مزید صوبوں کے قیام میں قباحت کیا ہے؟

جمعہ 31 اکتوبر 2014

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

اقوام متحدہ کے 2007 کی آبادی کے تخمینہ میں 220آزاد ممالک اور داخلی خود مختاری رکھنے والے علاقوں اور ریاستوں کو شامل کیا گیا ہے ۔اس فہرست میں صرف چودہ ممالک ایسے ہیں جن کی آبادی آٹھ کروڑ سے متجاوز ہے۔ باقی66ممالک یا ریاستوں کی آبادی سات کروڑ سے ایک کروڑ کے درمیان ہے ۔سات کروڑ سے کم آبادی والے ممالک میں مصر،ترکی ،ایران ،فرانس،تھائی لینڈ،برطانیہ ،اٹلی ،جنوبی افریقہ ،جنوبی کوریا ،اسپین،سوڈان ،پولینڈ،کینیا،الجزائر،کینڈا ،مراکش،اعراق،نیپال،سعودی عرب ،افغانستان ،شمالی کوریا،یمن ،رومانیہ ،آسٹریلیا ،شام ،سری لنکااورہالینڈ وغیرہ شامل ہیں ۔

جبکہ بقیہ 140ممالک کی آبادی ایک کروڑ سے کم ہے ۔ایک کروڑ سے کم آبادی والے ممالک میں سویڈن،صومالیہ،آذربائیجان،آسٹریا،بلغاریہ،سوئٹزر لینڈ،اسرائیل،لیبیا، اردن،ڈنمارک،کرغزستان،ناروے،نیوزی لینڈ،متحدہ عرب امارات اورکویت وغیرہ شامل ہیں ۔

(جاری ہے)


آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ مصر کی آبادی محض سات کروڑ چون لاکھ اٹھانوے ہزار ہے اورآبادی کے لحاز سے مصر دنیا کا پندھرواں اور افریقہ کا دوسرا بڑا ملک ہے۔

اب ان ممالک کی انتظامی تقسیم ملاحظہ فرمائیں۔سب سے پہلے اعراق کی بات کرتے ہیں، اعراق کی کل آبادی جولائی2005 کی مردم شماری کے مطابق دو کروڑ چوہتر ہزار نو سوچھ ہے ۔جبکہ عراق کو 18 محافظات (محافظ صوبہ کا ہم معنی ہے)میں تقسیم کیا گیا ہے ۔یعنی اعراق کا ایک صوبہ پندرہ لاکھ بائیس ہزار کی آبادی پرمشتمل ہے ۔ ایران کا زکر کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایران کی آبادی سات کروڑ بارہ لاکھ آٹھ ہزار ہے ۔

ایران کو انتظامی طور پر تیس صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے جنکو فارسی زبان میں استان کہتے ہیں۔ ہر صوبہ کا ایک دارالخلافہ ہے جسکو کو مرکز کہتے ہیں اور جو عام طور پر صوبہ کا سب سے بڑا شہر ہوتا ہے۔ 1950 تک ایران کل 12 صوبوں میں تقسیم تھا، جنکو 1950 میں انتظامی طور پر تبدیل کر کے 10 ریاستوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ 1960 تا 1981 کئی ریاستوں کو ایک ایک کر کے صوبوں کا درجہ دیا جاتا رہا اور ساتھ ہی ساتھ نئے صوبے بھی بنائے جاتے رہے، جس سے صوبوں کی تعداد بڑھتی گئی۔

آخری بار 2004 میں صوبہ خراستان کوتقسیم کر کے تین نئے صوبوں میں تبدیل کیا گیاتھا۔ایران میں سب سے بڑا صوبہ تہران ہے جس کی آبادی ایک کروڑ پینتیس لاکھ کے قریب ہے جبکہ سب سے چھوٹا صوبہ ایلام ہے جس کی آبادی پانچ لاکھ پینتالیس ہزار ہے ۔ اسی طرح ہم کینیڈا کو دیکھتے ہیں کہ اس کی آبادی تین کروڑ تیس لاکھ کے قریب ہے اور کینیڈا کو دس صوبوں اور تین ریاستوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔

ترکی کی آبادی سات کروڑ اڑتالیس لاکھ سے متجاوز ہے ۔ترکی81 صوبوں میں تقسیم ہے اور ہر صوبہ مزید چھوٹی اکائی اضلاع میں تقسیم ہے۔ عام طور پر صوبہ اپنے صوبائی دارالحکومت کے نام پر ہی ہوتا ہے۔ترکی کا سب سے بڑا صوبہ استنبول ہے جس کی آبادی ایک کروڑ پانچ لاکھ تہتر ہزار ہے جبکہ سب سے چھوٹا صوبہ آیدن ہے جس کی آبادی نو لاکھ چھیالیس ہزار نو سو ہے ۔

آزر بائیجان کی آبادی چوراسی لاکھ ستاسٹھ ہزار ہے جبکہ انتظامی امور کے لئے آذربائیجان کو 76 اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان میں 65 دیہاتی، 11 شہری اور 1 خودمختار علاقہ شامل ہیں۔ صدر ان علاقوں کے لئے گورنر کا تقرر کرتا ہے۔ ان کے اپنے مقامی سربراہ بھی منتخب ہوتے ہیں جن کے پاس مقامی سطح کے اختیارات ہوتے ہیں۔
اب ہم آتے ہیں پاکستان کی جانب ۔

چاروں صوبوں کے 114 اضلاع، آزاد کشمیر کے 7 اور گلگت و بلتستان کے 7 اضلاع ملا کر پاکستان میں کل 128 اضلاع ہیں۔ اس کے علاوہ قبائلی علاقوں کی سات ایجنسیاں بھی ہیں جن کی الگ حیثیت ہے۔1998ء کی مردم شماری کے مطابق صوبہ پنجاب کی آبادی سات کروڑ چھتیس لاکھ کے قریب ہے جبکہ آزاد زرائع 2014ء میں پنجاب کی آبادی نو کروڑ سے زائد قرار دیتے ہیں ۔اگر ہم پنجاب کا موازنہ برادر اسلامی ملک ترکی سے کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ترکی کی آبادی سات کروڑ اڑتالیس لاکھ ہے اورترکی81 صوبوں میں منقسم ہے۔

جبکہ پنجاب کی آبادی نو کروڑ ہے اور یہ ایک صوبہ ہے ۔اسی طرح صوبہ پنجاب کا موازنہ دنیا کے 206ممالک سے بھی کیا جاسکتا ہے جن کی آبادی پنجاب سے کم یا برابر ہے ۔یہ اپنی نوعیت کی چند مثالیں ہیں جہاں نو کروڑ عوام کیلئے ایک آئی جی پولیس ،ایک وزارت تعلیم ،ایک ہوم آفس،ایک وزرات زراعت،ایک وزارت خزانہ قائم ہے ۔قیام پاکستان کے وقت پنجاب کی آبادی دو کروڑ تھی اور اس آبادی کے کنٹرول کیلئے ایک آئی جی پولیس تھا جبکہ آج آبادی نو کروڑ ہے اور آج بھی ایک ہی آئی جی پولیس ہے ۔

صادق آباد کے رہائشی کو اگر وزارت تعلیم سے کچھ کام ہے تو اسے بارہ گھنٹے کا طویل سفر طے کر کے لاہور آنا پڑتا ہے ۔اسی طرح ڈی جی خان اور اٹک تک کے شہریوں کو اپنے صوبائی حقوق کی دستیابی کیلئے لاہور کاسفر طے کرنا پڑتا ہے جس کیلئے ناقابل برداشت زاد راہ بھی درکار ہوتا ہے ۔اب اگر پنجاب کے کچھ لوگ پنجاب کو مزید صوبوں میں منقسم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو اس میں برائی کیا ہے ؟۔


اسی طرح ہزارہ ڈویژن کے مکین اگر الگ صوبہ کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ بھی ایسی اچنبھے کی بات نہیں ۔صوبہ سرحد کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے ۔صوبہ سرحد میں چوبیس اضلاع ہیں ۔صرف ہزارہ ڈویژن کی آبادی پچاس لاکھ سے متجاوز ہے ۔دنیا میں 108ممالک یا ریاستیں ایسی ہیں جن کی آبادی پچاس لاکھ سے کم ہے ۔ترکمانستان کی آبادی انچاس لاکھ پینسٹھ ہزار ہے ،ناروے سینتالیس لاکھ ،سنگا پور چونتالیس لاکھ،جارجیا تینتالیس لاکھ ،متحدہ عرب امارات تینتالیس لاکھ،نیوزی لینڈ بیالیس لاکھ،لبنان چالیس لاکھ،کویت اٹھائیس لاکھ،عمان پچیس لاکھ،مقدونیہ بیس لاکھ،قطر آٹھ لاکھ اور مالٹا کی آبادی چار لاکھ ہے ۔

اگر پچاس لاکھ سے کم آبادی کے حامل خطے ملک اور ریاستیں اس دنیا میں موجود ہیں تو پھر ہزارہ ڈویژن کو الگ صوبہ کا درجہ دینے میں کیا قباحت ہے ؟۔میں اپنی تمام تر شعوری صلاحتیں خرچ کرنے کے باوجود یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ نئے صوبوں کے قیام سے وفاق کے استحکام پر کہاں ضرب پڑتی ہے ؟۔ایم کیو ایم بھی نئے انتظامی یونٹ یا نئے صوبوں کے قیام کیلئے متحرک دکھائی دیتی ہے ۔اگر پنجاب ، سندھ، خیبر پختونخواہ میں نئے صوبے بنا دیے جائیں تو یقینی طور عام افراد کو اس سے سہولت میسر آئے گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :