بھیانک مستقبل کا خطرناک آغاز ؟

جمعہ 31 اکتوبر 2014

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

ملتان میں منعقدہ وفاق المدارس العربیہ کے ملکی سطح کے اجلاس میں ملک کے اکابر علمائے کرام نے ہے کہ مولانا فضل الرحمن پر حملہ پاکستان کے بھیانک مستقبل کا خطرناک آغاز ہے، اس سلسلے کی روک تھام کا بروقت انتظام کیا جائے۔ اس موقع پر وفاق المدرس کے قائدین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ علماء و طلبہ اور مدارس دینیہ کی سیکورٹی کا فول پروف انتظام کیا جائے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ مولانا فضل الرحمن سمیت جملہ علماء کرام پر حملوں میں ملوث لوگوں اور ان کے پس پردہ قوتوں کو بے نقاب کیا جائے اور جلد از جلد گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔۔ اجلاس میں مولانا فضل الرحمن پر ہونے والے حملے، کراچی، اسلام آباد اورراولپنڈی میں علماء کرام کی پے درپے شہادتوں اور کوئٹہ میں دینی مدارس پر حملوں اور مدارس کے اساتذہ و طلبہ کی شہادتوں کے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور منظم منصوبے کے تحت جاری ان کارروائیوں کو وطن عزیز پاکستان کو بدترین انتشار، خلفشار اور انارکی سے دوچار کرنے کی سازش قرار دیا گیا۔

(جاری ہے)


ویسے تو پاکستان میں علماء کرام کے قتل اور دینی اداروں اور شخصیات پر حملوں کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہیتاہم جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن پر کوئٹہ میں ہونے والے حالیہ مبینہ خودکش حملے نے ملک کے دینی حلقوں کو اضطراب اور پریشانی کی صورت حال سے دوچار کردیا ہے اور علماء کرام کی جانب سے اس واقعے کو” پاکستان کے بھیانک مستقبل کا خطرناک آغاز“ قرار دینا صورت حال کی نزاکت واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔


ہمارے ہاں خودکش حملے عام طور پر قبائلی علاقوں اور خیبرپختونخوا میں سرگرم عسکری تنظیموں کی طرف سے کیے جاتے رہے ہیں اور عام طور پر ان کی ذمہ داری بھی ان کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہے۔ تازہ حملے کے بعد بعد ابتدائی طور پر جند اللہ نامی گروپ کی جانب سے واقعے کی ذمہ دای قبول کی گئی اور کہا گیا کہ چونکہ مولانا فضل الرحمن جمہوری سیاست کرتے ہیں اس لیے ان کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن پر حملہ جس نے بھی کرایا ہے، اس کے لیے عنوان مولانا کی سیاسی پالیسیوں سے اختلاف کو باور کرایا ہے۔ حملے کے لیے کسی عسکریت پسند گروپ کو استعمال کرنے کی وجہ ناقابل فہم نہیں ہے کیونکہ بعض عسکریت پسند گروپوں کی ذہنی ساخت اور ٹریک ریکارڈ دونوں کا جائزہ اس امکان کودرست سمجھنے کا جواز فراہم کرتا ہے، یہ کسی ایسے چھوٹے گروپ کی کارستانی ہوسکتی ہے، جس کو شعوری یا غیرشعوری طور پر خصوصی انداز میں برین واش کرکے مولانا کے پیچھے لگادیا گیا ہے اور جس انداز سے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور خیبرپختونخوا کے بعض اضلاع میں عالمی طاقتوں کی پروردہ ایجنسیاں سرگرم ہیں، اس کو سامنے رکھتے ہوئے یہ امربعید ازقیاس نہیں ہے کہ جہادی تنظیموں کے روپ میں کام کرنے والے کسی گروہ نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنے ”خودکش حملہ آور“ بھی تیار کررکھے ہوں، جن کو غیرشعوری طور پر استعمال کیا جارہا ہو۔

اس بناء پر اس امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ مولانا فضل الرحمن پر ہونے والے حملے کی وجوہ کا تعلق خطے سے متعلق بین الاقوامی سیاست سے ہو اور اس کا اصل مقصد خطے میں انتشار و خلفشار پھیلانے کی استعماری سازشوں کے لیے راستہ ہموار کرنا اور ان سازشوں کے خلاف پر امن سیاسی جدوجہد کی ایک توانا آواز کو خاموش کرانا ہو۔ عالمی طاقتوں نے عراق، شام ، لیبیااور دیگر مسلم ممالک میں مختلف مذہبی و نسلی طبقات کو آپس میں لڑواکر کشت و خون کا جو بازار گرم کیا ہوا ہے،پاکستان میں پر امن سیاسی جدوجہد کی حامی اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والی موثر دینی قیادت کی موجودگی یہاں ایسے حالات پیداکرنے کی کوششوں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے،ایسا لگتا ہے کہ اب یہاں بھی وہ خطرناک کھیل کھیلے جانے کا پروگرام ہے اور اس کے لیے مولانا فضل الرحمن جیسی شخصیات کو جو عالمی شاطروں کے منصوبوں کو سمجھتی ہیں، راستے سے ہٹانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔


مگر ظاہر ہے کہ جو بھی عالمی یا مقامی طاقتیں یہ کھیل کھیل رہی ہیں، ان کو اس کا موقع اس لیے مل رہا ہے کہ بد قسمتی سے یہاں ایک فکری انتشار کی کیفیت موجود ہے۔ مولانا فضل الرحمن تو چونکہ سیاسی حوالے سے شہرت رکھتے ہیں، اس لیے ان کے خلاف مسموم فضا تیار کرنا کوئی مشکل نہیں ہے، یہاں مولانا حسن جان اور مولانا نور محمد جیسی خالص علمی اور روحانی شخصیات کو بھی نہیں بخشا گیا۔

مولانا پر حملے کے بعد پاکستان میں پر امن دینی جدوجہد کی حامی تمام دینی تحریکوں اور علمائے کرام کو اس نکتے پر غور کرنا ہوگا کہ محض حکمت عملی کے اختلاف کی بناء پر لوگوں کو نشانہ بنانے کے رجحان کو اگر نہ روکا گیا تو آگے چل کر خود دینی حلقوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے اور اگر مولانا فضل الرحمن جیسے سیاسی سمجھ بوجھ والے علماء اور دینی قائدین بھی خدانخواستہ راستے سے ہٹادیے گئے تو ملک کے حالات کس رخ پر چلے جائیں گے۔


مولانا فضل الرحمن اگر جمہوری سیاست کرتے ہیں اور پاکستان میں فرقہ واریت اور مسلح جدوجہد کی حمایت نہیں کرتے تو کیا وہ ایسا کرنے والے پاکستان کے پہلے عالم دین اور سیاست دان ہیں؟حقیقت یہ ہے کہ علماء کو پر امن سیاسی جدوجہد کا سبق سب سے پہلے شیخ الہند مولانا محمود حسن نے دیا تھا جن کی ساری زندگی سامراج دشمنی سے عبارت تھی۔ تحریک ریشمی رومال کی ناکامی کے بعد1920ء میں جمعیت علماء ہند قائم ہوئی اور اس کے بعد سے ابو حنیفہٴ ہند مولانا مفتی کفایت اللہ، علامہ انور شاہ کشمیری، مولانا سید حسین احمد مدنی، علامہ شبیر احمد عثمانی اور دیگر بزرگوں نے انگریزوں کے دور میں بھی پر امن سیاسی جدوجہد کو ہی اپنا راستہ بنایا، قیام پاکستان کے بعدمولانا احمد علی لاہوری، مولانا عبد الحق، مولانا مفتی محمود اور مولانا عبد اللہ درخواستی جیسے اساطین علم بھی اسی جمہوری سیاست کاحصہ رہے،آج جس طرح کے الزامات مولانا فضل الرحمن پر لگائے جاتے ہیں، کم و بیش اسی طرح کے الزامات ان بزرگوں خاص طور پر مولانا مفتی کفایت اللہ اور مدنی جیسے اہل اللہ پر بھی لگائے گئے۔

آج پر امن سیاسی و جمہوری جدوجہد کرنے والوں پر جو فتوے عائد کئے جارہے ہیں، کیا ان کی زد ان تمام مذکورہ بزرگوں پر نہیں پڑتی جن کی عظمت و تقدس کے حوالے دیے جاتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کا شمار ان گنی چنی دینی شخصیات میں ہوتا ہے جو پاکستان میں پرامن سیاسی وجمہوری جدوجہد کے پرزور حامی ہونے کے باوجود پاکستان میں سرگرم عسکریت پسند گروپوں پر بھی اس لیے اثر ورسوخ رکھتے ہیں کہ جن علاقوں میں یہ گروپ سرگرم ہیں، وہ روایتی طور پر جمعیت علمائے اسلام کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں اور ان علاقوں میں اس وقت بھی جمعیت کی سیاسی قوت تسلیم کی جاتی ہے۔

مولانا فضل الرحمن واحد سیاست دان ہیں جو قبائلی علاقوں میں امریکی ایماء پر کی جانے والی فوجی کارروائیوں کی بھی کھل کر مخالفت کرتے ہیں ۔ گزشتہ پارلیمنٹکے ان کیمرہ اجلاس سے ان کے پرسوز خطاب کے نتیجے میں جو قرار داد منظور ہوئی تھی، اگر اس پر عمل درآمد ہوتا تو شاید آجملک کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ آج بھی موقع ہے کہ حکومت اور قومی سلامتی سے متعلق ادارے مولانا فضل الرحمن کی صلاحیتوں اور اثرو رسوخ سے فائدہ اٹھائیں اور قبائلی علاقوں میں جاری شورش کے خاتمے کے لیے مولانا کی ثالثی اور تجاویزکو قبول کریں۔


ساتھ ساتھ یہ بھی ہماری حکومت اور اداروں کا فرض ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمن پر ہونے والے حملوں کی ہمہ جہت تحقیقات کر واکے ان قوتوں کو بے نقاب کریں، جو مولانا جیسی مقتدر دینی وسیاسی شخصیات کو نشانہ بناکر پاکستان میں عدم استحکام اور انتشار کی فضا پھیلانا چاہتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی سیاسی پالیسیوں ، نظریات اور حکمت عملی سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، بہت سے دینی و قومی حلقے اخلاص کی بنیاد پر ان سے اختلاف کا اظہار بھی کرتے ہیں، لیکن اس امر کا مولانا کے مخالفین اور ناقدین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ مولانا نہ صرف ایک موقر دینی جماعت کے سربراہ اور سیاست میں علماء کے سرخیل ہیں، بلکہ ان کا شمار ملک کے ذہین ترین سیاست دانوں اور مدبر سیاسی رہنماوٴں میں ہوتا ہے۔

مختلف بین الاقوامی جرائد کی رپورٹوں میں بھی بار ہا مولانا کی اس حیثیت اور صلاحیت کو تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ اس لحاظ سے وہ پوری قوم اور ملتکا سرمایہ اور اثاثہ ہیں۔ ان کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کا فرض بنتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ مولانا کو راستے سے ہٹانے کی خوا ہش مند قوتیں اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو جائیں اور یہاں واقعی ”بھیانک مستقبل کا خطرناک آغاز“ ہوجائے جس سے علماء کرام نے خبردار کیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :