پیپلزپارٹی کی تگ ودَو
بدھ 29 اکتوبر 2014
(جاری ہے)
تحریکِ انصاف نے 2013ء کے انتخابات میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی اور ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے پیپلزپارٹی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی قوت بن کر اُبھری ۔
اگر وہ پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالنے کی زحمت کر لیتے تو اُن پر عیاں ہوجاتا کہ ”امپائر“کی انگلی ہمیشہ اپنے لیے ہی کھڑی ہوتی ہے کسی سیاستدان کی حمایت میں نہیں۔نوازلیگ اور پیپلزپارٹی نے تو تاریخ سے سبق حاصل کرلیا اور تیسری قوت کا راستہ روکنے کے لیے ایک دوسرے کی حمایت کا ”غیر تحریری“ معاہدہ بھی کر لیا لیکن خاں صاحب سے چُوک ہوگئی اور وہ اپنے پہلے ہی سیاسی امتحان میں بُری طرح ناکام ہوگئے جبکہ دوسری طرف چھوٹی بڑی تمام سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو گئیں اور خاں صاحب کے حق میں ایک صدا بھی بلند نہ ہوئی ۔وجہ وہ جانتے ہی ہونگے کہ اُنہوں نے ہر سیاسی جماعت کو اپنی شدید ترین تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اتنی دوریاں پیدا کر لیں کہ کوئی اُن کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونے کے لیے تیار نہ ہوا ۔اِس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ راوی اب نوازلیگ کے لیے عیش ہی عیش لکھتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ خاں صاحب اب بھی متوسط طبقے کے نوجوانوں میں بہت مقبول ہیں اور اُن کی یہ مقبولیت نوازلیگ کے لیے لمحہٴ فکریہ بھی ہے۔تحریکِ انصاف کے دھرنوں کی ناکامی کے بعد اب پیپلزپارٹی ایک دفعہ پھر پنجاب فتح کرنے کے خواب دیکھنے لگی ہے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ خرابیٴ بسیارکے باوجود بھی تحریکِ انصاف پنجاب میں پیپلزپارٹی سے کہیں زیادہ مقبول ہے جس کا واضح ثبوت ملتان کا ضمنی الیکشن ہے جس میں جیالوں نے پیپلزپارٹی کو بری طرح مسترد کر دیا۔اکابرینِ پیپلزپارٹی کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ اب اُن میں کوئی بھٹو ہے نہ بینظیر اور بلاول تو ابھی بچہ ہے ۔بجا کہ کراچی کے جلسے میں بلاول کا آہنگ بہت بلند تھا اور تقریر جوشیلی ۔وہ بار بار بھٹوازم کے نعرے بھی بلند کرتا رہا لیکن یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کالج کا کوئی سٹوڈنٹ تقریری مقابلے میں حصہ لے رہا ہو ۔یہی وجہ ہے کہ اسے عوام کی طرف سے وہ پذیرائی نہ مل سکی جو تحریکِ انصاف کے جلسوں میں نظر آتی ہے ۔جس” بھٹوازم“ کا پرچار بلاول زرداری نے اپنی تقریر میں کیا اُس کی بنیاد ہی روٹی ،کپڑا ور مکان پر رکھی گئی تھی ۔بھٹومرحوم اپنے اس نعرے کو عملی جامہ تو نہ پہنا سکے البتہ اُن کی کرشماتی شخصیت کا سحربرقرار رہا اور جیالوں کو یقین کہ وہ اپنا عہد ضرور ایفا کریں گے ۔ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی پر جیالوں کے سارے خواب توچکناچور ہو گئے البتہ یہ یقین برقرار رہا کہ اگر بھٹو زندہ رہتے تو جیالوں کے خواب حقیقت کا روپ دھار لیتے ۔بینظیرشہید کے سیاست میں قدم رکھتے ہی جیالوں کو یوں محسوس ہوا جیسے ذوالفقارعلی بھٹوزندہ ہوگئے ۔یہی وجہ تھی کہ چشمِ فلک نے آمر کی موجودگی کے باوجود بینظیر کا فقید المثال استقبال دیکھا ۔مدبر بینظیر اپنے والد کی کربناک موت کو اپنی سیاست کا محورومرکز بناکر ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے“ جیسے جذباتی نعروں سے جیالوں میں خونِ گرم کی لہریں موجزن کرتی رہیں اوراسٹیبلشمنٹ کی بھرپور مخالفت کے باوجود 1988ء کا انتخاب جیت گئیں۔1990ء میں اُن سے اقتدار چھن گیا لیکن 1993 ء میں پھر برسرِاقتدار آ گئیں۔ 1997ء میں اُنہی کی پارٹی کے منتخب کردہ صدر فاروق لغاری مرحوم نے اُن کی حکومت پر شدید ترین بدعنوانی کے الزامات لگا کر اُنہیں چلتا کیا ۔یہ عین حقیقت ہے کہ اپنے اِن دونوں ادوار میں بینظیرشہید جیالوں کو مطمعن نہ کرسکیں ۔2008ء کے انتخابات سے پہلے وہ شہید کر دی گئیں اور اسی خونِ ناحق کی بدولت پیپلزپارٹی ایک دفعہ پھر برسرِاقتدار آ گئی ۔اپنے اِس پانچ سالہ دور میں پیپلزپارٹی نے کرپشن کی انتہا کردی اور اپنی جماعت سے مکمل طور مایوس جیالوں نے 2013ء کے انتخابات میں اُسے سندھ تک محدود کر دیا ۔اب ایک دفعہ پھر پیپلزپارٹی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے ۔ اب کی بار بینظیرشہید کے بیٹے بلاول کو سامنے لایا گیا ہے تاکہ ہمدردی کا ووٹ حاصل کیا جا سکے ۔شنید ہے کہ آصفہ زرداری بھی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میدانِ سیاست میں قدم رکھ رہی ہے ۔اپنی ساری تگ ودو کے باوجود پیپلزپارٹی اب اپنے شہیدوں کی قبروں کے طفیل ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہی رہے گی کیونکہ ایک تو اُس نے جیالوں کو اپنے اِس پانچ سالہ دَورِحکومت میں انتہائی مایوس کیا اور دوسراوہ وقت کا عنصر فراموش کر بیٹھی ہے ۔اکابرینِ پیپلزپارٹی کو یہ ذہن میں رکھنا ہو گا کہ وہ نسل جو پینتالیس سال پہلے ذوالفقارعلی بھٹو کی شیدائی تھی ،اب مفقود ہوچکی ہے اور اُس نسلِ کہن کی جگہ نسلِ نَو نے لے لی ہے ،جس کا بھٹومرحوم سے نہ تو کوئی تعارف ہے اور نہ ہی جذباتی رشتہ ۔یہ نسلِ نَو اب یا تو نوازلیگ کے ساتھ ہے یا پھر تحریکِ انصاف کے ساتھ ۔یہ نسلِ نَوشعور کی اُس منزل پر ہے کہ بلاول زرداری جیسے نوجوان اُسے گمراہ کرسکتے ہیں نہ بلاول اپنے نانا ذوالفقارعلی بھٹو کا نعم البدل ثابت ہوسکتا ہے اِس لیے فی الحال تو پیپلزپارٹی کی پنجاب میں کوئی گنجائش نظر نہیں آتی ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر مظہر کے کالمز
-
ریاستِ مدینہ اور وزیرِاعظم
اتوار 13 فروری 2022
-
وحشت وبربریت کا ننگا ناچ
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
اقبال رحمہ اللہ علیہ کے خواب اور قائد رحمہ اللہ علیہ کی کاوشوں کا ثمر
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
رَو میں ہے رَخشِ عمر
جمعہ 30 جولائی 2021
-
یہ وہ سحر تو نہیں
جمعہ 2 جولائی 2021
-
غزہ خونم خون
ہفتہ 22 مئی 2021
-
کسے یاد رکھوں، کسے بھول جاوٴں
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
یہ فتنہ پرور
ہفتہ 20 مارچ 2021
پروفیسر مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.