دل بجھ چکا ہے،اب نہ مسیحابنا کرو!

جمعرات 23 اکتوبر 2014

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

تبدیلی مقصو دتھی اور اس تبدیلی کی شروعات کے لئے،جس خطہء زمین کا انتخاب کیا گیا، وہ ایک ایسا خطہء تھاجہاں معمولی سی بات پر قتل عام سی بات تھی۔ نسل درنسل قتل وغارت گری کاایسا سلسلہ چلتاکہ صدیوں تک خون کی ندیاں بہتیں۔ ضد ، انا سے لے کر شراب، زنااور ہر عیب عام تھا۔ جو بُرائی میں سب بڑھ کر ہوتااور سب سے زیادہ ظالم اور سفاک ہوتا وہی سب سے زیادہ معززتھا۔

ان حالات میں تحریک کا آغاز ہوتا ہے تو اللہ رب العزت کی طرف سے قیامت تک کے آخری انسان کی مکمل راہنمائی اور ہدایت اور کامیابی کے لئے اُترنے والی کتاب مقدس کا پہلا حرف کیا تھا ۔۔۔۔اقراء (تعلیم،شعور،آگاہی)۔۔۔یعنی اگر معاشرہ ، بگڑے ہوئے انسان کی اصلاح مرادہے ، تو سب سے پہلی اور ضروری چیز تعلیم ہے۔

(جاری ہے)


تعلیم وتعلم اورتعصب کے حوالہ سے ایک تکلیف دہ مگردلچسپ واقعہ میرے ساتھ پیش آیا۔

تعلیم سے ابھی فارغ ہی ہوئے تھے۔ ایک صحافی دوست کے ساتھ کوئٹہ کا سفر کیا ۔ پہاڑوں میں گھرے خوبصورت شہراور اس کے گردونواح کے صحت افزاء مقامات کی آب وہوا نے اس قدر متاثر کیا کہ وہیں ایک ٹاپ کلاس پرائیویٹ سکول میں ملازمت اختیار کرلی۔ اس سکول کا شمار کوئٹہ بلکہ بلوچستان کی بہترین درس گاہوں میں ہوتاتھا۔ سکول کی پرنسپل کا تو گویا اوڑھنا بچھوناہی تعلیم وتعلم تھا۔

یہ پرنسپل صاحبہ کی شبانہ روز محنت ، لگن اور فکر ہی تھی کہ جس کے نتیجہ میں چیک اینڈ بیلنس کاایسا بہترین نظام تھا ، کوئی اُستاد اپنے فرائض کی ادائیگی میں سستی اور کاہلی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ہر سال بہترین نتائج کا سبب بھی پرنسپل صاحبہ کی سوچ ، فکر ،طلباء سے بے حد محبت اور اخلاص ہی تھا۔ لیکن اس کے باوجود کچھ طلباء تعلیم پر نہ صرف توجہ نہ دیتے بلکہ قبائلی علاقہ کا خاص رویہ ان کے مزاج کا حصہ بن چکا تھا۔


کوئٹہ صوبائی دارلخلافہ ہونے کے باوجوداتنا بڑا ،اورگنجان آبادشہر نہیں۔اس شہر میں آیا اجنبی آسانی سے پہچاناجاتا ہے ۔ایک دن اپنے صحافی دوست جو روزنامہ بلوچستان میں جاب کرتے تھے کے ساتھ ایک بازار سے گزر رہے تھے۔کہ ایک صحت مند ، قدآور اور پہلوان قسم کے آدمی نے بلاوجہ باآواز بلندہمیں گالیوں سے نوازنا شروع کردیا۔جس پر کچھ مزید مقامی لوگوں نے ان صاحب کا ساتھ دیا پھر کیا تھا کہ قہقوں کا ایک سلسلہ چل نکلا۔

میرے دوست نے جو صحت کے حوالہ سے نسبتاََ مجھ سے بھی کمزور تھا۔ اپنا سینہ بلکہ سینی تان کر کہا کہ کیاہوا؟ ہمیں کیوں گالیا ں دے رہے ہو؟ آخرہم سے کونسا قصور سرزد ہوا؟کچھ تو بتائیں؟ بس اتنی سی بات پر وہ صاحب ہماری طرف لپکے ہمیں گریبا ن سے پکڑا اور اُٹھا کر دور پھینکا۔ بھرے بازار میں سب ہم پرہنس رہے تھے۔ اس وقت ہمارے جذبات کیا تھے اور ہم پر کیا بیت رہی تھی اُس کی شدت کی پیمائش کسی دُنیاوی پیمانہ سے ممکن نہیں۔

آخر کار کسی بھی طرح سے جان بچا کروہاں سے نکلے ۔
دن گزرتے رہے، ہمارے سکول میں سالانہ نتیجہ کی تقریب کی تیاریاں اپنے عروج پرتھیں،جس میں والدین کو خاص طورپر مدعوکیا گیا تھا۔ بچوں کا رزلٹ ہر کلاس انچارج کے ذمہ تھاکہ وہ اپنی اپنی کلاس میں بچوں کورزلٹ کارڈ تقسیم کریں اور پھر ہال میں جمع ہونا تھا تاکہ پرنسپل صاحبہ پوزیشن لینے والے بچوں میں انعامات تقسیم کریں۔

باقی اساتذہ کی طرح میں بھی سٹیج پرموجود تھا۔ سکول کی روایت تھی کہ تقریب کے اختتام سے پہلے مہمانوں، خاص کر والدین کودعوت دی جاتی کہ یہ لوگ سٹیج پر آئیں اور اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ سکول اور تعلیم میں بہتری کی تجاویز پیش کریں۔ چند لوگ سٹیج پر آئے جن میں سے زیادہ تر نے سکول انتظامیہ اور اساتذہ کا شکریہ ادا کیا اور ایک دو نے مزید بہتری کی تجاویز کے ساتھ ہلکی پھلکی تنقیدبھی کی ، جس میں یقینا بہتری کا عنصر زیادہ غالب تھا۔

آخر میں ایک صاحب آئے اور ایک جذباتی تقریر میں پرنسپل صاحبہ سمیت اساتذہ کا شکریہ ادا کیا۔ اُن صاحب کا کہنا تھا کہ دوسرے صوبوں کے اُساتذہ ، جواپنا گھر، علاقہ چھوڑ کر ہمارے بچوں کوزیور ِ تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں۔ میرے پاس ان حضرات کی داد و تحسین کے لئے الفاظ نہیں کہ کس طرح ان کا شکریہ ادا کروں۔پھراپنی کچھ علاقائی خامیوں کا تذکرہ کیا ۔

اپنے چھوٹے بھائی ،جو اسی سکول میں زیر تعلیم تھا ،کے بارے میں بتا یا کہ اسے تعلیم اور علم کے سوا ہر چیزکا شوق تھا۔یہ سکول آنے پر بھی راضی نہیں ہوتاتھا۔ اُس نے کبھی گھر جا کرکتاب کھول کرنہیں دیکھی۔ ظاہری بات ہے پھر نتیجہ بھی ہرسال اسی طرح آتا۔ پہلی بار میرے بھائی نے سال بھر دل جمعی سے محنت کی اور کبھی سکول نہ آنے کی ضد بھی نہیں کی ۔

آج میرے بھائی کا شمار اپنی کلاس کے دس بہترین طالب علموں میں ہوتا ہے۔ اس بار اس کے نمبر بھی بہت اچھے آئے ہیں۔ پورا سال سکول سے اس کی کوئی شکایت بھی نہیں ملی اور نہ ہی پورا سال مجھے کبھی سکول آنے کی ضرورت پڑی۔ آج میرے بھائی نے اپنے ایک اُستاد جس کا تعلق دوسرے صوبہ سے ہے ، کے بارے میں بتا یا کہ اس نے میرے اندر تعلیم کا شوق پیدا کیا ۔ پھران صاحب نے ایک واقعہ سنایا ، جس نے سب کو حیران اور دُکھی کردیا۔

اس کے بعد وہ یک لخت میری طرف بڑھا اور کسی معصوم بچہ کی طرح روکر اور ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہاتھا۔ مجھے سٹیج پر بلا کرتمام سامعین سے مخاطب ہوا۔ میں نے جس شخص کی بھرے بازار میں بے عزتی کی اور مارا پیٹا، وہ شخص میرا اپنا محسن تھا۔میں نے اس کے ساتھ کیا کیا، اور اس نے میرے کندذہن اور آوارہ بھا ئی کو کیا بنادیا۔وہ اپنے علاقہ کے سب لوگوں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہہ رہا تھا، خدا کے لئے تعصب پرمبنی اپنی سوچ کو ترک کردیں ، سب پاکستانی ہمارے بھائی ہیں اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے بعدمیں ہر پاکستانی کی عزت اور قدر کروں گا۔

سب کا احترام کروں گا اور یہی پیغام دوسروں تک پہنچانا میری زندگی کا سب سے بڑا فریضہ ہوگا۔آخر میں ایک بار پھر اپنے سابقہ رویہ کی معذرت کی اور رومال سے آنسوصاف کرتے ہوئے ا سٹیج سے اُتر گیا۔یہ واقعہ سن کرتمام مجمع افسردہ تھااور میں سوچ رہاتھا،کہ اس اجنبی شہرکے بھرے بازار میں ہماری بے عزتی ہوئی اور آج اللہ رب العزت نے اُس سے کئی گنابڑے مجمع میں علم کی برکت سے اس ناچیزکوعزت عطاء فرمائی۔

وہ دن غرور،تکبر،تنگ نظری،علاقائیت، ،قومیت پرستی،تعصب کی ہار اورعلم کی جیت کا دن تھا ۔
آج دُنیا ہم پر غالب آگئی اور مال ودولت کی حرص اور جہالت نے اچھے برے کی تمیز ختم کردی ہے۔ آج انسانیت کے خدمت گار عبدالستار ایدھی جیسے انسان کو لوٹا جارہاہے۔ ہمارے معاشرہ کی گراوٹ اور معاشرتی تباہی کی بدترین مثال اور کیاہوگی۔
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہی"حضرت عقبہ بن عامر سے مروی ہے کہ حضور نبی رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایااے میرے امتیو! میں تمھارا پیش رو ہوں۔

اور میں تم پر گواہی دینے والا ہوں۔ اورمیں بخدا یہاں بیٹھے ہوئے اپنے حوص کوثرکو دیکھ رہا ہوں۔اور بلاشبہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں مجھے عطافرمادی گئی ہیں۔ اور مجھے خدا کی قسم اس بات کا ذرا بھی خدشہ نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگوگے۔البتہ مجھے یہ خوف ہے کہ تم دُنیاکی دولت اور سامان عشرت کوجمع کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگو گی۔

"
زیادہ سے زیادہ دُنیا سمیٹنے اورمال اکٹھا کرنے کی حرص نے عوام سے لیکر خواص تک اس قدر اندھا کردیا ہے کہ آج ہم کہیں کے نہیں رہے۔ ہمارے حکمرانوں نے اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں بد ترین کرپشن، لوٹ کھسوٹ ، اقرباء پروری، میرٹ کے قتل،بلی ، چوہے کے کھیل کے ذریعہ عوام کو بے وقوف بنایا ۔پیسہ اکٹھا کرناہمیشہ سے ان کا منشور رہا۔یہ لوگ جمہوریت کے نام پرجمہوریت اور عوام سے انتقام لیتے رہے۔

ملک کی بقاء اور بہتری کے لئے کچھ بھی نہیں کیابلکہ یہ لوگ ملک اور عوام کے لئے نئے سے نئے عذاب کابندوبست کرتے رہے۔ تعلیم کتنا بڑا سرمایہ ہے۔ اس میں کتنی عزت اور کامیابی ہے۔ مگر ہم نے تعلیم اور شعبہ تعلیم کی کتنی بے قدری کی۔ 67سالوں میں ہم نے تعلیم کو کبھی قومی ترجیحات میں شامل ہی نہیں کیا۔ ہم کچھ بھی نہ کرتے صرف تعلیم عام کرتے اورخاص کرپاکستان کے قبائلی اور سرحدی علاقوں میں تعلیم پر توجہ دی جاتی، انہیں زیور ِ تعلیم سے آراستہ کیا ہوتا توملک بھر میں دفاعی اداروں کے ملازمین سمیت ہزاروں بے گناہ اورنہتے عوام دہشت گردی کا نشانہ بنتے اور نہ ہی اپنے وطن ِعزیز کے ایک صوبہ سے سیلاب زدہ ، مصیبت زدہ اورحالات کے ستائے ہوئے مزدورں کو دوسرے صوبہ میں شناخت کے بعد بے دردی اور بے رحمی سے قتل کیا جاتا۔

کاش ہم نے نمود ونمائش کے بجائے کم ازکم تعلیم پر توجہ دی ہوتی کیونکہ تعلیم ہی قومی وحدت کے تصور کوحقیقت میں بدل سکتی ہے۔بقول شاعر
دل بجھ چکاہے اب نہ مسیحابنا کرو
یا ہنس پڑو یا ہاتھ اُٹھاکردُعا کرو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :