بھارتی جارحیت اور پاکستان

جمعرات 23 اکتوبر 2014

Anam Ahsan

انعم احسن

بھارت کی جانب سے سیزفائر معاہدے کی خلاف ورزی اور لائن آف کنٹرول پر ہو نے والی بلا اشتعال فائرنگ کے واقعات آئے روز سننے میں آتے رہتے ہیں لیکن رواں ماہ کے آغاز سے ہونے والے ان واقعات نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔جس کے نتیجے میں ایک درجن سے زائدافراد کو شہید کیا گیا اور ہزاروں افراد کو اپناگھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کرنا پڑی۔

ان لوگوں کے لئے تو یہ صورتحال کسی جنگ سے کم نہیں ہے۔اور یہ لوگ حکومت اور فوج کو دیکھ رہے ہیں آدھے حیرانی سے آدھے پریشانی سے۔بھارت نے اتنا بڑا حملہ کبھی لڑائی کا اعلان کئے بغیر نہیں کیا اور اب اس صورت حال پر شرمندہ ہونے کی بجائے بھارتی وزیراعظم کی جانب سے پاکستان کے خلاف زہر افشائی کا سلسلہ جاری ہے۔
ہندوستان کا جگر چیرا تب جاکر پاکستان بنا۔

(جاری ہے)

اسی لئے مودی جیسا کوئی بھی انتہا پسند آتا ہے تو جارحیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔خطے میں قیامِ امن کی تمام امیدیں ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی چلی جا رہی ہیں۔مستقل امن کی ہر کوشش کی حوصلہ شکنی بھارت کا وطیرہ بن گیا ہے۔جسکی بڑی وجہ ہے کہ بھارت کی سیا ست میں آر ایس ایس، سنگ دل بی جے پی جیسی انتہا پسند جماعتیں سر گرمِ عمل ہیں یہ سبھی جماعتیں مل کر بھارت کی پالیسیاں بناتی ہیں اور حکومت کو ڈائریکشن دیتی ہیں اور پاکستان کے خلاف جذبات کو ہوا دیتی ہیں۔

نصف صدی سے بھارتی فوج کشمیر میں انسانی حقوق کو دھجیاں اڑا رہی ہے۔ اس وقت کشمیر میں دس قوانین نافذ ہیں اور ان میں سے ہر قانون کا مقصدوہاں بسنے والے انسانوں کے حقوق سلب کرتا اور انکی آواز کو دبانا ہے۔ بھارتی سیاسی قیادت میں مسلمان اور پاکستان مخالف جذبات موجود ہیں جنکا اظہارو ہ برملا کر رہے ہیں۔
درحقیقت بھارت امن کی زبان سمجھنا ہی نہیں چاہتااور خطے میں اپنی بالا دستی قائم کرنا چاہتا ہے۔

پاکستان کو چاہیے کہ بھارت کے جنگی جنون کو ٹھنڈا کرنے کیلئے اسے جارحانہ انداز میں ہی عسکری و سفارتی سطح پر جواب دے تا کہ نریندرا مودی کی خام خیالی ختم ہو سکے۔اقوام متحدہ بھی گزشتہ ایک ماہ سے بھارتی جنگی جنون کے معاملے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ۔تادمِ تحریر ایک درجن سے زائدشہادتیں ہو چکی ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ اقوام متحدہ کا عالمی معاملات میں دوہرا معیار ہے اوراقوام متحدہ میں جب کبھی مسلم ممالک کے حقوق کے لئے معاملہ زیر غور آئے تو اس معاملے کو تاخیری حربوں اور ویٹو کر کے حل کرنے کی بجائے مزید الجھا دیا جاتا ہے۔


اب ہماری صورتحال یہ ہے کہ ہمیں ایک طرف بھارتی جارحیت کا سامنا ہے اور دوسری جانب امریکہ کی دہشت گردی کا جو وہ روز ڈرون حملوں کے ذریعے کر رہاہے۔اور ملک کے سیا سی نا مساعد حالات۔لائن آف کنٹرول پر بھارت کی بلااشتعال فائرنگ کا مقصد صرف پاکستان کو دباوٴمیں لانا ہے اور یہ پیغام دینا ہے کہ آپ ہم سے یہ توقع نہ رکھیں کہ پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف مودی کی حلف برداری کی تقریب میں آگئے تھے تو ہم نرم پالیسی اختیار کریں گے۔

نواز شریف نئی دہلی اچھی نیت سے ضرور گئے ہونگے لیکن اچھے تجزیے کی بنیادپر نہیں ۔بھارت پاکستان کے ساتھ زیادتی کرنے پر تلا ہوا ہے اور ہمارے حکمران ہیں کے آنکھیں بند کئے امن کا راگ الاپنے میں مصروف ہیں۔ہم بھی امن چاہتے ہیں لیکن ہماری امن کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے ۔ہم برابری کی بنیاد پر امن کے متمنی ہیں۔
دوسری جانب امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ خوشگوار تعلقات بنائے لیکن اس کے لیے شرط عاید کی جاتی ہے کہ ہم بھارت کی بالادستی قبول کریں۔

یہی وجہ ہے کہ بھارت کی جانب سے بلا اشتعال فائرنگ ہوتی رہی لیکن ہمارے وزیراعظم کو جس طرح آگے بڑھ کر مزمت کرنی چاہیے تھی ویسے نہیں کی گئی۔بلکہ نواز شریف صاحب دہلی جاتے ہیں اور mother Indiaیعنی مودی کی والدہ کو ساڑھی گفٹ کرتے ہیں۔میاں صاحب اگر ملکوں کے سیاسی حالات ایسے ہی درست ہوتے تو آج پاکستان بھارتی جارحیت کا نشانہ نا بنایا جاتا۔
ہم نے بھارت کو ضرورت سے زیادہ ڈھیل دی ہے اب وہ ہمارے سر پر سوار ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔

ہماری خارجہ پالیسی انتہائی کمزور حالت میں ہے۔دفتر خارجہ دو بے حد کمزور بزرگوں کے سپرد کر رکھا ہے جنہیں باہمی چپقلش سے ہی فرصت نہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان خارجہ پالیسی کے خدوخال درست کئے جائیں اس وقت ہم اندرو نی طور مشکلات کا شکار ہیں ہماری فوج مغربی سرحد پر دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضربِ عضب میں مصروف ہے ملکی سیاست اور سیاسی جماعتیں محاذ آرائی کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہیں ۔

ایسی صورتحال کا فائدہ اٹھا کر بھارت نے لائن آف کنٹرول پر شیلنگ کا سلسلہ شروع کیا۔اب بھارت سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی بھی کرتا ہے اور آنکھیں بھی دکھاتا ہے۔حکمرانوں کو مالی منافعت سے نکل کر قومی مفاد پر جرات مندانہ اقدامات کرنے چاہیے۔بروقت فیصلے ہی حکومتوں کا وطیرہ امتیاز ہو ا کرتے ہیں۔تاخیر سے کئے گئے فیصلے درست بھی ہو ں تو انکا کوئی فا ئدہ نہیں ہوتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :