ل سے لفافہ

ہفتہ 25 اکتوبر 2014

Hussain Jan

حُسین جان

لفافے کی بھی عجیب زندگی ہے کبھی تو اپنے موجد کو زلیل کروا دیتا ہے کبھی اُس کے لیے نیکی کی راہیں ہموار کرتا ہے،دُنیا کا شائد ہی کوئی کام ہو جو لفافے کے بغیر ممکن ہولفافہ پلاسٹک کا بھی ہوسکتا ہے اور کاغذ کا بھی۔ پوری دُنیا میں لفافے کی الگ الگ پہچان ہے،مائیں اپنے بچوں سے کہتی ہیں کہ بیٹا بھنڈی لفافے میں ڈلوا کر لانا نہیں تو ہمارے سیاستدانوں کے ضمیر کی طرح گر جائے گی۔

بیوی اپنے شوہر نامدار سے کہتی ہے اگربرگر لفافے میں لاتے تو یقینا تماری والدہ کو پتا نہ چلتا کہ آج ہم دعوت اُڑانے والے ہیں۔ اللہ صحت عطا کرئے ہمارے ایک سرکاری سکول کے اُستاد ہوتے ہیں اکثر کہا کرتے تھے "اوئے اُلو دے پٹھے جے بستہ ٹوٹ گیا سی تے کتاباں لفافے و چ پالیندا"اسی طرح کچھ سرکاری کلرک جو کہ عملی طور پر آفیسر ہی ہوتے ہیں اکثر صالین کوحکم صادر کرتے ہیں کہ بھائی کام تو آپ کا ہو جائے گا مگر "مٹھائی"کی رقم لفافے میں ضرور لانا کیونکہ دفتر میں کچھ ٹٹ پونچیے مجھ سے جلتے ہیں کہ یہ اتنی جلدی "ترقی"کیسے کر رہا ہے۔

(جاری ہے)

لیکن لفافے کا ہمارے سیاستدانوں سے دور کا بھی تعلق نہیں کیونکہ اُن کو جتنی رقم درکار ہوتی ہے اُس کے لیے دُنیا کا کوئی بھی لفافہ چھوٹا پڑجائے گا۔ ویسے تو شادی خانہ بادی میں بھی لفافے کا بہت عمل دخل ہے کہ دُلہا کو برئے وقت کے لیے کچھ رقم اس میں ڈال کر دے دی جاتی ہے کہ اگر دلہن کبھی گھر سے نکال باہر کرئے تو یہ رقم اُس کے کچھ کام آجائے گی۔

اب تو ہمارے کچھ علماء حضرات نے بھی لفافے کی افادیت کو جان لیا ہے اگر کوئی بھی فتوع ٰ لینا ہو بس لفافے میں ہدیا عطا کریں اور من چاہا فتوع حاصل کریں یہ الگ بات ہے کہ قیمت الگ الگ ہوتی ہے۔ بلکہ آج کل تو خبروں میں یہ بھی چل رہا ہے کہ لفافے کے ساتھ ساتھ ایک عدد بوتل بھی چلتی ہے۔ جب لفافے کا زکر چل رہا ہے تو ڈاکٹر صاحب کیوں پیچھے رہیں گے ویسے تو سرکاری ڈاکٹر لفافہ لے کر کوئی بھی سرٹیفکیٹ دے دیتے ہیں مگر نجی کلینک چلانے والے تو عوامی چمڑی کے بنے ہوئے لفافے پسند کرتے ہیں کہ ہرکسی کے بس کی بات نہیں کہ اُن سے علاج کروا لے۔


ویسے لفافہ اب ایک سمبل بھی بن چکا ہے کسی پر کوئی بھی الزام لگانا ہویا اُس کی اوقات بتانی ہوتو اُسے لفافے کا ہی نام دیا جاتا ہے۔ لفافے کا سب سے زیادہ استعمال ہمارے میڈیا میں ہوتا ہے۔ جتنا لفافے کا الزام صحافیوں پر لگتا ہے اُتنا کسی اور پر نہیں لگتا۔ ویسے اب وقت آچکا ہے کہ ہم صحافت کی تعریف پر نظر ثانی کریں ۔ ہمارے روحانی اُستادروف کلاسرا صاحب کسی بھی ایسے شخض کو صحافی ماننے سے انکاری ہیں جن کا زریعہ آمدن صحافت کے علاوہ بھی کچھ اور ہو۔

اگر کچھ دوست مزید ان کا ساتھ دیں تو صحافت کی ایک نئی تعریف کی جاسکتی ہے۔ مگر ہم تبدیلی کے خواں ہی کب ہیں۔ ہمارے کچھ سینئر صحافی لفافے کے ساتھ ساتھ پکنچر لگانے کا کام بھی سیکھ چکے ہیں اور اُس کے عوض کافی بڑئے بڑئے عہدوں پر بھی فائض ہو جاتے ہیں۔ جب سے صحافت جیسے مقدس پیشے میں لفافہ داخل ہو چکا ہے لوگوں کا صحافت سے اعتبار اُٹھ چکا ہے۔

اب کوئی بھی صحافی خبر بریک کرئے اُس پر لفافے کا الزام لگا دیا جاتا ہے ویسے لفافوں کے سب سے زیادہ عادی ہمارے کالم نگار ہوتے ہیں بس کالم لکھنا شروع کردو پھر آپ چاہے چاپان میں ہوں کسی یونیوسٹی میں آپ تک لفافہ پہنچ جائے گا۔ اب تو بہت سے دانشور بھی اس لفافے کی دوڑ میں شامل ہوچکے ہیں اور اُن کو لفافے میں کسی بھی کلچرل ادارئے کی بھاگ دوڑ ڈال کر پیش کردی جاتی پھر اُس میں بیٹا بھی شامل ہو جائے تو سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے۔

وہ صحافی جو دن رات محنت کرکے ادارئے کی بہتری کے لیے کام کرتے ہیں اُن بیچاروں کو تو اپنی تنخواہ کا بھی لفافہ مشکل سے ملتا ہے پھر وہ بھی رفتہ رفتہ لفافے کی طرف لوٹ جاتے ہیں کہ خربوزے کو دیکھ کر ہی خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ ویسے ہمارے اکثر صحافیوں کو ایک لت پڑ چکی ہے کہ ہر خبر کے ساتھ ہی اپنا تجزیہ بھی شامل کرلیتے ہیں جبکہ خبر میں اپنا تجزیہ پیش کرنا کسی جرم سے کم نہیں لیکن کیا کریں لفافے کی کرامات بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔


ہمارے ہاں اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ سیاسی جلسوں میں کارکن کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں جس سے سیاسی جماعت کی کافی سبکی ہوتی ہے لہذا اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بریانی کی پلیٹ بھی لفافے میں ڈال کر پیش کر دی جائے تاکہ کارکن اپنی اوقات میں رہیں۔ ویسے سیاسی کارکنان کو الیکشن تک لفافوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ سنا ہے پاکستان کے عوام میں اب تھوڑا بہت شعور آتا جا رہا ہے اور وہ کرپٹ عناصر کو کوڑا کرکٹ والے لفافوں میں ڈال کر کہیں دور پھینکنے کے موڈ میں نظر آتے ہیں۔

ویسے تو لفافے کے استعمال سے قومیں ہمیشہ پیچھے ہی گئی ہیں مگر ہماری تو بات ہی الگ ہے ہم پچھلے 67سالوں سے لفافوں کی جان نہیں چھوڑ رہے جو جتنا بڑا لفافہ باز ہو گا اُتنی ہی عزت کمائے گا۔ کیونکہ لفافے کے بعد انسانوں کی خصلت اور اوقات بدلنا شروع ہو جاتی ہے سائیکل سے لمبی موٹر تک کا سفر لفافے پر بیٹھ کر ہی طے کیا جاتا ہے۔ مٹی کے گھر سے EMEسوسائٹی تک کا سفر بھی اسی لفافے کا کمال ہے پتا تو سب کو ہے کہ شعر کہنے کے پیسے ہی کتنے ملتے ہیں۔

اصلی دانشور تو آج بھی ٹوٹے پھوٹے سکوٹر کو ہی دھکا لگاتے نظر آتے ہیں۔ اس قوم کی ہمیشہ سے بدقسمتی رہی ہے کہ جو بھی آیا لفافوں کی نظر ہو گیا۔ سب نے اپنے اپنے لفافے بھرے غریب عوام کا نہ کسی نے پہلے سوچا نہ ہی آنے والے وقت میں دیکھائی دے رہا ہے کہ حالات کچھ بہتر ہوں گے۔ بلکہ ایک رواج تو یہ بھی چل پڑا ہے کہ اپنا لفافہ بھرو پھر کسی دوسرے ملک میں جا کر عیش کرو۔

اس قوم کو خوب لوٹو دوست احبابوں کو بھی لفافہ بھرنے میں مدد کرو جو ملک سے باہر ہیں انہیں دعوت دو کہ یہ عوام سو رہی ہے اس لیے جلدی جلدی آجاؤ اور اپنے حصے کا لفافہ بھر کر چلتے بنو۔ کسی بھی غیر ملکی کو بلاؤ اُسے کوئی بڑا سا عہدہ عنایت فرماو اور اُس کے احسانوں کا بدلہ چکاؤ پھر جاتے ہوئے ایک عدد بڑا سا لفافہ ہاتھ میں تھماؤ اور گڈبائے کہ کر رخصت کرو۔

کیونکہ ابھی اس قوم کے جاگنے کے لیے انتظار کرنا پڑئے گا اور یہ انتظار کتنا طویل ہوگا کوئی نہیں جانتا۔ بہت سے پاکستانی پر اُمید ہیں کہ وہ وقت آنے والا ہے جب ہماری قوم بھی نیند سے جاگے گی اور اپنے حقوق کے لیے لفافے والوں کو اسی لفافے میں بند کردے گی۔ اسی آس میں دو نسلیں تو تقریبا جا چکی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ہوتے ہی یہ قوم جاگتی ہے یا پھر ابھی ایک دو نسلوں تک مزید انتظار کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اب تو کچھ سیاستدانوں نے سرخی پوڈر بھی لفافوں میں لانا شروع کر دیا ہے کہ جلسے جلسوں کی گرد و غبار سے بچا جاسکے۔ تو بھائی یہ تھا ل سے لفافہ اور ابھی تک لفافہ صاحب کا سفر جاری و ساری ہے اب یہ سفر ختم کہاں ہو گا اللہ ہی بہتر جانے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :