ٹیکس ہی ٹیکس ۔سہولت کوئی نہیں

جمعہ 31 اکتوبر 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

ہر مہذب معاشرے میں مہذب افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کے ٹیکس سے حکومت کا کاروبار چلتا ہے جبکہ معاشرے کے ان افراد کی مدد بھی ہوتی ہے جو کسی وجہ سے کمزور ہو چکے ہوں تنہا ہوں یا کاروبار میں نقصان اٹھا چکے ہوں ، یہ اصول بھی یونیورسل ہے کہ جس کے پاس ہے وہ جن کے پاس نہیں ہے کی مدد کرے یوں معاشرے عدم توازن سے بچ کر توازن بدوش راہ اختیار کر لیتے ہیں یورپ، امریکہ ، سیکنڈئے نیوین ممالک میں ٹیکس کا نظام اس قدر صاف اور شفاف ہے کہ وہاں کے شہری ٹیکس چوری جیسی قبیح حرکت کا سوچ ہی نہیں سکتے اور مزے داری کی بات یہ ہے کہ وہاں کی حکومتیں بھی عوام کے ٹیکس کو نہ ہی اپنے اللے تللوں پہ خرچ کرتی ہیں اور نہ ہی بد دیانتی کی مرتکب ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہاں افراد معاشرہ بھی ایک دوسرے پر نظر رکھتے ہیں اور ٹیکس چوری کو قومی جرم سمجھا جاتا ہے ،ویسے بھی حکومتیں عوام کی خون پسینے کی کمائی سے جو ٹیکس عوام سے وصول کرتی ہیں بدلے میں عوام کو امن سکون ،اور بہتر طرز زندگی گزارنے کا ماحول فراہم کرتی ہیں۔

(جاری ہے)

جبکہ ہمارے جسے ملکوں میں ایک طرف متمول افراد ،بڑئے تاجر ،صنعت کار، زمیندار اور وڈیرئے حکومت کو اپنی آمدن کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کرتے تو دوسری طرف حکومت ،کاوربارو حکومت چلانے کے لئے غریب مزدور، محنت کش ،سرکاری ملازمین ،کسان اور عام عوام کی جیبوں سے ٹیکس نکلوانے کے لیے ہر خرید و فروخت شدہ آئٹم پر ٹیکس لگا دیتی ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں دو تین سو روپیہ روز کمانے ولا اور لاکھوں کی دیہاڑی لگانے ولا ایک جیسا ٹیکس اداکرتے ہیں اس پر تماشہ دیکھیے دو تین سو کمانے والے اور کم آمدن والے سرکاری و غیر سرکاری ملازمین کے رہاشی علاقے ، ہر طرح کی سہولتوں سے محروم رہتے ہیں جبکہ امراء کے علاقوں میں ہر طرح کی سہولیات ہاتھ باندھے کھڑی ان کے دروازوں پہ مہیا کی جاتی ہیں یہ ایک ایسا ظلم ہے جو کسی کو نظر ہی نہیںآ تا اور نہ کوئی اس پر آواز اٹھاتا ہے، ایک چھوٹی سی مثال سے سمجھنے کی کوشش کیجیے موبائل فون کے ہر ریچارج پر غریب اور امیر کے لئے ٹیکس کی شرح یکساں ہے اسی طرح ہر وہ چیز جو آپ اپنے لئے اپنے بچوں کے لئے خریدتے ہیں کھاتے، پیتے، پہنتے، استعمال کرتے ہیں سب پر یکساں شرح سے حکومت ٹیکس وصول کرتی ہے یہاں تک کہ بجلی ،پانی، گیس ،اور پٹرولیم کی تمام مصنوعات پر بھی یکساں شرح سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جسے ان ڈائریکٹ ٹیکس کہا جاتا ہے۔

اور پھر تمام سرکاری و غیر سرکاری تنخواہ دار ملازمیں کی تنخواہوں سے ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے حالانکہ چار لاکھ سے کم آمدن والے پر کوئی انکم ٹیکس واجب نہیں پھر بھی ہر تنخواہ دار کی تنخواہ سے ٹیکس کٹتا ہے۔ پورئے ایشیا کے خطے میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں کے غریب افراد بھی سب سے زیاد ٹیکس اداکرتے ہیں۔ہم جو روز مرہ کے استعمال کی چیزیں خریدتے ہیں حکومت ان پر صارفین سے 17 سے 19.5فیصد تک سیلز ٹیکس وصول کرتی ہے ملک میں لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہو چکے ہیں ،مناسب علاج کی سہولتیں نہ ملنے سے ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن اشرافیہ کی پر تعیش زندگی میں کوئی فرق نہیں آتا۔

پٹرولیم مصنوعات پر تیس سے پینتیس فیصد سرچارج وصول کیا جاتا ہے جس کی شرح غریب اور امیر پر یکساں ہے۔
کچھ دن ہوئے میں نے امریکہ سے واپس پاکستان آتے ہوئے ائر پورٹ پر ٹیکس ادا کرنے اور نہ کرنے والوں کی الگ الگ قطاریں دیکھیں تو بڑا عجیب سا لگا کہ کہ دنیا بھر میں ایسا کوئی تصور نہیں کہ عوام کی یوں توہین کی جائے اسی طرح آج کل کوئی بھی گاڑی خریدنے جائیں تو گاڑی کی خریداری پر ایک ایڈیشنل ٹیکس لگا دیا گیا ہے جو ٹیکس ادا اور نہ ادا کرنے والے کے فرق رکھتے ہوئے وصول کیا جاتا ہے۔

ساری دنیا میں ایک مسلمہ اصول ہے کہ زیادہ آمدن والوں سے ٹیکس لیا جاتا ہے اور کم آمدن والوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں کم آمدن والے زیادہ آمدن والوں کا پیٹ بھی بھرتے ہیں اور ضرورتیں بھی پوری کرتے ہیں اس کے باوجود ان حرماں نصیبوں کی زندگی کا مشاہدہ بتا تا ہے کہ یہ لوگ کن بری حالتوں میں زندہ ہیں ۔
پاکستان بیس کروڑ آبادی رکھنے والا ملک ہے جس کی کل آبادی میں سے، 43 فیصد 15 سال سے کم عمر کے افراد پر مشتمل ہے جو ٹیکس نیٹ میں نہیں آتے جبکہ تقریبا تیس لاکھ سے کچھ زائد افراد این ٹی این کے حامل ہیں مگر جب ٹیکس ریٹرن جمع کرائی جاتی ہے تو ان کی تعداد بیس پچیس فیصد سے زائد نہیں ہوتی اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں نمبر ایک تو این ٹی این نمبر کے حامل افراد میں ایک اچھی خاصی تعداد ایسے افراد کی ہے جن کی انکم چار لاکھ سے کم ہے ، ان میں چھوٹے کاروبار اور سروسز فرام کرنے والوں کے ساتھ تنخواہ دار طبقات اور پینشنرزجن کا لین دین بنکوں کے زریعے ہے اور انہیں بنک میں اکاونٹ کھلوانے کے لئے این ٹی اٰن نمبر لینا پڑتا ہے کیونکہ بنک بغیر این ٹی این کے اکاونٹ نہیں کھولتے۔

ایف بی آر کا ہدف بھی یہی لوگ ہیں اس لئے ہر سال ٹیکس وصولی کا جو ہدف رکھا جاتا ہے وہ پورا نہیں ہوتا ،غریب عوام حکومت کے لئے وہ (شوگر کین)گنا ہے جسے بار بار جوس نکالنے والی مشین میں ڈالا جاتا ہے مگر اس میں سے کتنا جوس نکل سکتا ہے اس کا ادراک نہیں کیا جاتا جبکہ جو لوگ ٹیکس ادا کر سکتے ہٰن اور جن سے حکومت کو ہر حال میں لینا چاہیے وہ حکومت کے ناک کا بال بنے اس کے ساتھ رہتے ہیں خرابی یہیں سے شروع ہوتی ہے آج پاکستان میں جو مہنگائی ،بد امنی ،انتشار غربت کے ہاتھوں ستائے افراد کی خود کشیوں کی تعداد اور جرائم میں اضافے کا سبب یہی طبقہ اشرافیہ ہے جو غریبوں کے ٹیکسوں پر پل رہا ہے جو خود ٹیکس ادا نہیں کرتا جبکہ ان میں ہزاروں لوگ ایسے ہیں جن کی دولت کا شمار ہی کوئی نہیں حکومت کو چاہیے کہ وہ بہتر طرز حکومت قائم کرنے کے لئے غریب افراد کو رلیف دینے کے لئے امیروں پر ٹیکس لگائے اور اس کا فائد عام عوام کو پہنچایا جائے ورنہ وہ دن دور نہیں جب حکومتی اکابرین کا بھی گھروں اور دفاتر سے نکلنا محال ہو جائے گا۔

۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :