اور جوش خطاب میں اپنی بات کی تروید بھی کی کہ وہ خود بھی ایک پرانے زمانہ کے مہاجر ہیں ان کی بات کو ایم کیوا یم نے بھی بہت محسوس کیا۔ اس کے بعد سید خورشید شاہ کو اپنا بیان واپس لینا پڑا۔ ایک تو اندرون سندھ کی سیاست میں بولاوٴ آتا نظر آرہا ہے ۔ پھر سندھ میں حلقوں کی تقسیم کے معاملات بھی شاہ صاحب کو پریشان کر رہے ہیں۔ ان کے قول وکردار کی سمجھ نہیں آتی۔

اگر وہ کپتان پر تنقید کرتے ہیں اور ساتھ ہی میاں صاحب کو مڈٹرم انتخابات کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ پھر پارٹی کے اندر بھی لوگ ان کی قلابازیوں سے خوش نہیں۔ اب ان کے ذمہ بلاول کے جلسہ کے لئے لوگوں اور بسوں کا انتظام کرنے کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی۔ شاہ صاحب نے پوری محنت اور مشقت سے اپنے علاقے سے خاصے بڑے دستے روانہ کیے۔ اور اپنی حیثیت منوانے کی کوشش کی اور دوسری طرف ان کے حلقہ میں یہ بات بھی گردش کر رہی ہے کہ اب درمیانی مدت کے انتخاب زیادہ دور کی بات نہیں اور پیپلز پارٹی کی اندرونی سیاست میں بے چینی کا باعث ہے۔

دوسری طرف بلاول زرداری پارٹی کے پرانے لوگوں کو اہمیت نہیں دے رہا اور شاہ صاحب بھی اسی بات کے شاکی ہیں۔ مگر اظہار سے ڈرتے ہیں۔
سندھ کے وزیراعلی بھی کیا خوب عوامی وزیر اعلیٰ ہیں ان کی سادگی پر پیار آتا ہے ۔ گزشہ دنوں کچی شراب نے کراچی کے کئی لوگوں کو موت کے گھاٹ آتار دیا اور صاحب بزرگ تائم علی شاہ کا فرمانِ امروز تھا کہ جو لوگ شراب پی کر پردہ فرما جاتے ہیں۔

وہ بھی شہید ہیں ل۔ سبحان اللہ۔ کیا بات فرمائی ہے ۔شراب سے شہادت کا تصور صرف قائم علی شاہ کا وصف ہے اور یہ وجدان صرف سندھ کا سیدہی کر سکتا ہے۔ ابھی تک ان کی طرف سے تردید نہیں آئی اور پارٹی کے سنجیدہ حلقوں نے ان کی بات کا نوٹس نہیں لیا ۔ پاکستان میں شراب نوشی ممنوع ہے اور قابل گرفت بھی ہے۔مگر شراب بنانے دھندہ بڑا کامیاب دھندہ ہے اور حالیہ تحقیق کے مطابق سندھ کی اشرافیہ اور سندھ پولیس کی اس معاملہ میں شراکت داری بھی ہے۔

حالیہ اموات کے بعد کریک ڈاون شروع بھی کیا گیا اور میڈیا نے مدد کرنے کی کوشش بھی کی۔ مگر سماجی طور پر شراب کو پنا قابل نفرت نہیں۔ مذہب میں بھی ممنوع ہے مگر سماج میں قابل اعتراض نہیں۔ یہ دوغلا رویہ پورے سماج کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ شراب عوام کے لئے کیوں قابل نفرت نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اشرافیہ اورجاگیردار تو مرضی سے مہنگی چیز استحال کرتے ہیں اور غریب لوگ صرف شوق شوق میں زہرلی شراب پی کر شہید ہو رہے ہیں اور شاہ صاحب بھی درست ہیں جو بے خبری میں مارا گیا وہ دہشت گردکی گولی سے ہو یا شراب سے وہ شہید ہے اور قوم کی حیات ہے۔


اسلام آباد میں زندگی معمول کے مطابق واپس آرہی ہے ڈاکٹر قادری کا دھرنا مرکز ویران نظر آرہا ہے چوہدری نثار نے شاہی حکم جاری کر دیا اور شہر کو کنٹنروں سے اپک کیا جا رہا ہے اگرچہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہلے یہ حکم جاری کر چکی ہے ۔ مگر عمل میں دیر ہوگی۔ اب اعلیٰ نوکر شاہی میں تبدیلی نظر آرہی ہے۔ ایک مرکزی سیکرٹری جو پہلے پی آئی آے کے چیرمین بھی تھے ان کو تبدیل کر دیا گیا ہے یہ فیصلہ بھی اعلیٰ عدلیہ کے فیصلہ کے متناظر میں کیا گیا ہے کیا چیرمین کی تبدیلی سے پی آئی اے کے معاملات درست ہو سکتے ہیں اس وقت سول ایسوی ایشن کی وزارت کے معاملات میں صاحب کے کینڈا کے شہری درست چلا رہے ہیں پی آئی اے کی نج کاری کا عمل بھی جاری ہے اور اس سلسلہ میں اندورن خانہ کام بھی ہو رہا ہے ۔

مگر نج کاری سے پی آئی اے کے معاملات درست نہیں ہو سکتے ۔ ضروری ہے کہ پی آئی اے کی انتظامیہ میں تبدیلی لائی جائے اور نج کاری کی بجائے انتظامی ڈھانچہ کسی نجی ادارے کے سپرد کیا جائے جو تبدیلی کے تحت خود مختیار ہو۔ اسطرح سے پی آئی اے کی ساکھ بھی پختہ ہو جائے گی اور کمپنی اپنے نقصان میں بھی کمی کر سکے گی۔ مگر ایسا کیسے ہو گا۔ ڈار صاحب وزیرخزانہ تو ائی ایم ایف کے چنگل میں گرفتار ہیں اور وزیراعظم اندرونی سیاست سے برآما ہیں۔

میاں صاحب کابینہ میں تبدیلی لائیں اور عوم میںآ نے کا سوچیں اُمید ہے عوام آپ کو مایوس نہیں کریں گے ایک دفعہ آزما کر تودیکھیں۔اس ہفتہ ایک کتاب کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ میرے دوست جناب افضال احمد نے نئی کتاب ” نامہ اقبال“ نثری ترجمہ جو اصل میں ”آسمانی ڈرامہ کی اہمیت میں“ جناب ڈاکٹر جاوید اقبال (فرزند اقبال) نے حال ہی میں تحریک کی ہے کیا خوب کتاب ہے ۔

جاوید نامہ کایہ نیا اردو روپ اور اسلوب آج کے زمانہ میں اقبال کے افکار کو معتبر بناتا ہے۔ یہ کتاب آج کے نوجوان کے لئے بہت اہم اور فکری ہے اور صاحب اقتدار لوگوں کے لئے بھی ۔ حضرت علامہ اقبال نے ایسا کیوں سوچا اور کیسے سوچا۔ اس کا جواب کتاب کے نثری ترجمہ سے سمجھ میں آتا ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ کتاب پڑھ کر روحانی بے چینی اور بے عملی میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ اہم اپنے اند ر اور باہر کی دنیا کو بدلنے کا سوچتے ضرور ہیں مگر اس کے لئے حکمت کا فقدان ہے اوریہ ہی ہماری ساری قوم کا المیہ ہے ۔

جاوید نامہ اصل میں ڈاکٹر جاوید اقبال پر ان کے ولی کا قرض تھا۔ سو اتنے سال کے بعد ڈاکٹر جاوید اقبال وہ قرض ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ جاوید شعامین ٹھیک کہتا ہے”خیال رکتا ہے سوچنے میں ، ہیں خواب دھندے سے دیکھنے میں“

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :